محمد عامر خاکوانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’میری پیاری بیٹی ، میری نورنظر! یہ خط ویسے تو تمہارے ہی نام ہے، مگر اس خوبصورت شہر لاہور، ہمارے پیارے ملک پاکستان بلکہ مسلم دنیا کی ان گنت بچیوں کے چہرے میری آنکھوں کے سامنے گھوم رہے ہیں۔کاش میری یہ تحریرتمہارے ساتھ ان کے دلوں میں بھی اتر سکے۔ کاش رب تعالیٰ اس لفظوں میں وہ فسوں پھونکھ دیں، جن کا اثردیر تک رہے۔ میری بیٹی، تم حیران تو ہوگی کہ آج تمہارے باپ نے گفتگو کے لئے خط کا سہارا کیوں لیا۔ ایک وجہ تو یہی ہے کہ میں جو باتیں کرنا چاہتا تھا، وہ ایک سے زیادہ بیٹیوں تک پہنچ سکیں،یہ خیال آیا کہ کبھی لکھے الفاظ زبانی گفتگو سے زیادہ موثر ثابت ہوتے ہیں۔
میری آنکھوں کا نور، میرے دل کا ٹکڑا، میری لخت جگر لائبہ خاکوانی ، ہمیشہ یاد رکھو کہ تم مسلمان لڑکی ہو،خدائے واحد کو مانتی ہو، اس کے آخری رسول حضرت محمد ﷺکو اپنا پیغمبر، آقا اورحقیقی رہنما مانتی ہو۔ ایک مسلمان لڑکی اورمسلمان عورت کا زندگی کے بارے میں تصور دوسروں سے مختلف ہوتا ہے۔ اس کے اندر اعتماد، مضبوطی، اپنی شخصیت پر یقین ، کچھ کر گزرنے کا عزم … یہ سب ہونا چاہیے، مگر اسے اپنی زندگی اللہ اور اس کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق گزارنی ہے۔ اس کی زندگی کافکری، نظریاتی روڈ میپ پہلے سے طے شدہ ہے۔اپنی عقل ودانش کو وہ استعمال کرتی، اس سے اچھائی برائی میں تمیز کرتی اور پھر اپنے رب سے مدد مانگتے ہوئے قدم بڑھا دیتی ہے۔
اپنی عقل کو وہ الہامی دانش پر غالب نہیں کرتی۔ جو کچھ اللہ اور اس کے رسول نے کہہ دیا، وہ اس کے لئے حرف آخر ہونا چاہیے۔ ہمارے رب نے ہمارے لئے کچھ پابندیاں لگائی ہیں، بہت سے معاملات میں آزادی بھی حاصل ہے۔ کچھ چیزوں کو کرنے سے روکا ہے ، بہت سی چیزوں کی اجازت دی ہے۔یاد رکھو کہ اللہ نے عورت کو ایک خاص انداز میں جسم ڈھانپنے ، لباس پہنے کی ہدایت کی ہے۔ یہ رب نے ہی بتایا ہے کہ جسم کے تمام حصے اچھے طریقے سے کور ہوں۔ یاد رکھو کہ پردہ سکن کا نہیں بلکہ فگرکا، یعنی جسم کا ہوتا ہے۔
میرے بچے فتنوں کے اس دور میںباپردہ رہنا آسان نہیں۔ ہر قسم کے چیلنج ، آزمائشیں ہیں۔خوش نصیب ہیں وہ جو ہمت اورعزیمت سے اللہ کی راہ پر ڈٹے ہوئے ہیں۔کسی نے عبایہ پہن رکھا ہے،کوئی چادر سے جسم ڈھانپتا ہے، کسی کو لگتا ہے کہ بڑا دوپٹہ اوڑھنے سے جسم کور ہوجائے گا۔ اہم نکتہ یہی ہے کہ اپنے رب کو راضی کرنے کی کوشش کی جائے ۔جس نے جتنی زیادہ عزیمت دکھائی، اسے اتنا ہی زیادہ اجر ملے گا۔میری خواہش ہے کہ تم زیادہ اجر لینے والوں میں سے بنو۔
میری بیٹی میری تمہیں یہی نصیحت ، وصیت ہے کہ جن باتوں سے رب نے روکا، ان سے دور رہو۔ تمہاری عقل بہکائے گی، نفس دلائل دے گا کہ یہ چھوٹی موٹی باتیں ہیں،کرنے سے کچھ نہیں ہوتا وغیرہ وغیرہ۔ خبرداران باتوں پر کبھی کان نہ دھرنا۔ میرے بچے برائی کبھی چھوٹی نہیںہوتی۔ ایک برائی سے دوسری پھوٹتی ہے۔ ایک غلطی دوسری کو جنم دیتی ہے۔ کیمسٹری اور فزکس پڑھتے ہوئے تم نے چین ری ایکشن(Chain Reaction)کا پڑھا ہوگا، برائیاں اور غلطیاں ایسے ہی ایک چین یعنی زنجیر بناتی ہیں۔ کسی برائی کو معمولی سمجھنا ایک غلطی ہے۔
کچھ کام ہم کرتے ہیں کہ ایسا حکم ہے۔ کچھ نہیں کئے جاتے کہ ان سے روکا گیا،خواہ وہ چھوٹے ہوں یا بڑے۔ بعض لوگ ان غلطیوں کو جسٹیفائی کرنے کے لئے دلیل دیتے ہیں ، ایسا کر لو، کچھ نہیں ہوتا۔ میری لخت جگر ممکن ہے ان کے لئے کچھ نہ ہوتا ہو، مگر ایک مومن جو اللہ کو راضی کرنا چاہتا ہے، وہ کبھی یہ خواہش نہیں کرے گا کہ اس کے کسی کام سے رب ناراض ہوجائے۔
عقل کی بڑی اہمیت ہے۔یہ رب کا انسانوں کے لئے تحفہ ہے۔ دانائی ، دانش، حکمت ان سب کی اہمیت ہے۔ رب کریم نے اپنی عقل کو استعمال کرنے کی تلقین کی ہے۔دنیا میں قدم قدم پر اللہ کی نشانیاں بکھری ہیں، انہیں دیکھنے، سمجھنے، غور کرنے کی تاکید کی ہے۔
اپنی عقل ضرور استعمال کرو،مگر رب تعالیٰ کے احکامات سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کے لئے۔ برتری اللہ کے حکم کی ہے، انسانی سمجھ کی نہیں۔ جو حدود یا جو لائنز اللہ نے مقرر کر دی ہیں، انہیں کبھی کراس نہ کرو۔ شرم ، حیا اسلامی معاشرے کا بنیادی جز ہے۔ ہمارے آقا،ہمارے سردار ، سرکار مدینہ محمد ﷺنے فرمایا کہ ہر معاشرے کا ایک جوہر ہوتا ہے ، حیا اسلامی معاشرے کا جوہر ہے۔ میری بچی اپنی اس شرم اور حیا کی ہمیشہ حفاظت کرنا۔ اپنی عزت، عصمت کی ہمیشہ جان سے بھی بڑھ کر حفاظت کرنا۔ تم جب حجاب پہن کر کالج پڑھنے جاتی ہو، تمہارے چہرے پرحیران کن معصومیت اور تقدس آ جاتا ہے،تمہارے باپ کے دل سے ہمیشہ یہی دعا نکلتی ہے کہ زندگی بھر تم ایک باحجاب، با حیا زندگی گزارو۔
میں یہ ہرگز نہیں کہنا چاہتا کہ اپنی زندگی کے فیصلے دوسرے لوگوں کے ہاتھوں میں دے دو۔ نہیں، ہرگز نہیں۔ میری خواہش ہے کہ تم میں اعتماد آئے، تمہارے اندر مضبوطی پیدا ہو۔تم جانتی ہو کہ گھر میں بطور بیٹی فائدے زیادہ ملے ہیں، حق تلفی کبھی نہیں ہوئی، تمہارے تینوں بھائیوں کی نسبت تمہاری زیادہ فرمائشیں مانی گئی ہیں۔ اس دن میں نے خود سنا کہ تم نے اپنے بھائی سے کہا کہ میں بابا کی اکلوتی بیٹی ہوں، وہ میری بات نہیں ٹالتے۔ میری بیٹی، میری دعا ہے ہے کہ زندگی بھر یہی طمانیت، آسودگی تمہارے ساتھ رہے۔ یاد رکھو بطور لڑکی، بطور عورت تم ہرگز کسی سے کم تر نہیں۔
کسی مرد کو کسی عورت پر برتری حاصل نہیں۔جو یہ سوچتے ہیں وہ غلط ہیں۔ اللہ کے رسول ﷺ نے اپنی زندگی میں آنی والی ہر خاتون کو بے پناہ عزت اور تکریم دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رشتے دار خواتین ہوں، بیگمات یا آپ ﷺ کی عزیز بیٹیاں، ان سب کو بے پناہ عزت، وقار اور تحفظ دیا۔ اس لئے مرد اور عورت کی برابری کی لایعنی بحث کے بجائے اصل نکتہ یہ ہے کہ اسلام میں عورت کی عزت اور وقعت مرد سے کم نہیں۔ تم ایک لڑکی ، عورت ہو، کائنات کی خوبصورت ترین مخلوق۔
اس حیثیت سے لطف اٹھائو۔ اللہ نے تمہارے اوپر کچھ فرائض رکھے ہیں، وہ پورے کرو، تمہارے بہت سے حقوق بھی ہیں، جوتمہیں انشااللہ ضرور ملیں گے۔یہ مگر میری خواہش ہے کہ پلیز زندگی میں مرد بننے کی کوشش نہ کرنا۔ اگلے چند برسوں میں تمہارے سامنے یہ سوال بار بار آئے گا۔ میڈیا کے ذریعے، فلموں ،ڈراموںکے ذریعے تمہیں یہ بتایا جائے گا کہ ہم لڑکیاں کسی سے کم نہیں، ہم بھی ہر وہ کام کر سکتی ہیں جو مرد کر سکتے ہیں۔ میری بچی ، تم سمجھ لینا کہ یہ احساس کمتری کا شکار عورتوں کا بیان ہے۔ لڑکیاں مردوں سے کمتر نہیں، مگر ان کا دائرہ کار مختلف ہوسکتا ہے۔اس سے ان کی اہمیت کم نہیں ہوجاتی۔ انسانی جسم میں ہاتھ بڑے اہم ہیں، مگر پیر بھی کم اہم نہیں۔ ہاتھ کے بغیر بھی جسم ادھورا، پیر کے بغیر بھی انسان معذور ہے۔ کام دونوں کا الگ الگ ہے۔
آنکھوں کا اپنا کام، کان کا الگ اور زبان کا الگ ہے۔ اگر یہ سب ایک ہی کام کرنے لگیں تو انتشار پھیل جائے۔، انسان سلامت ہی نہ رہ پائے۔ اس لئے احساس کمتری کا شکار ہونے کے بجائے پورے اعتماد سے ایک عورت کی ذمہ داریاں نبھائو۔ اگر حالات کا تقاضا ہو توگھر سے باہر جا کر ملازمت بھی کرو، اپنے خاندان کی معاشی کفالت میں ہاتھ بٹائو۔ اگر اس کی ضرورت نہیں تو اپنے گھر کو سنبھالنا، اپنے اہل خانہ کا خیال رکھنا، نئی نسل کی بہتر تربیت کم اہم کام نہیں۔ اللہ کے رسول ﷺ نے ان کاموں کو اچھے طریقے سے سرانجام دینے والی عورت کو جنت کی خوش خبری سنائی۔
تم جانتی ہو کہ کسی مسلمان کے لئے جنت کی خبر سے بڑی اور اچھی کوئی چیز نہیں ۔ میری بچی ، میری آنکھوں کا نور،میں تمہیں یہی کہوں گا کہ اپنے فیصلے خود لو، سوچ سمجھ کر کرو، مگر حق کے آگے جھکنے، سرنڈر کرنے میں کبھی گریز نہ کرنا۔ اگر کوئی تمہیں حق کی طرف بلائے، اچھی نصیحت کرے تو اسے یہ سمجھ کر رد نہ کرنا کہ میں لوگوں کی نہیں اپنی مرضی کروں گی۔ نہیں یہ فتنہ ہے۔ شیطان کے پھیلائے ہوئے جالوں میں سے ایک جال۔ حتمی بات صرف اللہ کے رسول ﷺ کی ہے۔ جب بھی تمہیں کوئی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا قول سنائے، ان کا حکم بتائے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کا طریقہ سمجھائے تو میری بیٹی اپنے پہلے سے بنائے ہوئے تمام تصورات، آئیڈیاز، سوچ سے دستبردار ہوجانا۔ اللہ کے حکم کے ہر چیز ہیچ ہے۔ تب اپنی خواہشات قربان کر دینی چاہئیں۔ حق صرف رسول اللہ ﷺ کی طرف ہے، اسی حق کی طرف جھکنا اور اسے ہی پکڑنا ہے۔ یہی کامیابی کا راستہ ہے۔ اپنا آئیڈیل ، رول ماڈل ان کی بیٹی اور جنت میں خواتین کی سردار حضرت بی بی فاطمہؓ کو بنائو۔اماں عائشہؓ کو بنائو ،جن کے علم نے اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی رہنمائی کی۔رب تعالیٰ تمہارے لئے زندگی کا سفر آسان کرے، ہر مشکل وقت پراللہ کی مدد شامل رہے، آمین۔ (اسی نوعیت کا خط پانچ سال پہلے لکھا گیا، بعض حالیہ واقعات کے پیش نظر اس میں تبدیلیاں کر کے دوبارہ لکھاگیا۔)
یہ بھی پڑھیے:
عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر