نومبر 5, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

افغانستان میں کیا ہو رہا ہے||رؤف لُنڈ

جب سب کچھ ھی ویسے کا ویسا ھے، جیسے تھا یا جو اب تک ہوتا رہا اور ایسے ھی ہوتا رھے گا تو پھر ہوا کیا۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟ پھر ھماری سماعتوں ، ھماری بصارتوں اور ھمارے ذہنوں پر ڈاکہ کیوں اور کس لئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟

رؤف لُنڈ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

افغانستان میں کیا ہو رہا ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟ افغانستان میں دکھائی جانے والی تبدیلیِ اختیار و اقتدار افغان عوام کے مفادات کی نگہبان ھے یا پھر افغانستان میں جاری وحشتوں کا تسلسل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟

افغانستان بارے نئی خبروں پر بات کرنے سے پہلے ذرا اس بات پر تو غور کر لیا جائے کہ افغانستان سے مراد محض کسی مخصوص جغرافیائی خطہ کے اندر صرف کچھ مخصوص لوگ ہیں ؟ ان مخصوص لوگوں کو مخصوص قوتوں کی طرف سے مختص کردہ کوئی مخصوص کردار ھے ؟ یا اس کے علاوہ بھی کچھ ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟
طبقاتی سماج کے بالادست میڈیائی خبروں ، اطلاعات اور تحریروں کو سامنے رکھیں تو پتہ چلے گا کہ گذشتہ تقریباً چار دہائیوں سے یہاں طالبان ہیں ، امریکہ ھے، اسلحہ ھے، سمگلنگ ھے،ہیروئن ھے،اغواء برائے تاوان ھے، بین الاقوامی اتحادی افواج ہیں، جہاد ھے ، جہاد نہیں ھے ، یہاں انڈیا کے، پاکستان کے، سعودیہ کے ، ایران کے چین کے، ترکی کے مفادات ہیں اور طالبان مخالف کچھ نام ہیں ، کچھ وار لارڈز ہیں اور یہ سب گذشتہ چالیس سالوں سے آپس میں لڑتے رھے ہیں، جُڑتے رھے ہیں اور بس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آج تک کی بھی خبریں ہیں تو اس قدر کہ امریکی اور اتحادی فوجیں چلی گئی ہیں، واپس آ گئی ہیں۔ طالبان اور غیر طالبان ہیں۔ پھر ان میں ھی سب وھی نام ہیں کہ جو تھے۔ وہ جا رھے ہیں ، وہ آ رھے ہیں۔ان کو ایسا کرنا چاہئے ان کو ویسا کرنا چاہیے۔

جب سب کچھ ھی ویسے کا ویسا ھے، جیسے تھا یا جو اب تک ہوتا رہا اور ایسے ھی ہوتا رھے گا تو پھر ہوا کیا۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟ پھر ھماری سماعتوں ، ھماری بصارتوں اور ھمارے ذہنوں پر ڈاکہ کیوں اور کس لئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟

سوال یہ ھے کہ کیا افغانستان صرف انہی کرداروں کی ملکیت ھے جو اب تک کے چالیس سالوں سے افغانستان کے وسائل پر اپنے خونی پنجے گاڑے ہوئے ہیں؟ جن کے مفادات کے تحفظ کیلئے افغانستان میں آتش و آہن برسا کر اسے کھنڈر بنا دیا گیا ھے؟ یا افغانستان میں جو اب تک ہوتا چلا آیا ھے اس کا افغانستان کی لاکھوں کروڑوں کی آبادی سے بھی کوئی تعلق ھے؟ اس سارے عرصہ میں ، ان سارے چالیس سالوں میں افغانستان کی سڑکوں ، بجلی، پانی، اناج، تعلیم، روزگار، سفر، تفریح، علاج، امن، بچوں، عورتوں، بزرگوں، اپاہجوں ، مفلسوں اور مسکینوں بارے کسی نے کبھی سنا ؟ اب تک کسی نے افغانستان میں عوامی احتجاجی مظاہروں کی کوئی خبر آئی؟ ملکی سطح پر ہونے والی کسی ملکی ہڑتال کی اطلاع کسی نے سُنی؟ عوامی مظاہروں میں ملک کی فلاح و بہبود اور قومی اداروں کی سدھار بارے مطالبات سامنے آئے۔۔۔۔۔؟
کیا مطالبات نہ مانے جانے کی صورت میں افغان عوام اٹھ کھڑے ہوئے؟ افغان عوام کے خوف سے توجہ ہٹانے کیلئے پاکستان اور ایران نے افغانستان پر فوجی حملے کئے ؟ کوئی جنگ چھڑی؟ چین ، جاپان، جرمنی، برطانیہ، فرانس اور پاکستان و ایران سمیت اسلامی ممالک میں سے افغانستان کے خلاف کوئی معاشی اور دفاعی پابندیوں کی دھمکی سامنے آئی؟ کچھ بھی سامنے نہیں آیا نا ؟ تو پھر یہ نہ اختیار کی منتقلی ھے نہ اقتدار کی۔۔۔۔۔۔
یہ بندر بانٹ ھے ان عالمی سامراجی بندروں کے درمیان جو چالیس سالوں سے افغانستان کے لاشے کو بھنبھوڑ رھے ہیں اور اس کے بدن سے لہو نچوڑ رھے ہیں۔ اور ان سامراجی درندوں کا واحد مقصد افغانستان سمیت دنیا بھر میں وحشت و بربریت کی جکڑ بندی مضبوط کرنا ھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ھم افغانستان میں جاری چالیس سالہ ناٹک کے تسلسل کو مسترد کرتے ہیں ۔۔۔۔۔ کامریڈ لال خان کہتے تھے کہ جب عوام سیاست (اپنا کردار ادا ) نہیں کرتے تو عوام کے ساتھ سیاست ( بے ایمانی ) ہوتی ھے۔ کیا ہوا کہ اگر آج افغان عوام سیاسی دھارے سے کٹی ہوئی ھے۔ لیکن بہت جلد وہ وقت آئیگا کہ جب افغان عوام/افغانستان کا محنت کش طبقہ طبقاتی لڑائی کے میدان میں اترے گا ۔ تب تک ھمارا افغانستان کے اندر ایسی کسی تبدیلی سے کوئی تعلق نہیں۔ ھم صرف اور صرف اس منتقلیِ اقتدار کی حامی ہیں جو اکثریتی افغان عوام کی طرف سے ہوگی اور جو افغان عوام کے مفادات کی ترجمان و نگہبان ہوگی اور جس کی طبقاتی فتح کے نتیجہ میں افغانستان پتھر کے دور سے نکل کر پہلی بار کائنات میں موجود قدرتی مناظر کو مسخر کر کے انسانوں اور انسانیت کے لئے بروئے کار لانے کے قابل ہوگا ۔۔

 مبارک باد اور سرخ سلام۔۔۔رؤف لُنڈ

اک ذرا صبر کہ جبر کے دن تھوڑے ہیں۔۔۔رؤف لُنڈ

 کامریڈ نتھومل کی جدائی ، وداع کا سفر اور سرخ سویرے کا عزم۔۔۔رؤف لُنڈ

زندگی کا سفر سر بلندی سے طے کر جانے والے کامریڈ کھبڑ خان سیلرو کو سُرخ سلام۔۔۔رؤف لُنڈ

رؤف لُنڈ کی مزید تحریریں

About The Author