نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امریکی میڈیا میں ماتم برپاہے۔وہاں دہائی مچانے والے نام نہاد مفکرومبصر بنیادی طورپر اس فکر میں مبتلا نہیں کہ طالبان کی برق رفتار پیش قدمی کے نتیجے میں ہزاروں افغان اپنے گھر بار چھوڑ کر نقل مکانی کو مجبور ہوئے۔ عورتوں اور بچوں سمیت کئی گھنٹوں تک پیدل چلنے کے بعد وہ کابل اور قندھار جیسے شہروں کے نواحی علاقوں میں پناہ کے متلاشی ہیں۔بے شمار افراد پلاسٹک کے بنائے خیموں میں رہنے کو مجبور ہوئے۔ایک وقت کے کھانے کے لئے بھی وہ ہمارے ہاں مزاروں کے باہر جمع ہوئے ہجوم کی طرح راشن کے حصول کے لئے دل دہلادینے والی تگ ودو میں مصروف ہیں۔ایمان داری کی بات یہ بھی ہے کہ امریکہ کی افغانستان میں ذلت ورسوائی کی بابت شادیانے بجانے والے بے شمار پاکستانی بھی انسانی ذلت کے ان مناظر کو نظرانداز کئے ہوئے ہیں۔
مذاکرات کی میز پر جو طے ہونا تھا وہ دوحہ میں گزشتہ برس کے اختتام میں طے ہوگیا تھا۔دنیا کی واحد سپرطاقت کہلاتے امریکہ نے طالبان نہیں ’’امارات اسلامی افغانستان‘‘ کو تحریری طورپر یقین دلایا کہ اس کے علاوہ نیٹو افواج بھی 2021کے ابتدائی تین ماہ گزرتے ہی ان کے ملک سے نکل جائیں گی۔ بہتر تو یہی تھا کہ اس معاہدے پر دستخط کے بعد طالبان کے نمائندوں کو ’’امارت اسلامی افغانستان‘‘ تسلیم کرتے ہوئے ان سے درخواست کی جاتی کہ غیر ملکی افواج کی بحفاظت واپسی اور اقتدار کی پرامن منتقلی کے راستے بنائیں۔ دوحہ میں ہتھیار ڈالنے کے بعد یہ توقع رکھنا واضح حماقت تھی کہ مذاکرات کی میز پر کامران ٹھہرا فریق اشرف غنی حکومت سے نام نہاد پرامن انتقال اقتدار اور ’’سب کے لئے قابل قبول حکومت‘‘ کے قیام کے لئے گفتگو کرے گا۔دوحہ میں ہوا معاہدہ سادہ لفظوں میں یوں کہہ لیجئے کہ سول عدالت کا جائیداد پر قبضے کے تناظر میں ہوا فیصلہ تھا۔جس فریق کے حق میں یہ فیصلہ ہوا وہ ہر طریقے سے اپنا ’’حق‘‘ وصول کرنے کا حق رکھتا تھا۔
جو اعدادوشمار میں نے بیان کئے ہیں ذاتی تحقیق سے میسر نہیں ہوئے۔امریکہ کے افغانستان میں ہوئے خرچ پر نگاہ رکھنے کا ایک باقاعدہ ادارہ ہے۔اس کا ہوا ’’آڈٹ‘‘ مگر امریکی عوام سے چھپایا جاتا تھا۔ واشنگٹن پوسٹ جیسے اخباروں نے ٹھوس اطلاعات تک رسائی کے آئینی حق کو استعمال کرتے ہوئے عدالتوں کے ذریعے امریکی حکومت کو مجبور کیا کہ اس ادارے کی جانب سے تیار ہوئی رپورٹس عوام تک پہنچانے کے لئے انہیں فراہم کی جائیں۔وہ رپورٹس پڑھتے ہوئے آپ بآسانی جان سکتے ہیں کہ امریکی فوج افغانستان میں ’’اچھی حکومت‘‘ قائم کرنے کو ہرگز تعینات نہیں ہوئی تھی۔ افغانستان میں درحقیقت امریکی فوج اور اس کے لئے کام کرنے والے ٹھیکے دار منافع کمانے کا طویل ’’سیزن‘‘ لگارہے تھے۔
اسی لئے مجھے ہرگز حیرت نہیں ہوئی جب امریکہ کو بالآخر طالبان سے فریاد کرنا پڑی کہ وہ کابل میں داخل ہونے سے قبل اس شہر میں قائم امریکی سفارت خانے میں چار ہزار کے قریب افراد کو وہاں سے نکلنے دیں۔پانچ ہزار امریکی فوجی اب کابل ایئرپورٹ پر ہیلی کاپٹروں اور جہازوں کی کثیر تعداد سمیت موجود ہیں۔کوشش ہورہی ہے کہ امریکہ کو ویسی ذلت نہ دیکھنا پڑے جو اسے 1975میں جنوبی ویت نام کے دار الحکومت سائیگان سے نکلتے ہوئے نصیب ہوئی تھی۔اشرف غنی اور اس کی فوج کا حقیقی سرپرست یعنی امریکہ جب اپنی جان بخشی کی فریاد کرنے لگے تو وہ دوستم جیسے پاٹے خان دلاوروں کی مدد کو کیوں آمادہ ہوتے۔
افغانستان میں گزشتہ دو سو برسوں سے چلائی عالمی قوتوں کے مابین ’’گریٹ گیم‘‘ کے ایک اور باب کا اب اختتام ہونے کوہے۔ یہ مگر آخری باب نہیں۔کچھ ہی عرصے بعد ایک نئی کہانی کا آغاز ہوگا۔ جس کے کردار بھی حیران کن حد تک ’’نئے‘‘ ہوںگے۔
بشکریہ نوائے وقت
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر