نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہنگری یورپ کا ایک نسبتاََ چھوٹا ملک ہے۔راولپنڈی اوراسلام آباد کی طرح اس کے بھی دو قصبے ہوا کرتے تھے جنہیں دریا ایک دوسرے سے جدا کرتا تھا۔ان دونوں کو ملانے کے لئے ایک پل تعمیر ہوا۔اس کی وجہ سے دونوں شہر یکجا ہوکر بڈاپیسٹ کہلائے اور اکائی کی صورت ہنگری کا دار لحکومت بن گئے۔بہت تاریخی اور خوب صورت شہر ہے۔
اس شہر کا ذکر مگر مقصود نہیں۔ توجہ درحقیقت ہنگری کے ان دنوں مردِ آہن ہوئے وکٹر اوربان پر مرکوز رکھنا ہے جو گزشتہ دس برسوں سے اس ملک کا وزیر اعظم ہے۔سوویت یونین کے زوال کے بعد ہنگری ’’جمہوری‘‘ بن گیاتھا۔یورپی یونین میں بھی شامل ہوگیا۔وہاں کئی ایسے علمی ادارے قائم ہوئے جو جمہوری فکر کو توانا تر بنانے کے لئے سماجی تحقیق پر توجہ مبذول رکھتے۔ ان اداروں کی وجہ سے امید یہ ابھری کہ ہنگری جمہوریت اور انسانی حقوق کے حوالے سے دنیا کا نظریاتی مرکز بن جائے گا۔اوربان کو مگر یہ تمام ’’چونچلے‘‘ پسند نہیں آئے۔ ہنگری کے عوام کو اس نے وطن پرستی اور روزمرہّ زندگی کی ضروریات سے نبردآزما ہونے کے نام پر متحرک کیا۔ ’’دیدہ ور‘‘ کی صورت نمودار ہوکر بالآخر وہاں کا مردِ آہن بن گیا۔یورپ کے ’’جمہوریت نواز‘‘ کہلاتے حلقے اس کی بابت انتہائی شرمندہ محسوس کررہے ہیں۔انہیں مگر سمجھ نہیں آرہی کہ اوربان کو قابو میں کیسے لائیں۔
یورپ کے مقابلے میں دنیا کی واحد سپرطاقت کہلاتا امریکہ ہے۔وہاں موجود ٹرمپ کے جنونی حامی ہنگری کے وکٹر اوربان کو مگرہیرو کی صورت لے رہے ہیں۔بہت شدت سے دعویٰ کررہے ہیں کہ اگر امریکہ کوبھی اوربان جیسا رہ نما نصیب ہوجائے تو وہاں کی سفید فام اکثریت وطن پرست ہوجائے گی۔خاندانی نظام کا احترام کرے گی۔مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو ان کی اوقات میں رکھے گی۔چند دن قبل یہ پیغام اجاگر کرنے امریکہ کے مشہور ومقبول قدامت پرست ٹی وی چینل Foxکا ایک مقبول ترین اینکر ہنگری پہنچ گیا۔اس نے وہاں سے کئی Liveپروگرام کئے۔ اوربان کی سوچ کو ان کے ذریعے ’’تھاجس کا انتظار…‘‘ والا دیدہ ور بناکر پیش کرتا رہا۔
امریکہ کے وہ لکھاری جو خود کو ترقی پسند،جمہوریت نواز اور انسانی حقوق کے علمبردار سمجھتے ہیں اپنے ملک کے بااثر میڈیا پلیٹ فارموں کے ذریعے اوربان کی ستائش بھری تشہیر کے بارے میں نہایت فکر مند محسوس کررہے ہیں۔انہیں سمجھ نہیں آرہی کہ قطعی آمرانہ مزاج کے حامل ایک متعصب نسل پرست کو امریکی عوام کے لئے’’ہیرو‘‘ بناکر کیوں پیش کیا جارہا ہے۔نیویارک ٹائمز کے ایک کالم نگار نے بھی تین روز قبل اسی کے بارے میں ایک لمبا چوڑا مضمون لکھا ہے۔مذکورہ مضمون میں ایک مشہور ناول نگار جارج اورویل (George Orwell)کی ایجاد کردہ ایک اصطلاح کا ذکر بھی ہوا۔وہ اصطلاح ہے Transformed Nationalism۔ میں دو روز تک اس کا اردو متبادل ڈھونڈتا رہا۔ ناکامی ہوئی۔
سادہ لفظوں میں جارج اورویل کا تجزیہ تھا کہ کسی بھی ملک کے سوچنے سمجھنے والے اپنے معاشرے کی ’’مثبت‘‘ باتوں اور رویوں سے مطمئن ہونے کے بجائے منفی باتوں اور رویوں کی بابت کڑھتے رہتے ہیں۔انہیں مگر یہ خوف لاحق ہوجاتا ہے کہ وہ اگر مسلسل منفی باتوں اور رویوں پر سخت الفاظ میں اپنے حقیقی جذبات کا اظہار کرتے رہیں تو بالآخر ’’غدار‘‘ یا ’’ملک دشمن‘‘ ٹھہرائے جائیں گے۔ممکنہ الزام کے خوف سے وہ کوئی ایسا ملک ڈھونڈنا شروع کردیتے ہیں جو ان کی دانست میں پوری دنیا کے لئے قابل تقلید مثالی نظام کی تعمیر میں مصروف ہے۔ ان کی ’’وطن پرستی‘‘ کی جبلت اس ملک کی ستائش کی جانب منتقل ہوجاتی ہے۔اسی باعث اس نے Transformedکا لفظ استعمال کیا۔جارج اورویل درحقیقت مذکورہ اصطلاح کے استعمال سے اپنے دور کے ان برطانوی دانشوروں کی بھد اڑارہا تھا جو سوویت یونین کے متعارف کردہ کمیونسٹ نظام کو دنیا بھر کے لئے قابل تقلید مثالی نظام کی صورت جنونی انداز میں پیش کررہے تھے۔ ہمارے ہاں کئی ترقی پسند بھی 1990کی دہائی تک ایسا ہی رویہ اپنائے ہوئے تھے۔ افغان جہاد کی بدولت سوویت یونین ہی نہیں اس کا متعارف کردہ نظام بھی تاریخ کے کوڑے دان میں چلا گیا۔لطیفہ یہ بھی ہے کہ کمیونزم کی نظر بظاہر واضح شکست کے باوجود اسی نظام پر آج بھی کاربند ہونے کا دعوے دار ہمارا یار چین پاکستان ہی نہیں دنیا کے بے تحاشہ ممالک میں قابل رشک شمار ہوتا ہے۔ ہمارے وزیراعظم بارہا دہراتے رہتے ہیں کہ اگر انہیں چینی حکمرانوں جیسے اختیارات میسر ہوں تو وہ پاکستان کی تقدیر اپنے خوابوں کے مطابق بدل سکتے ہیں۔ہمارے ہاں ’’صدارتی نظام‘‘ کی فریاد کرتے ہوئے بھی ایسی ہی خواہش کا اظہار ہوتا ہے۔1958سے رونما ہونے والے ایوب خان جیسے ’’دیدہ ور‘‘ ہمیں ایسے ہی خواب دکھاتے رہے تھے۔ایوب خان کے دس،جنرل ضیاء کے گیارہ اور جنرل مشرف کے نو برسوں کے باوجود مگر ہم حقیقی معنوں میں ’’بدل‘‘ نہیں پائے ہیں۔ان دنوں عمران خان صاحب بھی گزشتہ ’’دیدہ وروں‘‘ کی طرح ہماری تقدیر بدلنا چاہ رہے ہیں۔’’بات چل نکلی ہے اب دیکھیں کہاں تک پہنچے‘‘۔Transformed Nationalismکی اصطلاح نے لیکن مجھے افغان طالبان کے بارے میں سوچنے کو مجبور کردیا۔ سوشل میڈیا پر حاوی ہوئے پاکستانیوں کی بے پناہ اکثریت نہایت فخروانبساط سے ان کی حالیہ کامیابیوں کا ذکر کررہی ہے۔نائن الیون کے بعد امریکہ اس ملک میں ’’جمہوری‘‘ نظام قائم کرنے کے دعوے سمیت وارد ہوا تھا۔20برس گزرگئے۔اربوں ڈالر خرچ ہوئے۔ہزاروں جانیں تلف ہوئیں۔ افغانستان میں لیکن مستحکم اور مثالی جمہوری نظام قائم نہ ہوپایا۔بالآخر امریکہ نے ہاتھ اٹھادئے۔اس کی افواج افغانستان سے رخصت ہونا شروع ہوئیں تو طالبان نہایت سرعت سے وہاں کے مرکزی شہروں کی جانب بڑھنا شروع ہوگئے۔ تین لاکھ نفوس پر مشتمل افغان فوج ان کے روبرو ریت کی دیوار ثابت ہورہی ہے۔افغانستان کے شہری متوسط طبقے کی بے پناہ اکثریت طالبان کی پیش قدمی کا واحد ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرارہی ہے۔ہمارے ہاں کے ترقی پسند کہلاتے حلقے بھی وسیع تر تناظر میں ان کے ہم نواہیں۔ ہمارے حکمرانوں کو مگر یہ فکر لاحق ہے کہ نام نہاد عالمی میڈیا بھی اس سوچ کو فروغ دینے میں مشغول ہے۔ اس کی وجہ سے امریکہ کو اپنی خفت مٹانے کے لئے پاکستان کو قربانی کا بکرا بنانے کا جواز بھی مل سکتا ہے۔ ٹویٹر پر Sanction Pakistanیعنی پاکستان پر اقتصادی پابندیاں لگائو والا ٹرینڈ اسی خواہش کا عندیہ دے رہا ہے۔ہمارے حکمرانوں کی فکر اپنی جگہ بے بنیاد نہیں۔ہمارے عوام کی بے پناہ اکثریت مگر ’’افغان باقی ۔کہسار باقی‘‘ والی سوچ کی حامل ہے۔افغانستان میں امریکہ کی شکست ’’اسلام‘‘ کی فتح بھی تصور ہوتی ہے۔طالبان اس تناظر میں عام پاکستانیوں کو ’’ہیرو‘‘ ہی نظر آئیں گے۔
بشکریہ نوائے وقت
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ