نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

افغان مسئلہ پر تدبر کی ضرورت ||ظہور دھریجہ

اور یہ بھی دیکھنا ہو گاکہ افغانستان کی باگ ڈور جن لوگوں کے ہاتھ میں آئی ہے،وہ کتنے سمجھدار ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ لوگ جہاز سے چمٹے ہوئے تھے جہاز آ ن ا ئیر ہوا تو تین آدمی گر کر فوت ہو گئے ۔

ظہور دھریجہ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وزیراعظم عمران خان کی صدارت میں ہونے والے اجلاس کے دوران قومی سلامتی کمیٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ پاکستان افغانستان میں عدم مداخلت کے اصول پر سختی سے کار بند رہے گا،پاکستان اپنے پڑوس میں امن و استحکام چاہتا ہے اور سیاسی تصفیے میں سہولت کاری کے لیے عالمی برادری اور افغان سٹیک ہولڈرز سے مل کرکام کرے گا ۔ افغان گروہ یقینی بنائیں کہ افغانستان سرزمین پاکستان سمیت کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہ ہو۔
افغان طالبان نے دوسری مرتبہ اقتدار سنبھالا ہے سابقہ تجربہ خوش آئند نہیں ہے۔مگر اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ افغان تنازعہ کے حل کی ضرورت بڑھ گئی ہے ۔یہ بات اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ طالبان کے آنے کی خوشی کسی کو نہ بھی ہوئی ہو ،تب بھی ہر محب وطن پاکستانی اشرف غنی کے جانے پر خوش ہے ،اگر خوش نہیں تو بھارت نہیں کہ اشرف غنی نے پاکستان دشمنی کے لیے بھارت کو بہت سہولتیں دے رکھی تھیں، افغانستان میں بھارت کے 50 سے زائد ٹریننگ کیمپ تھے اور بھارت نے افغانستان کے ذریعے پاکستان کے خلاف جاسوسی کا بہت بڑا نیٹ ورک قائم کر رکھا تھا۔
بھارت میں صف ِماتم ہے اور 15اگست بھارت کا یوم آزادی صفِ ماتم میں تبدیل ہوا۔ یہ افغان مسئلے کا ایک پہلو ہے مگر طالبان کے مسئلے پر پاکستان کو سوچ سمجھ کر اپنی پالیسی ترتیب دینا ہو گی ۔ اور یہ دیکھنا ہو گا کہ 3دن گزرنے کے باوجود ابھی تک افغانستان کے سربراہ کا فیصلہ نہیں ہوا ۔یکطرفہ پروپیگنڈا ہو رہا ہے کہ طالبان نے امریکہ کو شکست دے دی ، ہم امریکہ کے طرفدار نہیں مگر حقیقت اس کے برعکس ہے ۔
دیکھا جائے تو امریکہ کا انخلاء معاہدے کے نتیجے میں آیا ،افغانستان میں امریکہ کے خلاف حقانی نیٹ ورک برسرپیکار تھا ۔حقانی کے خلاف کرزئی نے موجودہ طالبان کی سرپرستی کی اور امریکہ سے ان کا معاہدہ کرایا ۔ 2020ء کے معاہدے میں امریکی انخلاء کی بات شامل تھی ، امریکہ نے ہی موجودہ طالبان کو سہولتیں دیں اور دوحا میں اُن کا دفتر قائم کرایا اور قطر کی حکومت نے ہر طرح کی مدد کی ۔
زمینی حقائق کے مطابق اندر خانہ اشرف غنی کی حکومت کے خلاف تھی۔ امریکہ طالبان معاہدے پر بھی تحفظات تھے ۔ اشرف غنی کی رنجش کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ امریکہ طالبان معاہدے کے نتیجے میں پانچ ہزار طالبان رِہا ہوئے اور اس کے بدلے میں اشرف غنی کو کچھ بھی نہ ملا ۔مستقبل پر نظر رکھنے والے لوگوں کے لیے یہ بات سمجھنا کوئی مشکل نہ تھا کہ امریکہ نے پانچ ہزار جنگجو اپنی مخالفت کے لیے رِہا نہیں کرائے بلکہ اپنے مقاصد کے لیے رِہا کرائے ہیں۔امریکہ افغانستان میں اپنے مقاصد کے تحت کھیل کھیلتا آ رہاہے مگر اس کا خمیازہ پاکستان کو بھگتنا پڑتا ہے۔
افغانستان میں روس کو شکست ہوئی اور امریکہ نے کامیابی حاصل کی تو ہمارا سادہ لوح مسلمانوں نے اس وقت بھی کہا تھا کہ کفر کو شکست اور اسلام کو فتح حاصل ہوئی ہے۔امریکی بھی اپنے مقاصد کے لیے اسلام اور مجاہدین کو خراج تحسین پیش کرتے تھے مگر روس کے جانے کے بعد مجاہدین کے ساتھ امریکہ نے جو سلوک کیا وہ ہم سب کے سامنے ہے۔
افغان مسئلے کو دنیا کس نظر سے دیکھ رہی ہے، ہمسایہ ملک بھارت تو دشمن ہے، اس کی بات چھوڑیں، مگر دوست ہمسایہ ملک اس تبدیلی کو کس نظر سے دیکھتے ہیں،اس پر غور کی ضرورت ہے۔ امت مسلمہ کے لیے یہ بھی ایک المیہ ہے کہ مذہب کی بجائے مسلکی ممالک میں اضافہ ہو رہاہے ۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بھی افغانستان کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ان حالات میں پاکستان کو سوچ سمجھ کر اقدامات کرنا ہوں گے ۔
اور یہ بھی دیکھنا ہو گاکہ افغانستان کی باگ ڈور جن لوگوں کے ہاتھ میں آئی ہے،وہ کتنے سمجھدار ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ لوگ جہاز سے چمٹے ہوئے تھے جہاز آ ن ا ئیر ہوا تو تین آدمی گر کر فوت ہو گئے ۔
اس اہم اور نازک مسئلے پر پاکستانی قوم کو خوش فہمیوں سے نکالنے کی ضرورت ہے ،افغان مسئلے پر پہلے بھی بہت نقصان ہو چکا ہے او ر یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ جتنا نقصان ہوا اس کی ذمہ داری امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک پر عائد ہوتی ہے۔امریکہ نے افغانستان سے اپنا کھیل ختم نہیں کیا اپنے مقاصد کے لیے وہ نئے کھلاڑی میدان میں لایا ہے ۔بابا بلھے شاہ نے فرمایا تھا ، ’’آپ ای سُٹدائے ڈوریاں تے آپ ای کھچدائے ڈور‘‘ امریکی ادارے سی آئی اے ، پینٹا گان اور اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اب بھی متحرک ہیں ۔
ایک بات یہ بھی ہے کہ طالبان کے کابل میں داخل ہونے سے پہلے امریکی صدر نے بیان دیا تھا کہ اشرف غنی کو کابل چھوڑ دینا چاہیے اور اقتدار طالبان کے حوالے کر دینا چاہیے ، یہ بیان کوئی ریاضی کا سوال نہیں تھا جو سمجھ نہ آئے لیکن ایک بات یہ بھی ہے کہ امریکہ غریب اور مسلمان ملکوں کی دشمنی کے لیے جتنے وسائل خرچ کررہا ہے ،اگر اس کا عشر عشیر بھی انسانی فلاح اور غربت کے خاتمے کے لیے خرچ کیا جائے تو دنیا میں بہتری آ سکتی ہے ۔
مستقبل کے بہت سے سوالات ہیں طالبان کا رویہ کیسا ہو گا ؟طرز حکمرانی کیا ہوگا ؟ افغانستان کی سرزمین ہمیشہ پاکستان کے خلاف استعمال ہوتی آ رہی ہے۔ لیکن اب اُن کا آئندہ رویہ کیسا ہوگا ؟افغانستان میں طالبان کے دیگر گروہ بھی برسر پیکار ہیں کیا وہ موجودہ طالبان کی حکومت کو تسلیم کرلیں گے ؟کیا طالبان خواتین اور اقلیتوں کو ان کے انسانی حقوق دیں گے ؟ کیا افغانستان میں بسنے والی قوموں کوان کے تہذیبی و ثقافتی حقوق حاصل ہوں گے ؟ افغانستان میں مذہبی فرقہ واریت کا خاتمہ ہو گا ؟یہ اور اس طرح کے بہت سے سوالات ہیں جن پر غور کی ضرورت ہے ۔

 

 

یہ بھی پڑھیں:

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

About The Author