خالد سعید روشن خیال اور وسیع المطالعہ شخص ہیں۔ انہوں نے زندگی کو نوجوانوں کی طرح بسر کیا ہے۔ وہ کبھی بزرگی کے عذاب میں مبتلا نہیں ہوئے۔وہ دوستوں کی طرح نوجوانوں کی رہنمائی کرتے ہیں۔ میری ہمیشہ یہ خواہش رہی میں دیر تک ان کے ساتھ رہوں۔ لیکن قبل از وقت کی بزرگی نے مجھے ان کے ساتھ چلنے نہ دیا۔ میں تھک جاتا ہوں، بیٹھ جاتا ہوں ، نوجوان خالد سعید جو مجھ سے عمر میں بڑے ہیں۔ ہر وقت تازہ دم رہتے ہیں۔ دراصل انہیں زندگی کاادراک ہے۔ اسی لئے وہ کسی فریب میں نہیں آئے۔ جو لوگ اپنے اوپر خول چڑھائے پھرتے ہیں یہ سب جعلساز ہیں اور خود کو دھوکہ دے رہے ہیں۔
خالد سعید
اگر آپ خالد سعید کو دیکھنا چاہتے ہیں تو اس کے افسانے (سوال کے ہاتھ اور دوسری کہانیاں) ضرور پڑھیں۔ اس کی دوسری کہانی ”اولڈ راوین” ہے۔
”اور مادرِ علمی نے ٹھہرے، پروقار اور قائل کرنے والے لہجے میں کہا۔
”دیکھو! ذرا غور سے دیکھو، میرے بچوں کے بلیزر کوٹ پر کندہ اس شمع کو جسے انہوں نے اپنے مقدس اور معصوم ہاتھوں میں تھام رکھا ہے۔ اور سنو! یہ شعلہ، علم اور محبت اور انہیں چکھنے کی جرأت کا ہے۔”
میں نے دیکھتا ہوں کہ خالد سعید یہی شمع طالب علموں کے دماغ میں روشن کردیتے ہیں۔ انہیں اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لے آتے ہیں۔ جو لوگ زندگی کے ہنر سے واقف نہیں ہوتے وہ بوڑھے ہوجاتے ہیں۔ ان کے نشان ہمیں ”اولڈ اورین” میں ملتے ہیں۔
”لوسنو ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک بے حد زہریلا سانپ بوڑھا ہوگیا اور اسے اپنا شکار ڈھونڈنے میں دقت پیش آنے لگی۔ اس نے دل ہی دل میں سوچا یوں تو میں زندہ نہ بچوں گا۔ کافی دیر غور کرنے کے بعد اس کے ذہن میں باقی ماندہ زندگی نہایت آرام سے بسر کرنے کی ترکیب آگئی۔ وہ جنگل میں واقع ایک تالاب کے کنارے گیا۔ جہاں مینڈکوں کا سردار ”جل پاؤں” اپنی رعایا کے سمیت رہتا تھا۔ جیسے ہی وہ وہاں پہنچا۔ ایک شریر مینڈک نے تالاب سے اپنا سر نکال کر گول گول دیدے گھماتے ہوئے کہا۔
”چچا زہریلے! آج بڑے سست نظر آرہے ہو۔”
اور پھر سنبھل کر پیچھے ہٹتے ہوئے کہا۔
”ہمیں ہڑپ کرنے کے لئے پھرتیاں بھی نہیں دکھا رہے؟ خیر تو ہے؟
اور سانپ نے روتے ہوئے جواب دیا۔
”نہیں میرے بچے اب ایسا کبھی نہیں ہوگا۔ مجھ پر دیوتاؤں کا عذاب نازل ہوگیا ہے۔”
”مگر کیسے؟”… مینڈک کے بچے نے ایک کمینی خوشی سے پوچھا۔
اتنے میں مینڈکوں کا سردار ”چل پاؤں” بھی آگیا۔
”کیا ہوا؟۔ اے ناگوں کے راجہ”
آنسو اس کی آنکھوں میں تھمتے نہ تھے۔
”میں نے غلطی سے ایک برہمن کے بچے کے انگوٹھے کو مینڈک سمجھ کر کاٹ کھایا۔ اور وہ مرگیا۔ جس پر برہمن نے مجھے بددعا دی اور دیوتاؤں نے مجھے کڑی سزا دی کہ اب باقی ساری زندگی مجھے مینڈکوں کو اپنی پیٹھ پر بٹھا کر جنگل کی سیر کرانی پڑے گی۔” مینڈکوں کو اپنے لئے شاندار شاہی سواری مل گئی۔ اور سانپ کے لئے آسان اور نفع بخش رزق کا بندوبست ہوگیا۔”
آپ زندگی کو غور سے دیکھیں تو ایسے بہت سے بوڑھے زہریلے ناگ راجہ نظر آئیں گے۔ جو کہ آسان شکار کے لئے مینڈکوں کے تالاب پر جا بیٹھے ہیں۔ لیکن خالد سعید نے اس کے برعکس زندگی کو دیکھا۔ انہوں نے ہر شخص کو اہمیت دی ہے۔ اس سے محبت کی ہے۔ زندگی کی قدروقیمت کو سمجھا ہے۔ ورنہ ناگ راجہ کے کردار آپ کو ہر معاشرے میں نظر آئیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ خالد سعید سے محبت کرتے ہیں۔
اب یاد نہیں کہ خالد سعید سے میری پہلی ملاقات کب اور کہاں ہوئی تھی؟ صرف اتنا یاد ہے کہ ہم برسوں سے ملتے ہیں۔ عام طور پر ہم کتابوں کی دکان پر ملا کرتے تھے۔ جب یہ دکانیں بند ہوگئیں یا ان میں پہلی سی رونق نہ رہی تو ملاقات میں وقفہ آنے لگا۔ خالد سعیدمیں ایک خوبی ہے کہ میں آج بھی محسوس کرتا ہوں کہ ان سے روزانہ ملاقات ہوتی ہے۔
روز آنے پہ نہیں نسبت عشقی موقوف
عمر بھر ایک ملاقات چلی جاتی ہے
خالد سعید فکشن کا بے پناہ مطالعہ رکھتے ہیں۔ وہ مسلسل پڑھنے والے لوگوں میں ہیں وہ ہر وقت کتاب کے ساتھ اپنا رستہ قائم رکھتے ہیں۔ فلسفہ اور نفسیات تو ان کا اپنا مضمون ہے وہ اس کے استاد بھی ہیں۔ انہیں دیکھ کر مجھے رشک آتا ہے۔ نوجوان ان سے بہت محبت کرتے ہیں۔ اکثر ان کا ذکر کرتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ نئی نسل خالد سعید کے زیادہ قریب ہے۔
شہزادے گو تم نے ابھی دنیا ترک نہیں کی تھی اور وہ پرآسائش زندگی بسر کررہا تھا۔ اس کی ایک تارک الدنیا جوگی سے ملاقات ہوئی۔ جوگی کی گفتگو سے دنیا کی بے ثباتی ظاہر ہوئی۔ اس نے بتایا کہ دنیا مایا کا جال ہے۔ ان بندھنوں کو توڑکر جنگلوں میں جاکر تپسیا کریں اور ابدی مسرت حاصل کریں۔
گوتم گفتگو کرنے کے بعد باغ میں جاکر بیٹھ گیا اور ان باتوں پر غور کرنے لگا۔ اسی شب گوتم کے گھر بیٹا پیدا ہوا۔ شہر میں چراغاں تھا۔ محل میں شادیانے بج رہے تھے جشن کا سمان تھا۔ گوتم نے اس رات اپنی زندگی کا بڑا فیصلہ کیا۔ یعنی ترک دنیا کا فیصلہ… گوتم اپنی شان و شوکت چھوڑ کر جارہا تھا۔ اس نے اپنے بال کاٹ دیئے۔ کپڑے تبدیل کرلئے اور راج گڑھ کی گھاٹیوں میں گم ہوگیا۔
خالد سعید مختلف جوگی ہیں وہ گوتم کو گھاٹیوں سے واپس لے آتے اور اسے بتاتے کہ لوگوں میں رہتے ہوئے ان کی خدمت کی جاسکتی ہے۔ دنیا بہت خوب صورت ہے اسے ترک نہیں کیا جاسکتا۔ میرا خیال ہے کہ اگر گوتم کی خالد سعید سے ملاقات ہوتی تو وہ راج گڑھ کے جنگلوں سے واپس آکر لوک سیوا کرتے۔
خالد سعید کی شہرت کی کئی جہتیں ہیں وہ افسانہ نگار، مترجم، شاعر، ماہر تعلیم، اور ماہر نفسیات ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی انسان دوستی بھی مثالی ہے۔
ڈاکٹر صلاح الدین حیدر ان کے افسانوں کے بارے میں لکھتے ہیں۔
”خالد سعید نے معاصر صورت حال سے اور ستر کی دہائی کے انسان دوستی کے رویوں اور تبدیلی کی جمہوری امنگ سے ابھرنے والے کرداروں کا فلسفیانہ تاثراتی نکتہ سے دیکھا اور اس کے لئے فلیش بیک، پیکر تراشی، فوٹوگرافی سے مدد لیتے ہوئے بعض اوقات دیومالا کے کرداروں، تاریخی حوالوں، فلسفے کی دنیا میں روایت سے بغاوت کرنے والے کرداروں سے مدد لی۔”
ہم خالد سعید کی زندگی اور تحریروں کا مطالعہ کریں تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہوگا۔ ان کے ہاں ایک خاص ترتیب ہے۔ وہ ایک بڑی تبدیلی کی امنگ رکھتے ہیں۔ اس تبدیلی کے آثار اس انداز میں رونما نہیں ہوئے جس کی ہمارے دوست نے خواہش کی تھی لیکن ان کی محنت رائیگاں بھی نہیں ہے۔ انہوں نے اپنے نزدیک ایک حلقہ ضرور تیار کیا ہے جو تبدیلی کی امنگ لے کر آگے بڑھے گا۔
میں خالد سعید کے چند افسانوں سے اقتباس پیش کروں گا۔
”مگر ابن رشد نے کہا ”افسوس، صد افسوس، عورتوں کے حالات ابھی تک نہیں بدلے اور اس لئے میں نے اپنی کتابوں میں طبقۂ نسواں کی حمایت کی تھی اور ان کی آزادی کے لئے مطالبہ کیا تھا۔ پھر اس نے لڑکی کے سر پر ہاتھ رکھا اور بڑی شفقت سے سے پوچھا۔ ”بیٹی کیا ہوا؟… کیوں اپنی جان ہلکان کررہی ہو؟” لڑکی زور زور سے رونے لگی۔ ابن رشد اپنی کتاب عقل کے طاق پر رکھ کر لڑکی کے گریہ میں شریک ہوگیا۔ اس کی داڑھی آنسوؤ ں سے تر ہوگئی۔
تب سقراط نے مداخلت کرتے ہوئے کہا۔ ”برادر عقل کے ناخن نہیں لے سکتے تو ایک آدھ بال ہی لے لو۔ جذباتی ہونے اور رونے دھونے سے مسائل حل نہیں ہوتے۔ ہمیں اس مسئلہ کی تہہ تک پہنچنا ہے۔ ویسے مجھے پورا یقین ہے کہ اس لڑکی کے وسیلے اس زندگی میں ہمارے مشن کی تکمیل ہوگی۔” (سوال کے ہاتھ اور سمے کی مچھلی)
اس افسانے میں وہ عورت کا دکھ بیان کرتے ہیں۔ یہ افسانہ اداس کرنے والی تصویر ہے جس میں دو بڑے فلسفی بھی نظر آرہے ہیں۔ اتنے بڑے فلسفی اس اس دنیا سے گزرے ہیں لیکن عورت پہلے کی طرح آج بھی مظلوم ہیں اور دنیا بھر کے فلسفے بے بس دکھائی دیتے ہیں۔ عورت مسلسل ظلم برداشت کرتی چلی آرہی ہے۔
”1977ء کے بعد خفیہ پولیس اور ایجنسیاں خفیہ نہ رہے تھے۔ ہر وقت پکڑے جانے کا دھڑکا لگا رہتا۔ کسی کے ساتھ کسی وقت کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ میرے کئی دوست نوکری سے برطرف کئے جاچکے تھے کچھ کا دور دراز علاقوں میں تبادلہ ہوچکا تھا۔ جب کبھی مجھے نوکری یا تبادلہ کے بارے میں تشویش ناک خبریں ملتیں تو میرے سارے وجود میں خوف اور بے یقینی کی ایک لہر دوڑجاتی۔” (پریم کتھا اک سنبل کی)
یہ وہ زمانہ ہے جب ضیاء الحق نے مارشل لاء لگایا۔ بہت سے پروفیسروں کو گرفتار کیا گیا اور دوردراز علاقوں میں ان کا تبادلہ کردیا گیا۔ ان میں پروفیسر صلاح الدین حیدر اور پروفیسر عابد عمیق بھی شامل تھے۔ روشن خیال اور ترقی پسند لوگوں کے لئے یہ زمانہ بہت عذاب کا تھا۔
”آج کل خیر کا مطلب کوئی خبر نہ ہونا ہے اور خبریں جو اخباروں میں چھپتی ہیں یا وہ جو اخباروں میں جگہ نہیں پاتیں اور خلقت کی آنکھوں کے اندھے کنوؤں میں کبھی باہر نہ نکلنے کے لئے گرجاتی ہیں۔ سب ایک سی ہوتی ہیں۔ تم بے جھجکے مجھے بتادو۔ مگر مجھے شاید پچاس سال پہلے سے ہی اس کا علم تھا… وہ جو روز واقع ہوتی ہے اور واقع ہوتی رہے گی، مگر میرے لئے یہ …” (بادہ یکی و جام دو)
”ملٹری عدالت سے برسر عام پچاس کوڑوں کی سزا کاحکم صادر ہوا تھا۔ جب مجھے ٹکٹکی کی طرف لے جارہے تھے تو اس منظر کے ننگے پن کا سوچ کر میری ہنسی چھوٹ گئی۔
تھانیدار نے غصے میں پوچھا… منحوس ہنستے کیوں ہو؟
اس میں ہنسی کا کیا مقام بنے؟ خدا سے اپنے گناہوں کی معافی مانگو اور اس کا خوف کرو۔”
میں نے جواب دیا۔ ”میری تو وہ … ہی نہیں رہی کوڑے کہاں پر لگاؤ گے؟
مگر انہوں نے پوری طاقت سے لگادیئے۔ ہوش آیا، تو تب سے اب تک نامرد ہوں۔
سمجھ نہیں آتا ایسا کیوں ہوا۔ مگر کوئی نہ کوئی عصبی تعلق تو ہوگا۔
”یہاں تم اکیلے ہو؟”لوگ کہاں گئے؟ تمہارے والدین، بھائی، بھاوج بھتیجے بھتیجیاں؟”
”وہ کچھ پتہ نہیں”۔ اس نے ایک لاتعلق اور ایک یکساں لہجے میں کہا۔
”ممکن ہے انہوں نے انہیں ماردیا ہو، یا پھر وہ ڈر کر خود ہی کہیں منہ کرگئے ہوں۔” اور ”تمہارا انقلاب اب کس حال میں ہے؟ مجھے بھی مروانے لگے تھے تم ۔” (دیمک دل)
یہ مکالمہ مارشل لاء دور کا ہے مارشل لاء کوئی بھی اچھانہیں ہوتا ہے لیکن ضیاء الحق کا زیادہ بھیانک تھا۔ ضیاء الحق پاکستان کی ایک طویل رات کانام ہے۔ جب بہت سے مظلوم لوگوں کا عدالتی اور حکومتی قتل عام ہوا۔ خالد سعید نے اس افسانے میں اس کی ایک جھلک پیش کی۔ وہ لوگ جو اس مارشل لاء کے شاہد ہیں وہ جانتے ہیں کہ اس دور میں یہ روزانہ کا معمول تھا۔ یہ خبریں اخبارات میں شائع ہوتی تھیں تاکہ عوام میں خوف و ہراس پیدا ہو۔
خالد سعید کے افسانے اس مارشل لاء کو بیان کرتے ہیں جس کے عذاب میں ہم آج تک مبتلا ہیں۔ جس نے ہمارے معاشرے کو تباہ و برباد کردیا۔
ایسا ہی ایک اقتباس پیش کرتا ہوں۔
”آج شہر کے ایک غریب اور پسماندہ حصے میں پھر فساد پھوٹ پڑا۔ تڑتڑ… چلتی ہوئی گولیاں… ایک دوسرے کے سروں کے نشانے لیتی ہوئی… پولیس… سائرن… آنسو گیس… لاشیں… آگ… اجنبی مردوں کے ہاتھوں زیر ہوتی عورتیں… بچوں کی چیخیں طاقتور بموں کے دھماکوں سے ڈھیر ہوتی ہوئی عمارتیں… جلتی بسیں، رکشائیں… دفعہ 144 کا نفاذ، مارشل لائی ضابطے، فوجی گشت، کرفیو… تھانے، کچہری… اہل کار… سب اپنے ایک معمول میں تھا۔ اور شہر کے پوش اور امیر علاقوں میں نہ تو فساد کی کوئی نشانی تھی اور نہ ہی کوئی ہراس۔ ہر شے اپنے دوسرے مطمئن معمول کے مطابق تھی۔
اس کی آنکھ کھلی تو وہ شہر ایک ہسپتال کے نیوروسرجیکل وارڈ کے لوہے کی سلاخوں سے بنے بستر پر پڑا تھا۔
”خداوند کا شکر ادا کرو”۔ نرس نے کہا۔ ”تمہاری جان بچ گئی ہے آج پورے تین ماہ کے بعد ہوش میں آئے ہو۔… بے شک وہی سب کی حفاظِت کرنے والا ہے۔” (جندرہ)
خالد سعید کے افسانے ہمارے سماج کی کتھا ہے۔ اس میں ہمیں ہمارے کردار اور شاید ہم خود بھی کہیں نظر آتے ہیں۔ اگر خالد سعید کو تلاش کرنا ہو تو ان کے افسانوں میں تلاش کریں۔ ان افسانوں میں ایک کردار ان کا اپنا بھی ہے اور یہی کردار افسانوں میں سب سے اہم ہے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ