مجاہد حسین خٹک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت عرصہ پہلے کی بات ہے کہ گریجویشن کا امتحان دینے کے بعد کوئی ہنر سیکھنے کا جنون طاری ہوا تو لکڑی کی ایک ورکشاپ جا پہنچا۔ اس کا مالک چونکہ والد صاحب کا دوست تھا تو اس نے بغیر کوئی بات کیے کام پر لگا دیا۔ وہ ورکشاپ ایک طویل ہال کی طرح تھی جس میں درجن سے زیادہ لوگ مسلسل کام میں جتے رہتے تھے، وہاں فرنیچر بھی تیار کیا جاتا تھا اور کھڑکیاں، دروازے بھی بنتے تھے۔ جون کے مہینے کی کڑکتی گرمی میں جب اوزار چلانے پڑتے تو سب پسینے میں نہا جاتے تھے لیکن نیا ہنر سیکھنے کی لگن سب تکالیف پر حاوی رہتی تھی۔
اسی ورکشاپ کے کونے میں ایک ضعیف سا شخص خاموشی سے لکڑیوں پر مختلف قسم کے نقش و نگار بنانے میں مگن رہتا تھا۔ وہ ایک مردم بیزار شخص تھا جس سے گفتگو کی ہر کوشش سردمہری کے بحر منجمد میں کھو جاتی تھی۔ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد طبعی تجسس غالب آیا تو پرانے کام کرنے والوں سے اس کے بارے میں دریافت کیا۔ انہوں نے بتایا کہ نقش و نگار بنانے میں جو کمال اس ضعیف کاریگر کو حاصل ہے، وہ مارکیٹ میں کسی اور کے پاس نہیں ہے۔ تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس کے قریب بھی جا کر کھڑے نہ ہوا کرو کیونکہ وہ اپنا ہنر سب سے چھپاتا ہے اور ہر شخص کو شک کی نظر سے دیکھتا ہے۔
اس بزرگ کے پاس چھوٹے چھوٹے مختلف قسم کے اوزار بھی تھے جنہیں وہ چھپا چھپا کر استعمال کرتا تھا۔ ایک اوزار کام میں لانے کے بعد اسے تھیلے میں رکھتا اور دوسرا نکالتا تھا تاکہ کوئی کاریگر تمام اوزاروں کو یکجا دیکھ کر اس کے ہنر کا کوئی جزو سیکھ نہ لے۔ کسی کو بھی اس کے میلے کچیلے تھیلے کے قریب جانے کی اجازت نہیں تھی جہاں عمر وعیار کی زنبیل کی طرح اوزاروں کی ایک منفرد دنیا آباد تھی۔
وقت گزرتا گیا، میرا جنون بھی سرد پڑ گیا اور وہ بزرگ بھی اپنے ہنر کے تمام اسرار سینے میں چھپائے اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔ زندگی کے آخری لمحے تک اس نے کسی کو اپنے فن کی ہوا نہ لگنے دی۔ قدرت کے اصولوں کے تحت اس کا خلا پر کرنے کے لیے شروع میں چند کمتر درجے کے کاریگر میدان میں آئے، پھر ان میں سے کئی نے اپنے ہنر کو صیقل کیا اور اس میں اعلیٰ درجے کی مہارت حاصل کر لی۔
اس کے بعد مشینی دور شروع ہوا تو لوہے کے ان بے جان ٹکڑوں سے تھوڑے وقت میں بہت زیادہ کام لینا ممکن ہو گیا۔ نقش ونگار میں تنوع اس پر مستزاد تھا۔ بجلی سے چلنے والی یہ مشینیں نہ ہی مردم بیزار تھیں اور نہ ہی اپنے فن پر اجارہ داری کی کوشش کرتی تھیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان میں بھی جدت آنے لگی تو اولین دور کی مشینیں بنا کوئی صدائے شکوہ بلند کیے کباڑیوں کی دکانوں پر سج گئیں۔
پاکستان میں پرائیویٹ اداروں سے لے کر سرکاری شعبوں کا جائزہ لیں تو یہ بات سامنے آئے گی کہ یہ تمام اشخاص کے اردگرد گھومتے ہیں، ایک چلتے نظام سے مرکزی فرد کو نکال دیا جائے تو سب کام ٹھپ ہو جاتے ہیں، پھر ایک نیا شخص میدان میں آتا ہے جو اپنی ذات کو مرکزی اہمیت دینے کے نئے زاویے تلاش کر کے سب کچھ ازسرنو شروع کر دیتا ہے۔ یہ سلسلہ کنویں کے گرد گھومتے بیل کی طرح جاری رہتا ہے۔
مختلف اداروں اور ان کے ذیلی شعبوں کے سربراہ یا تو جان بوجھ کر اپنی ذات کی مرکزیت قائم رکھتے ہیں یا وہ انجانے میں اس کلچر کو جاری رکھتے ہیں جس میں اداروں کو افراد کا دست نگر بنا دیا جاتا ہے۔ کارپوریٹ سیکٹر ہو یا ریاست کا نظام، ہر جگہ بوڑھے کاریگر جیسی نفسیات نے اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہیں۔ اصولی طور پر اداروں کو مشینوں کی طرح کام کرنا چاہیئے، ان میں کوئی پسند و ناپسند نہیں ہونی چاہیئے، قوانین اور ضوابط کا جو سانچہ ان پر لگا دیا جائے وہ اسی کے مطابق کام کرنے لگیں۔ کاریگر تبدیل ہوتے رہیں پھر بھی کام میں کوئی فرق نہ آئے۔ لیکن ایسا نہیں ہو رہا۔
تاریخی قوتوں نے سیاسی وجوہات یا ٹیکنالوجی میں ترقی کے باعث ہمیں جدید دور میں دھکیل تو دیا ہے لیکن دور قدیم کا وہ کلچر پوری قوت سے ہماری ذات میں گڑا ہوا ہے جس میں مملکت کی سطح پر بادشاہ اور علاقائی سطح پر جاگیردار مرکزی حیثیت رکھتے تھے۔ تمام تر اختیارات کا منبع وہ خود ہوا کرتے تھے۔ وہ فیصلے بھی کرتے، قوانین بھی وہی بناتے تھے اور ان پر عمل درآمد کے سوتے بھی انہی کی ذات سے پھوٹا کرتے تھے۔ ایک اچھا حکمران اگر عوام کی بہتری کے کام کر جاتا تھا تو اس کا نالائق جانشیں سب کچھ تباہ کر دیتا تھا۔ اداروں کو مضبوط کرنا اس وقت بھی ہماری ترجیح نہیں تھا اور اب بھی اس طرف جانے سے ہم کتراتے ہیں۔
پاکستانی سیاست میں بھی یہی رجحان کارفرما رہا ہے۔ ملکی تاریخ میں اگر معیشت، انفراسٹرکچر کی ترقی یا خارجہ پالیسی کے حوالے سے چند سال اچھے گزرے بھی ہیں تو اسے روایت کی شکل دے کر اداروں میں نہیں پھیلایا جا سکا۔ ایوب خان کے جاتے ہی ملکی معیشت کا پہیہ زوال پذیر ہو گیا، ذوالفقارعلی بھٹو کے رخصت ہونے کے بعد خارجہ پالیسی افغانستان میں جاری جنگ کی مرہون منت ہو کر رہ گئی۔
بوڑھا مستری تو کب کا اس دنیا سے رخصت ہو گیا لیکن اس کی روح ابھی تک پاکستان کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک حکمرانی کر رہی ہے۔ ہمیں جلد از جلد اپنے اجتماعی وجود سے اس بے چین آتما کی رخصتی کا منتر تلاش کرنا ہو گا تاکہ ہمارا ملک بھی ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہو سکے۔
(پرانی یادیں)
یہ بھی پڑھیے:
چار سالہ پارلیمانی مدت، ایک سوچ ۔۔۔ آفتاب احمد گورائیہ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر