شہزاد عرفان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بڑی سیاسی جماعتوں کے سرائیکی سیاست دان جاگیردار گدی نشین جنوبی پنجاب کو تسلیم کرنے کے اس جرم میں برابر کے شریک ہیں بلکہ سرائیکی تاریخ کے تناظر میں قومی مجرم ہیں۔ ۔
اس جرم میں انکی شراکت داری کا مضبوط جواز ہے ۔ سرائیکی شناخت کا سوال بلواسطہ یا بلاواسطہ اس طبقاتی سوال سے جڑا ہے جو غریب متوسط پسماندہ سرائیکی طبقے کی ترقی تعلیم اور معاشی مفاد سے جڑا ہے سرائیکی وسیب جو زیادہ تر زرعی نیم زرعی جغرافیہ رکھتا ہے اور اربن علاقوں میں غیر سرائیکیوں کی آبادی طاقتور ہے جبکہ سرائیکی اکثریتی آبادی کے لحاظ سے انتہائی پسماندہ کسان مزارع بے زمین کاشتاکار غیر ہنرمند غیر تعلیم یافتہ ان پڑھ مزدور طبقہ ہے جو انہی وڈیروں کو ووٹ دے کر انکے سیاسی شان کو اونچاکرتا ہے اور انہی سیاسی کلبز یا سیاسی جماعتوں کو ان کے منتخب نمائندوں کو پنجابی اسٹبلشمنٹ مشروط اقتدار اور سمجھوتے بازی کے تحت اپنا حصہ بناتی ہے
جنوبی پنجاب صوبہ دراصل پنجابی اشرافیہ کا ایجنڈا ہے جو سرائیکی جاگیردار وڈیرے سردار کے سیاسی سٹیٹس کو کی حمایت کرتا ہے اسے طاقت فراہم کرتا ہے اور اسے اپنا نمائندہ بنا کر سرائیکی عوام پر استعمال کرتا ہے یہی سیاسی جماعتیں جو دراصل اسٹبلشمنٹ کے ہی زیر سایہ ہیں جنہیں پنجابی اشرافیہ کنٹرول کرتی ہے سرائیکی جاگیردار پیر وڈیرے دراصل اپنے طبقے کے نمائندے ہیں اس لئے ہر دونوں استبدادی قوتوں کا مشترکہ مفاد سرائیکی صوبے اور سرائیکی شناخت کے خلاف ہے کیوں کہ یہ لفظ سرائیکی موجودہ اسٹیٹس کو کو چیلینج کرتا ہے
جبکہ پاکستان کی تمام پارلیمانی جماعتیں سٹیٹسکو کی حامی ہیں اس لئے سرائیکی تحریک میں آپ کو کبھی کوئی جاگیردار وڈیرہ پیر گدی نشین نہیں ملے گا بلکہ مڈل کلاس ورکنگ کلاس کسان مزدور ہی سیاسی ورکر اور لیڈر کی شکل میں سرائیکی تحریک میں متحرک ہے اور اسی وجہ سے الیکٹرولر رول سے باہر بھی ہے اس غیر جمہوری فضا اور ریاست میں اس کا انتخابات لڑنا ممکن ہی نہیں اور لڑ بھی لے تو ووٹ اسے اس لئے نہیں مل سکتا کیوں کہ پسماندی غربت زدہ سرائیکی عوام کسی ایسے اپنے جیسے کمزور کو کیوں منتخب کریں جو ایک تو ان جیسا ہو دوسرا کسی کے کام بھی نہ آسکے
اسکے لئے اس کا کسی سیاسی مافیا کا حصہ ہونا بھی ضروری ہے اسے الیکشن لڑنے کے لئے دولت اور سرمایہ کا مونہہ مانگا حصہ دینا ضروری ہے جو کہ ظاہر ہے سرائیکی تحریک میں شامل نہ کسی متوسط سیاسی کارکن کے پاس نہ اتنی دولت ہے اور نہ استطاعت ہے بھلا ایک کسان مزدور کے پاس بھوک غربت اور طاقتور کی اطاعت کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے ۔
پاکستان سرائیکی پارٹی کے سربراہ بیرسٹر تاج محمد لنگاہ ایک درمیانے درجے کے زمیندار تھے پاکستانی اشرافیہ کے اس سیاسی سسٹم اور نام نہاد نقلی جمہوری عمل کو خوب جانتے تھے خود وہ مارکسی نقطہ نظر رکھنے والے سرمائے کی نا مساوی طبقاتی تقسیم پر یقین نہیں رکھتے تھے لہذا انہوں نے زندگی بھر اپنے آباؤ اجداد کی خاندانی وراثت کی تمام زمین جائداد کا ایک ایک انچ مرلہ سب کچھ سرائیکی تحریک کی سیاست میں خرچ کیا کہ کسی طرح سرائیکی سوال سرائیکی قومی پہچان شناخت اور سرائیکی صوبے کی سیاسی تحریک بن کر پاکستانی نام نہاد جمہوریت کے جھوٹے تقاضوں پر پورا اتر جائے اور کسی طرح اندھے ترازو میں ایک مرتبہ اتنا وزن دے جائیں کہ آئندہ نسلوں میں سرائیکی سوال روح تک اتر جائے اور سرائیکی جاگیردار سیاسی اشرافیہ کے گلے کی ہڈی بن کر اٹک جائے جسے وہ نہ اگل سکیں اور نہ نگل سکیں اور یوں پنجابی سیاسی اشرافیہ اور سرائیکی جاگیردار کا یہ آپسی مفادات کا رشتہ ٹوٹ جائے
مگر چالاک ہوشیار پنجابی اسٹبلشمنٹ نے اس کا بہترین توڑ یہ نکالا کہ اسے جنوبی پنجاب صوبے کا نام دے کر سرائیکی تحریک کو سبوتاژ کرنے کی تحریک شروع کردی جسکے لئے پاکستان کی تقریبا تمام مین سٹریم پارلیمانی جماعتوں کو جنوبی پنجاب صوبہ، اور بہاولپور صوبہ کا ٹاسک دیا گیا ۔جنوبی پنجاب صوبے کا مقصد پنجابی قوم کی بالادستی کو دیگر سندھی بلوچ پشتون سرائیکی اقوام پر برقرار رکھنے، پنجابی اور پنجاب کی طاقت کو دگنا کرنے سندھ اور بلوچستان کی تقسیم کا جواز تلاش کرنے ، صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم ، وسائل پر قبضے کا جواز اور سب سے اہم کےلفظ” سرائیکی “ کو صوبے سے علہدہ کرکے جنوب پنجاب میں بدل کر موجودہ پنجاب کو سرائیکیوں میں تقسیم کرنے سے بچانا تھا اس سے ایک تیر سے دو شکار ہوئے کہ ہندوستان سے آکر سرائیکی علاقوں میں آباد مہاجروں کو ایک چک موضع گاؤں شہر الاٹ کرنے کی بجائے انہیں صوبہ الاٹ کرنے کا اعلان بصورت جنوبی پنجاب کردیا گیا جسکی معاونت سرائیکی جاگیردار الکٹیبلز گدی نشین جو دراصل انکے گماشتے اور سرائیکی عوام دشمن ہیں وہ اپنے مفادات کی خاطر اپنی دھرتی اپنی عوام کا سودا طے کرچکے ہیں ۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر