فضیل اشرف قیصرانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ بلوچستان یونیورسٹی ہے۔سن دو ہزار سے پیشتر کم و بیش بلوچستان کے ہر صاحب تعلیم فرد کی مادرِ علمی۔کیا کیا زمانے اس یونیورسٹی نے دیکھ رکھے ہیں کہ میر غوث بخش بزنجو بطور گورنر اس یونیورسٹی کے پہلے وائس چانسلر کو یہ کہتے ہوۓ کہ “میں ایک غیر ضروری گورنر ہوں اور آپ ایک ضروری استاد”خوش آمدید کہنے انکے پاس تشریف لاتے ہیں۔
یہ جامعہ نہ صرف بلوچستان کی تعلیمی استاد ہے بلکہ اسےبلوچستان کا سیاسی استاد ہونے کا شرف بھی حاصل ہے کہ جامعہ بلوچستان ہی تمام طلباء تنظیموں کی جنم بھومی رہی ہے اور طلباء تنظیموں سے تربیت یافتہ لوگ ہی بعد ازاں بلوچستان کے سیاسی افق پر چمکے اور کون نہیں جانتا کہ باوجود اُتم پسماندگی کے بلوچستان کا سیاسی شعور کسی طور پسماندہ نہیں۔
ملکی ،صوبائ اور قومی اتار چڑھاؤ کے ساتھ ساتھ یہ جامعہ بھی اپنی زندگی کے کئ نشیب و فراز دیکھ چکی ہے۔اب کے مگر کچھ خاص تھا اس جامعہ میں کہ عید کی چھٹیوں کے بعد بھی لائیبریری میں طلبا موجود تھے اور بڑی لگن سے مطالعے میں مشغول تھے۔جیسے ہمارے دوست عابد میر کہتے ہیں کہ بلوچستان کتابیں پڑھتا ہے تو لائبریری میں طلباء کا رش دیکھ کر واقعی لگا کہ بلوچستان کتابیں پڑھتا ہے۔
طالبات کا رش دیکھ کر ایک خوشی سی ہوئ کہ دور دراز کی طالبات کا رجحان اب تعلیم کی جانب ہے اور اسکے لیے انہیں ہاسٹل میں قیام کی اجازت بھی میسر ہے اور یہاں دور دراز سے یاد رہے کہ یہ بلوچستان کا دور دراز ہے اور خود بلوچستان کا رقبہ قریب ساڑھے تین لاکھ کلو میٹر پہ پھیلا ہے جہاں نہ سڑکیں ہیں اور نہ ہی کوئ معیاری زرائع آمد و رفت۔
یہیں جامعہ بلوچستان میں ملک عیسی خان رند بھی علم کے پھیلانے میں مشغول ہیں کہ یہ مجاہد وہیل چئیر پہ موجود ہو کر کم و بیش پاکستان کی ہر کتاب آپکو کوئٹہ میں میسر کرتا ہے اور نہ صرف کتاب میسر کرتا ہے بلکہ “رندگی” نھباتے ہوۓ ضروری چاۓ پلا بناۓ جانے بھی نہیں دیتا۔
سرخ کتابیں،سبر کتابیں،تاریخی کتب،تراجم سب یہاں دستیاب ہیں کہ کتابیں پڑھی جاتی ہیں اور خریدی جاتی ہیں کہ کتب کا گاہک بطور قاری بلوچستان میں آسانی سے دستیاب ہے۔مجموعی طور پر کوئ دو سے چار گھنٹے جو ہم عیسی خان کے پاس موجود رہے تو کئ طلبا قومی جہد،تاریخ بلوچستان اور مسلہ فلسطین پہ دستیاب کتب کے متعلق آگاہی لینے اور خریدنے آۓ،کہ مانا جاتا ہے کہ جوانی میں اگر سیاسی عشق “سرخ “نہ ہو تو کاہے کی جوانی؟
اپنی نسبت یوں بھی اس جگہ سے زیادہ ہے کہ اپنی تو جنم بھومی بھی اسی جامعہ سے منسلک اسکی سٹاف کالونی ہے۔سو وہاں کی کون سی گلی شام کے کس وقت کتنی بھلی معلوم ہوتی ہے کون جانے،مگر اسکے مقیم اور انکی یادیں۔یادیں بھی وہ جو کھبی چہروں پہ لازوال مسکراہٹ بکھیر دیں اور کھبی دیواروں سے سر پٹکنے کو جی کرے کہ یہاں پر پڑا ہر قدم کچھ یوں امر ہے کہ سواۓ ابدی نیند کے کوئ اور نیند اسکے نقش پھیکے نہ کر سکے۔
جامعات مگر یوں بڑی ظالم ہوتی ہیں کہ یہ ہر سال اپنے گزشتہ لوگوں کو یکسر بھلا کر نۓ لوگوں کے لیے بانہیں پھیلا لیتی ہیں۔سرائیکی میں دنیا کے متعلق شاعر نے کہا کہ،
آندیاں دی جھوک اے،ویندیاں دا راہ اے۔۔
سو آپ اسے جامعات پر پرکھ لیں کہ یہ بھی کچھ ایسی ہی ہیں۔
ابھی مگر جامعہ بلوچستان اس ویڈیو سکینڈل کے غم و غصے سے نہیں نکل پائ کہ کئ ملوث افراد آج بھی مسند نشین ہیں ۔جامعہ سے “غیر ضروری” افراد تو رخصت ہو گۓ مگر انکے جانے کے بعد بھی کہیں نہ کہیں اب بھی خوف کے وہ مہیب ساۓ موجود ہیں جنہیں نقش و نگار والی خوبصورت دیواروں پر تلاش کیا جا سکتا ہے۔
بندہ جامعہ بلوچستان جاۓ اور برما ہوٹل سے ہوتا ہوا ڈگری کالج تک کی واک نہ کرے تو جامعہ جانے کا مقصد پورا نہیں ہوتا۔اور وہاں جا کے کچھ عکس بندی نہ کرے یہ کیونکر ممکن ہے ۔سو تصاویر کے اس طرح کے سٹالز آپکو صرف بلوچستان میں ہی ملیں گے جہاں جمالیات بھی سیاسیات سے باہر نہیں ۔ایسے ہی ایک سٹال کی تصویر،جامعہ بلوچستان اور سٹاف کالونی کا منظر بھی آپ کی نظر۔۔۔
پسِ تحریر:آبائ وطن میں ساون کی بارشوں کی اطلاع ہے اور کوئٹہ مون سون زون سے باہر۔سو بلوچستان کے لیے فراوانیِ آب کی بہت دعا کہ اس زمین پہ صرف ایک پیالہ پانی کی قیمت سو سال کی وفا ہے۔۔
اے وی پڑھو
تانگھ۔۔۔||فہیم قیصرانی
،،مجنون،،۔۔۔||فہیم قیصرانی
تخیلاتی فقیر ،،۔۔۔||فہیم قیصرانی