شوکت اشفاق
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریک انصاف کی حکومت کو تین سال پورے ہوچکے،اگر مگر کے لاحقہ کے باوجود حکمرانوں کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے معیشت کو ترقی کی راہ پر ڈال دیا ہے لیکن عام آدمی ایسا دعویٰ تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ وہ خود کو مہنگائی کی چکی میں پسہ دیکھ رہا ہے وزیر اعظم عمران خان اور ان کی ٹیم اب بھی تبدیلی کی جدوجہد بتاتے ہیں اور پہلے دن والا بیانیہ دوہراتے ہیں کہ ماضی کے حکمران بیس ارب ڈالر کا خسارہ چھوڑ کر گئے ہیں جس پر قابو پارہے ہیں اور ساتھ اضافی بیانیہ یہ کہ دنیا میں آج تک کسی نے ناکام ہوئے بغیر بڑا کام نہیں کیا اور جب تک مشکل وقت سے نہ گزریں اس وقت تک آپ بڑا کام نہیں کرسکتے
اب تبدیلی کے راستے کو بھی کٹھن قرار دے رہے ہیں اور کامیابی کو مزید طویل جدوجہد بتا رہے ہیں اور بیان مقرر ہیں کہ نہ صرف وفاقی بلکہ پنجاب حکومت نے بھی تاریخی کامیابیاں حاصل کی ہیں اب یہ کون سی تاریخی کامیابیاں ہیں اس پر حکومت اور ان کے میڈیا منیجرز تفصیل بتانے سے یکسر قاصر ہیں البتہ ماضی کی حکومتوں پر الزام تراشی اور کوسنے کا بیانیہ اپنی جگہ قائم ہے جس کے بارے میں شنید ہے کہ تحریک انصاف کی سیاسی ایڈوائزری کمیٹی نے انہیں تاکید کررکھی ہے کہ وہ جتنا عرصہ اقتدار میں رہیں عام آدمی کو روزانہ کی بنیاد پر یہ باور کراتے رہیں کہ سب کیا دھرا سابقہ حکومتوں کا ہے بلکہ صرف (ن)لیگ کی حکومت کا ہے لیکن انہیں شاید یہ معلوم نہیں کہ عام آدمی بھی اب اتنا بے خبر نہیں رہا جتنا وہ سمجھ رہے ہیں
انہیں بخوبی یاد ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے ادھورے مارشل لائی حکومت میں ڈالر 60روپے تک جاسکا تھا ملک کا ٹوٹل قرضہ 6ہزار ارب روپے تک تھا پٹرول سمیت دوسری اشیائے ضرورت کی قیمتوں سمیت پراپرٹی اور سونا چاندی کے ریٹ ذرا سی کوشش سے دیکھ کر اپنے آپ کو شرمندہ تو کیا جاسکتا ہے باقی رہا اپوزیشن کا شیرازہ وہ تو آپ کے نزدیک بکھر چکا ہے لیکن سیاست میں یہ بات دیکھنی بھی بہت ضروری ہے کہ وطن عزیز میں آج تک کسی سیاسی جماعت نے حکومت کی دوسری ٹرم نہیں لی،اگر یقین نہ آئے تو پنجاب کے گورنر سرور چوہدری سے پوچھ لیں یا مناسب سمجھیں تو سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہی سے ہی مشور ہ کرلیں کہ جہانگیر ترین سمیت جنوبی پنجاب صوبہ بناؤ محاذ کے تمام سابقین اب کس نئی سیاسی جماعت کیلئے صف بندی کررہے ہیں اور اس نئی نویلی جماعت میں آپ کی 22سالہ پرانی تحریک کے کون کون سے سُورما پرتول چکے ہیں۔
وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کا چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کے ساتھ جنوبی پنجاب کے خوبصورت سیاحتی مقام فورٹ منرو میں موجود گی گو کچھ کاروباری نوعیت کی تھی لیکن مستقبل کی سیاست میں ”بلوچ اتحاد“نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
ویسے بھی وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار جس طرح پنجاب حکومت چلا رہے ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ چار مرتبہ چیف سیکرٹری اور 5مرتبہ آئی جی پولیس تبدیل کرچکے ہیں،صوبے کے ڈویژنل ہیڈ کوارٹر ز اور اضلاع میں سمسٹر سسٹم کی طرح آئے روز سرکاری اہلکاروں کی تبدیلیاں ہورہی ہیں البتہ ایک آدھ ضلع میں بوجوہ کوئی تبدیلی نہیں کی جارہی حالانکہ وہاں بھی شکایتیں تو ہوں گی لیکن وہاں نظر انداز کرنے کا نظریہ اپنایا جارہا ہے ادھر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اپنے خطے میں ہونے والی تبدیلیوں پر فکر مند ہونے کی بجائے پی ڈی ایم کے جلسے سے خائف نظر آتے ہیں اور انہیں کورونا پھیلاؤ کا سبب قرار دے رہے ہیں اور دعویدار ہیں کہ پی ڈی ایم عملا ختم ہوچکی ہے کیونکہ وزیر اعظم عمران خان کے ملکی ترقی کا ایجنڈا موجود ہے اب معلوم وہ کس ایجنڈے کی بات کررہے ہیں کہ 72سال کا سفر 3سالوں میں طے کرگیا یعنی 72سال میں اتنی مہنگائی اور مایوسی نہیں پھیلی جتنا ان تین سالوں میں اضافہ ہوا ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر