ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
طالبان کو افغانستان میں ایک مرتبہ پھر اقتدار مل گیا ہے ۔ ہرکسی کوخدشہ تھا کہ سقوطِ کابل کے دوران اب کی بار بھی افغانوں کے قتل عام کے ساتھ ساتھ ملک کا انفراسٹرکچر بھی بری طرح تباہ ہوگا ۔لیکن الحمدللہ کہ طالبان نے ماضی کو نہیں دہرایابلکہ عام معافی کے اعلان کے ساتھ وہ کابل میں داخل ہوئے ۔ بعض حلقوں کا یہ کہنا ہے کہ ایک طرح سے اس کا کریڈٹ صدر اشرف غنی کو بھی جاتاہے جنہوں نے قوم اور ملک کے مفاد میں مزاحمت کا راستہ اختیار کرنے کے بجائے خود اقتدار چھوڑ دیا ۔
کابل پر چونکہ بہت آسانی سے طالبان کا قبضہ ہو گیایوں اس حوالے سے لوگوں کے ذہنوں میں بعض سوالات بھی پیدا ہوئے ہیں۔ مثلاًکیا بطور صدر اشرف غنی افغانستان کے ایک ناکام صدرثابت ہوئے یا ان کے ہاں سب کچھ ٹھیک چل رہاتھا اور اس کے باوجود بات کابل کے سقوط پر منتج ہوئی ؟کیا طالبان کو مفت میں حکومت مل گئی یا یہ ان کی طویل محنت شاقہ نے کا نتیجہ ہے
افغان فوج حقیقت میں اتنی کمزور تھی کہ ایک گوریلا جتھے کو کاونٹر کرنے سے بھی قاصر تھی ،وغیرہ ۔ یہ تمام وہ سوالات ہیں جومعتدل جوابات کے متقاضی ہیں۔یہ امر ہمیںبہر صورت تسلیم کرنا ہو گا کہ امریکہ افغانستان میں اپنی افواج اور ٹریلن ڈالرز کی قربانی دینے کیلئے مزید تیار نہیں تھا۔ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی ماننا ہوگاکہ خود کو تنقید سے بچانے کیلئے امریکہ طالبان کو افغانستان پر اتنی آسانی کے ساتھ قابض ہو نے دینا بھی نہیں چا ہتا تھا لیکن معاملہ اس کے برعکس نکلا ۔اپنی افواج کے انخلا کیلئے امریکہ نے گزشتہ سال فروری میں طالبان کے ساتھ ڈیل کی۔
یوںاگلے مرحلے میںامریکہ بین الافغان مذاکرات کے ذریعے گیند کو دراصل فریقین کے کورٹ میں ڈالنا چاہتا تھا ۔ مذاکرات کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کیلئے امریکہ نے نہ صرف طالبان قیدیوں کو افغان حکومت کے جیلوں سے رہائی دلوادی بلکہ صدر اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے بیچ تصفیہ بھی کرایا اور فریقین کو مذاکرات پرآمادہ کردیا۔ دوحہ میںمذاکرات کا آغاز بھی ہوالیکن بدقسمتی سے یہ ڈیڈ لاک کا شکار ہوا ۔
طالبان جنگ بندی کے لئے تیار نہیں ہوتے تھے جبکہ صدر اشرف غنی عبوری حکومت کے قیام کوسختی سے مسترد کرنے لگے۔مذاکراتی عمل کو آگے لیجانے کیلئے امریکہ کے پاس واحد آپشن عبوری حکومت کا قیام تھا جس کے قیام کیلئے امریکہ نے بار بار کوشش کی اور افغان سیاسی رہنمائوں کو بھی اعتماد میں لیا لیکن کامیابی نہیں ملی ۔ مجبوری کے عالم میں امریکہ آخر اتنا برہم ہوا کہ بائیڈن انتظامیہ نے مارچ میں اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے نام ایک دھمکی آمیز خط بھی روانہ کیا۔
اس خط کا لب لباب یہ تھا کہ اگر وہ (صدر اشرف غنی) عبوری حکومت کے قیام پر حامی نہیں بھریں گے تو پھر طالبان چند مہینوں کے بعد ملک کے وسیع تر علاقوں پر اپنا قبضہ جماسکتے ہیں۔ صدر اشرف غنی کے بارے میں یہ بتاتا چلوں کہ کہ ان کی بدقسمتی یہ تھی کہ حد سے زیادہ ضدی تھے۔ دوسری طرف اپنے پیشرو صدر حامد کرزئی کی طرح صدر غنی نے نہ تو امریکہ ، طالبان اور پاکستان کو سمجھاتھا نہ ہی وہ فغانستان کے زمینی حقائق کا پورا ادراک رکھتے تھے۔
مثلاً دوحہ معاہدے کے پہلے ہی دن اس نے امریکہ کو آنکھیں دکھاتے ہوئے کہا کہ امریکہ کی مرضی سے ان کی حکومت کسی صورت بھی طالبان کے پانچ ہزار قیدیوں کو رہا نہیں کریں گی ۔بعد میں جب وہاں کی طرف سے بھی انہیں آنکھیں دکھائی گئیں تو انہوں نے گاہے گاہے طالبان قیدیوںکو رہا کردیا یہاں تک کہ ان چارسو قیدیوں کو بھی رہائی دلوائی گئی جودوران جنگ سخت جرائم کا ارتکاب کرچکے تھے۔
اسی طرح اشرف غنی اپنے صدارتی حریف عبداللہ عبداللہ (جس نے خود کو متوازی صدر قرار دیاتھا) کیساتھ مذاکرات نہیں کرنا چاہتے تھے تاہم بعد میں امریکہ کے کہنے پھر انہیں حکومت میں شامل کرکے مصالحتی کمیشن کا سربراہ مقرر کیا ۔اور مصالحتی کمیشن کا سربراہ مقرر کرنے کے باوجود وہ عبداللہ عبداللہ کو اختیار دینا نہیں چاہتے تھے۔ طالبان قیدیوں کی رہائی اور عبداللہ عبداللہ سے مصالحت کے بعد بے شک انہوں نے بین الافغان مذاکرات کے عمل کو جوائن کیا لیکن نئے امریکی انتخابات تک وہ مذاکرات میں سنجیدگی دکھانے سے گریز کرتے رہے ۔
انہیں امید تھی کہ جوبائیڈن کے صدر منتخب ہونے کی صورت میں شاید دوحہ ڈیل منسوخ ہوجائے اور امریکہ ایک بار پھر افغانستان سے افواج نکالنے پر نظرثانی کرلے۔ جوبائیڈن امریکہ کے صدر منتخب ہوئے تو انہوں نے ٹرمپ والی پالیسی کو اسی طرح برقرار رکھا ۔ بغور جائزہ لیا جائے توصدراشرف غنی نے اپنی فوج کی ساکھ کوبھی بری طرح مجروح کرکے رکھ دیا تھا۔ انہیںجب یہ یقین ہوگیاتھا کہ امریکہ ، طالبان اور افغانستان کے سیاسی رہنما عبوری حکومت کے قیام کیلئے ایک پیج پرہیں اور عبوری سیٹ اپ کاقیام ناگزیر ہے توپھر انکا تین مہینے پہلے ہی اقتدار سے الگ ہونا غنیمت تھا۔
عبوری حکومت کے قیام کا فائدہ یہ ہوتا کہ سرے سے طالبان کی طرف سے فتوحات کرنے کی نوبت نہیں آتی یوں افغان فوج اپنی وقعت اور ساکھ کو برقرار رکھ سکتی تھی۔اسی طرح صدر اشرف غنی پاکستان کے معاملے میں بھی جذباتیت کا شکار تھے ۔وہ اپنے مشیروں کے ذریعے عین اس وقت بھی پاکستان کو للکارتے رہے جب طالبان نے افغان حکومت کے خلاف ایک فیصلہ لڑائی لڑنے کی ٹھان لی تھی۔ ظاہر بات ہے کہ ایسے موقع پر پاکستان کو طعنے دینا کوئی دانشمندان بات نہ تھی بلکہ الٹا اسے طالبان کو مزید کمک پہنچانے پرکمربستہ کرنا تھا۔ (جاری ہے) ٭٭٭٭٭
یہ بھی پڑھیں:
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر