جولائی 5, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

وزیراعظم عمران خان کی بہاولپور آمد||ظہور دھریجہ

آج بہاولنگر اسٹیشن پر جائیں تو دنیا کے خوبصورت اسٹیشن کی ویرانی کو دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے ، دریائے ستلج کی موت کے بعد آج اس خطے میں دوسرا چولستان وجود میں آرہا ہے۔

ظہور دھریجہ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وزیر اعظم عمران خان ایک روزہ دورے پر بہاولپور تشریف لا رہے ہیں ،اہلِ بہاولپور اُن کو سرائیکی میں ’’سجن آون اکھیں ٹھرن‘‘ کہہ کر خوش آمدید کہتے ہیں ۔ وزیر اعظم لال سونہارا نیشنل پارک میں شجر کاری مہم کا افتتاح کریں گے، ہمیشہ سے دستور چلا آ رہاہے کہ حکمران جب بھی کسی علاقے کے دورے پر جاتے ہیں تو وہاں کی تاریخ وثقافت کے ساتھ ساتھ وہاں کے مسائل کے بارے میں جاننا ضروری سمجھتے ہیں ،
انگریز دور تک یہ روایت برقراررہی ،آج اسے اتنا اہم نہیں سمجھا جاتا۔ بہاولپور کے عوامی نمائندے جن کے فرائض میں یہ بات شامل ہے کہ وہ حکمرانوں کوبہاولپور کے مسائل سے آگاہ کریں اور سابق ریاست بہاولپور کی خدمات کے بارے میں بتائیں ، افسوس کہ وہ اپنا فریضہ سرانجام نہیں دیتے ۔ جہاں تک مسائل کا تعلق ہے تو صرف بہاولپور شہر ہی نہیں بلکہ سابق ریاست بہاولپور کے تمام علاقے مسائل کا شکار ہیں اور قیام پاکستان کے بعد ترقی کی بجائے تنزلی ہوئی ہے جس کا عام آدمی کے ذہن میں منفی اثر ہے ۔
سابق ریاست بہاولپور کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ گذشتہ 100سال سے کوئی نیا ضلع نہیں بنا ، ایک بھی ٹیکس فری انڈسٹریل زون نہیں بنایا گیا ،چولستان میں آج بھی لوگ پیاس سے مر جاتے ہیں ، بہاولپور سی پیک سے محروم ہے اور ایک بھی موٹروے بہاولپور میں آج تک نہیں بنی ۔ ان مسائل پر وزیر اعظم کی توجہ کے ساتھ اب میں خدمات کا تذکرہ کروں گا تاکہ وزیراعظم کو عظیم خدمات کے بارے میں آگاہی ہو سکے ۔ 1947ء میں ہندوستان سے آبادکاروں کے قافلے بہاولپور اسٹیشن پہنچے۔نواب بہاولپور بنفس نفیس بہاولپور اسٹیشن پہنچے تحائف نقدی کے علاوہ اپنے ہاتھ سے مصیبت زدگان میں طعام تقسیم کیا ۔
علامہ اقبال نواب آف بہاولپور کے مداح اور عقیدت مند تھے انہوں نے آج تک کسی بادشاہ کا قصیدہ نہ لکھا مگر نواب آف بہاولپور کیلئے انہوں نے طویل قصیدہ لکھاجس کاایک شعر اس طرح تھا کہ زندہ ہیں تیرے دم سے عرب کی روائتیں اے تاجدارِ سطوت اسلام زندہ باد عمران خان صاحب ! ریاست بہاولپور کی پاکستان کے لئے کتنی خدمات ہیں ؟ اس کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ قیام پاکستان سے پہلے نواب بہاولپور نے ریاست کی طرف سے ایک ڈاک ٹکٹ جاری کیا جس پرایک طرف مملکت خداداد بہاولپور اور دوسری طرف پاکستان کا جھنڈا تھا ،پاکستان قائم ہو تو قائداعظم ریاست بہاولپور کی شاہی سواری پربیٹھ کر گورنر جنرل کا حلف اٹھانے گئے ،
پاکستان کی کرنسی کی ضمانت ریاست بہاولپور نے دی ،پہلی تنخواہ کی چلت کیلئے پاکستان کے پاس رقم نہ تھی تو نواب بہاولپور نے پہلے تنخواہ کی چلت کے لئے 7کروڑ روپے کی خطیر رقم دی قائد اعظم نے نواب بہاولپور کو محسن پاکستان کا خطاب دیا۔۔قائد اعظم محمد علی جناح نے کہا کہ قیام پاکستان سے قبل بھی ایک پاکستان ڈھائی سو سال پہلے موجود تھا اور اس کا نام ریاست بہاولپور تھا ۔ تحریک پاکستان قیام پاکستان اور استحکام پاکستان کیلئے ریاست بہاولپور کا کردار ناقابل فراموش ہے۔
 اسی طرح حفیظ جالندھری علامہ اقبال اور بہت سے زعما باقاعدہ وظیفہ حاصل کرتے رہے ۔اس کا ثبوت اس چٹھی سے بھی ہوتا ہے جو علامہ اقبال نے نواب آف بہاولپور کے پرائیوٹ سیکرٹری میجر شمس 5مئی 1929ء کو لکھی اور جس میں لکھاکہ بہت شکریہ !مجھے ریاست کی طرف سے بھیجا گیا الاؤنس برابر مل رہا ہے۔ نواب بہاولپور پنجاب یونیورسٹی کا سینٹ بلاک ،کنگ ایڈورڈ کالج کی نصف بلڈنگ اور لاہور ایچی سن کالج کے بہت سے کمرے لاکھوں روپے خرچ کر کے تعمیر کرائے۔
ریاست بہاولپور کی طرف سے تعلیمی مقاصد کیلئے لاہور کو سالانہ جو گرانٹ جاری ہوتی رہی اس کی تفصیل کے مطابق کنگ ایڈروڈ کالج ڈیڑھ لاکھ ،اسلامیہ کالج لاہور تیس ہزار ،انجمن حمایت اسلام پچھتر ہزار،ایچی سن کالج دوہزار،اور پنجاب یونیورسٹی لاہور بارہ ہزار اس کے ساتھ ساتھ لاہور کے ہسپتالوںاور دوسرے رفاہی اداروں کی ریاست بہاولپور کی طرف سے لاکھوں کی مدد کی جاتی رہی ۔ جناب وزیر اعظم بہت سے مسائل ایسے ہیں جن کی نشان دہی کرنا ضروری ہے ،ان مسائل کا حل ہونا بہت ضروری ہے۔ریونیو بورڈ لاہور چلے جانے سے ناجائز الاٹمنٹوں کا طوفان اٹھا دیا گیا ، بہاولنگر جنکشن بند ، امروکہ بند ، اس کے ساتھ یہ ظلم بھی کیا گیا کہ کراچی دہلی کا سب سے بڑا ریلوے ٹریک میکلوڈگنج جنکشن بند کر دیئے گئے ،
 آج بہاولنگر اسٹیشن پر جائیں تو دنیا کے خوبصورت اسٹیشن کی ویرانی کو دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے ، دریائے ستلج کی موت کے بعد آج اس خطے میں دوسرا چولستان وجود میں آرہا ہے۔ نواب بہاولپور نے 1200 ایکڑ رقبے پر مشتمل بر صغیر جنوبی ایشیاء کا سب سے بڑا صادق پبلک سکول ، دنیا کی سب سے بڑی سنٹرل لائبریری ، جامعہ الازہر کی طرز پر جامعہ عباسیہ ، بہاولپور میں بہت بڑا سٹیڈیم ، سب سے بڑا چڑیا گھر اور 1906ء میں ہندوستان کا سب سے بڑا وکٹوریہ ہسپتال قائم کیا ۔
 بہاولپورکے محلات اتنے شاندار تھے کہ یورپ بھی ان پر رشک کرتا تھا ، محلات میں فرنیچر پر سونے کے کام کے علاوہ برتن بھی سونے کے تھے ۔ علامہ اقبال نے92مصرعوں پر مشتمل ’’دربار بہاول پور‘‘ کے نام سے ایک قصیدہ لکھا ‘ 1903ء بہاول پور جشن تاج پوشی منایا جا رہا تھا ‘ وائسرائے ہند اور والیان ریاستہائے ہندوستان تقریب میں جلوہ افروز تھے ‘ علامہ اقبالؒ نے بھی وہاں پہنچنا تھا مگر وہ نہ آ سکے البتہ انہوں نے ’’دربار بہاول پور‘‘ کا قصیدہ جو اس موقع کیلئے لکھا تھا‘ بھجوادیا تھا ۔ یہ قصیدہ کتاب ’’باقیات اقبال‘‘ میں موجود ہے‘ ایک شعر ملاحظہ فرمائیں: بزم انجم میں ہے گو چھوٹا سا اک اختر زمیں آج رفعت میں ثریا سے بھی ہے اوپر زمیں

 

یہ بھی پڑھیں:

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: