رؤف لُنڈ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج پاکستان کی تاریخ میں محنت کشوں کے نمایاں اور سرخیل نذیر عباسی کی شہادت کا دن ھے ۔۔۔۔ محنت کشوں کا ایسا ہیرو کہ جس کی شہادت کسی دیوار کے گرنے ، کسی سڑک کے حادثے کا شکار ہونے ، کسی دریا کی لہروں کی نذر ہونے یا محض انگلی کٹا کے شہیدوں میں شمار ہونے سے نہیں ہوئی بلکہ پاکستان کی آمرانہ تاریخ کے بدترین اور خبیث ترین ڈکٹیٹر ضیاءالحق کے ٹارچر سیل میں بے پناہ تشدد سے ہوئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جرات و ہمت کا ایسا استعارہ اور روشنی کے ایسے منارے کی بات ہو مگر پاکستان کے کسی بڑے اخبار ، کسی ٹیلی وزن چینل پر کوئی خراج ، کوئی تحسین اور کوئی خبر تو کیا کوئی ذکر تک بھی نہ ہو تو لوگوں کیلئے اس یقین کرنے کے سوا کوئی چارہ ھی نہیں کہ پاکستان کے عوام اب بھی ضیاءالحقی خباثت و منافقت اور ریا کے تسلسل میں زندہ ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حکمران میڈیا جس میں درسی کتب بھی شامل ہوتی ہیں۔ ان میں محنت کشوں کے ہیروز کا ذکر نہ کر کے دراصل حکمران اور حکمران طبقہ اپنے اس خوف سے جان چھڑانا چاہتا ھے کہ جس کی وجہ جدوجہد کرنے والے ان ہیروز کی زندگی کو مشعلِ راہ بنا کر محنت کش طبقہ ظلم و ستم ، جبر و بربریت اور لوٹ مار و استحصال کا ہمیشہ ہمیشہ کیلئے خاتمہ کرنا چاہتا ھے ۔۔۔۔۔۔ لیکن پھر طبقاتی سماج کے حکمرانوں اور حکمران طبقے کو یہ معلوم ھی نہیں ہوتا کہ جو سماج بدلنے کی اپنی جدوجہد کی لگن اور سچائی میں جان سے جاتے ہیں وہ کروڑوں دلوں میں جگہ پا کر حکمران طبقے کی متعفن تاریخ کے سیاہ اوراق کے محتاج نہیں ہوتے۔
نذیر عباسی شہید ان گنت محنت کشوں کے دلوں میں زندہ رہنے والے ایک ان تھک سیاسی کارکن تھے۔ زمانہ طالب علمی سے سیاسی جدوجہد کا اور چاول چھولے بیچنے اور چونگی پر ٹیکس وصول کرنے کی ملازمت سے معمولی زندگی کا آغاز کیا۔ مگر اپنی طلسماتی شخصیت، ان تھک محنت اور مارکسسٹ فلسفے پر غیر متزلزل یقین کی بناء پر پاکستان میں کیمونسٹ تحریک کے صفِ اول میں شمار ہونے لگا۔۔۔۔۔
5، جولائی 1977ء کو جب پاکستان ضیاءالحقی آمریت کے سیاہ بادلوں کی لپیٹ میں آیا تو حق و انصاف کا مطالبہ کرنے، ظلم و بربریت اور لوٹ مار و استحصال کے خلاف بات کرنے والوں کو شاھی قلعوں کے عقوبت خانوں میں ڈالنے ، پابندِ سلاسل کرنے، چوکوں چوراہوں پر ٹکٹکیاں لگا کر کوڑے مارنے اور سولیوں پر چڑھانے کو رواج دیا گیا۔۔۔۔۔۔ ضیاءالحقی جبر سے انکاری اور جدوجہد کے سرخرو سورماؤں کی طویل ترین فہرست میں ایک معتبر نام شہید نذیر عباسی کا ھے ۔ جسے ننگی آمریت کے ٹارچر سیل میں بے پناہ تشدد کر کے قتل کردیا گیا۔ اور جس کی لاش کو ورثاء کے حوالے کرنے کی بجائے لاوارث کے طور ایدھی ٹرسٹ کے لوگوں کے ذریعہ دفن کردیا گیا ۔۔۔۔۔۔۔
ایسے سرخرو سیاسی کارکنوں کو مشتاق علی شان نے یوں منظوم خراج پیش کیا کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔
خاموش صدا مقتل میں ہوئی
زنجیر کے نغمے باقی ہیں
تاریخ تو ان کی قتل ہوئی
تعزیر کے نغمے باقی ہیں
جیون کی سلگتی راہوں کے
کچلے ہوئے راھی زندہ ہیں
جو ظلم و ستم سے ٹکرا گئے
وہ سرخ سپاھی زندہ ہیں
ھم پاکستان کے محنت کش آج جیون کی سلگتی راہوں میں ظلم و ستم سے ٹکرانے والے سپاھی شہید نذیر عباسی کی برسی پر اسے سرخ سلام پیش کرتے ہوئے ، ظلم ، زیادتی، لوٹ مار، استحصال، غربت، جہالت ، بھوک، بدامنی ، ذلت اور اذیت بھرے اس طبقاتی سماج کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتے ہوئے سوشلسٹ سماج کا سرخ سویرا ابھارنے کا عہد کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مبارک باد اور سرخ سلام۔۔۔رؤف لُنڈ
اک ذرا صبر کہ جبر کے دن تھوڑے ہیں۔۔۔رؤف لُنڈ
کامریڈ نتھومل کی جدائی ، وداع کا سفر اور سرخ سویرے کا عزم۔۔۔رؤف لُنڈ
زندگی کا سفر سر بلندی سے طے کر جانے والے کامریڈ کھبڑ خان سیلرو کو سُرخ سلام۔۔۔رؤف لُنڈ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر