نومبر 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کوئٹہ میں پہلا دن ||فضیل اشرف قیصرانی

کیا کوئٹہ کی نماشی ترقی واقعی کوئٹہ میں امن و خوشحالی سے تعبیر ہے یا یہ بھی کوئ سراب ہے کہ نزدیک پہنچنے پہ آف،آف نہیں بلکہ “شیطانِ آف” بن جاۓ گا ؟

فضیل اشرف قیصرانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ کوئٹہ کا شہر ہے۔کوئٹہ جو بلوچستان کا دارلحکومت ہے۔دارلحکومت ہوتے ہوۓ بھی اسکا مقام باقی صوبائ دارلحکومتوں کے مقابل ایک چھوٹو کا ہے۔مگر یاد رہے کہ کوئٹہ اکبر خان بگٹی،عطاللہ مینگل،خیر بخش مری،خان شہید،عثمان خان کاکڑ،ایوب کھوسہ اور یوسف عزیز مگسی کا شہر بھی ہے۔کوئٹہ شال بھی ہے اور شالکوٹ بھی۔کہنے کو تو کوئٹہ بہت کچھ ہے مگر شاید کچھ بھی نہیں۔
ہاں کھبی کوئٹہ تھا مگر آج کوئٹہ وہ کوئٹہ نہیں جس کے متعلق پنجابی میں کہا جاتا ہے کہ “کوئٹہ دی گڈی کوئٹہ کوئٹہ کردی آوندی اے۔”آج کا کوئٹہ زخمی اور نڈھال کوئٹہ ہے۔پسینے سے شرابور،آنسوؤں سے تَر بَتر چہرہ لیے آج کوئٹہ کے کاندھے پہ عثمان خان کاکڑ اور عبید اللہ کاسی کے جنازے ہیں۔عثمان خان کاکڑ کے چہلم سے ٹھیک ایک روز قبل کوئٹہ نے عبید اللہ کاسی کا جنازہ اٹھایا۔
مگر کوئٹہ چھوٹو ہوتے ہوۓ اور غموں سے نڈھال ہو کر بھی چلا جا رہا ہے یا یوں کہئیے کہ اب کوئٹہ غم کے ساتھ جینا سیکھ چکا ہے۔کوئٹہ خدا کرے اپنی حیات کے مزید ہزار ہا سال بسر کرے کہ کوئٹہ کی قدر کوئ ان سے پوچھے جو کوئٹہ کو “فردوس بر روۓ زمین “گردانتے ہیں۔
ہمارا پہلا دن کوئٹہ کے ائیر پورٹ پر گزرا۔ائیر پورٹ روڈ کے کوئٹہ کو دیکھ کر لگتا ہے کہ جیسے اب کوئٹہ چھوٹو نہیں رہا بلکہ کوئٹہ کہیں نا کہیں قد نکال رہا ہے اور کیوں نہ نکالے کہ سیب کے باغات کی جگہ اب ہاؤسنگ سوسائٹیاں بن رہی ہیں اور یہ سوسائٹیاں صرف باغات نہیں بلکہ انسان نگلنے کا موجب بھی بنتی جا رہی ہیں،عبید اللہ کاسی اسی ضمن میں ایک مثال ہیں۔
مگر کسی بھی محفل میں گۓ تو کوئٹہ کی سماجیات اور سیاسیات پر گفتگو اسکے سوا نہیں رہی کہ خدارا کوئٹہ کو اب سانس لینے دو،اسے جینے دو اور اسکے باسیوں کو چھوٹو شہر کے چھوٹوں کی طرح ٹریٹ کرنا بند کرو۔یہاں نو دریافت یافتہ اور پروردہ میروں،قبائیلی راہنماؤں،ملکان،مشران،قبائیلی اتحادوں اور چیفوں کی پیوند کاری مت کرو اور نہ خودرو جھاڑیوں کے لیے راہ ہموار کرو بلکہ سیاسی و سماجی جمود جو کے “کسی وجہ سے قائم ہے “اسکے خاتمے کا حصہ بنو نہ کہ اسکی افزائش کا۔
کوئٹہ باوجود اسکے کہ “تیر اختر دا مبارک شا” کے مقام پر تھا مگر فضا سوگوار تھی کہ عثمان خان کاکڑ کا غم ابھی نیا نیا تھا۔کوئٹہ اور اگست یوں بھی مغموم ہوتے ہیں کہ کوئٹہ میں اگست کے مطلب باقی پاکستان سے جدا ہوتے ہیں۔یہاں اگست میں گیارہ اگست بھی منائ جاتی ہے کہ یہ میر غوث بخش بزنجو کا یوم وفات ہے اور ریاست قلات کی آزادی کا دن بھی،یہاں چودہ اگست زیارت میں الگ رنگ سے منایا جاتا ہے اور آواران میں کسی اور رنگ سے اور چھبیس اگست سے کون واقف نہیں کہ یہ وہ بھاری دن تھا کہ جس نے کوئٹہ کی بنیادوں کو یوں ہلایا کہ اب “سیسہ پلائ دیوار” بھی اپنی حفاظت کی غرض سے کسی اور سیسے کے حصار کی تلاش میں ہے۔
ہم ایک ہی وقت میں کوئٹہ کے سریاب کو بھی دیکھتے رہے اور ائیر پورٹ روڈ کو بھی اور سوچتے رہے کہ یہ تفاوت قدرتی ہے یا خود ساختہ؟کیا کوئٹہ کی نماشی ترقی واقعی کوئٹہ میں امن و خوشحالی سے تعبیر ہے یا یہ بھی کوئ سراب ہے کہ نزدیک پہنچنے پہ آف،آف نہیں بلکہ “شیطانِ آف” بن جاۓ گا ؟ کیا واقعی کوئٹہ کا قد بڑھا ہے یا کوئٹہ کو “ڈبل سول نوروزی بمع موزوں کے”پہنا کر بڑا دکھایا جا رہا ہے اور بات شمالی و جنوبی بلوچستان کی کی جا رہی ہے؟
پسِ تحریر:اس دوران آبائ وطن سے بھی کوئ خیر کی خبر نہیں آئ کہ سننے میں آیا کہ کینسر مزید کئ قیمتی زندگیاں نگل گیا۔کئ گھروں کے چراغ گل ہوۓ اور کینسر ہسپتال مانگنے والے خود منگوا لیے گۓ۔

.

About The Author