نومبر 14, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پاکستان کے بغیر افغانستان پر سلامتی کونسل کا خصوصی اجلاس || نصرت جاوید

جمعہ کے روز اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا جو اجلاس ہوا ہے اس سے خطاب کرتے ہوئے ہر ملک کے مندوب نے یکسوہوکر اصرار کیا کہ طالبان فی الفور افغان شہروں کی جانب پیش قدمی روک دیں

نصرت جاوید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کئی ماہ قبل عمران خان صاحب جب کشمیر کا مقدمہ لڑنے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی تشریف لے گئے تھے تو وطن واپسی کے لئے جہاز میں بیٹھتے ہی ڈاکٹر ملیحہ لودھی صاحبہ کو اس عالمی ادارے میں پاکستان کی مستقل مندوب کے عہدے سے فارغ کرنے کا حکم جاری کردیا۔ان کی جگہ منیر اکرم صاحب تعینات ہوئے۔وہ اس سے قبل بھی کئی برسوں تک اس عہدے پر فائز رہ چکے تھے۔وزارت خارجہ کے بے شمار ریٹائرڈ ہوئے سینئر افسر جن کی رائے کا میں بہت احترام کرتا ہوں منیر اکرم صاحب کو بہت دھانسو سفارت کار شمار کرتے ہیں۔شنید ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے قواعد وضوابط اور روایات کے حتمی ماہر ہیں۔اپنی ذہانت اور ذاتی تعلقات کو ہوشیاری سے استعمال کرتے ہوئے پاکستان کا مؤقف اس ادارے کے مختلف فورموں سے جاندار انداز میں پیش کرنے کی صلاحیتوں سے مالا مال۔

ہفتے کی دوپہر لیکن تازہ ترین جاننے کے لئے میں نے لیپ ٹاپ کھولا تو وہ شکوہ کناں دکھائی دئیے۔ان کا دعویٰ تھا کہ جمعہ کے روز افغانستان کی درخواست پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا جو اجلاس ہوا تھا اس میں پاکستان کو اپنا مؤقف بیان کرنے کے لئے مدعو نہیں کیا گیا ۔جبکہ ہم نے اس کی درخواست بھی کی تھی۔ پاکستان کی نمائندگی کے بغیر ہوئے اجلاس میں افغانستان کے مستقل مندوب نے اپنے ملک میں خانہ جنگی کے حوالے سے سنگین تر ہوتے واقعات کا حتمی ذمہ دار فقط طالبان ہی کو نہیں بلکہ مذہبی انتہا پسندوں کے کئی دیگر گروہوں کو بھی ٹھہرایا جو اس کی دانست میں طالبان کے نظریاتی اتحادی ہیں۔ بعدازاں دہشت گردوں کی مبینہ پناہ گاہوں اور سرپرستی کا ذکر بھی ہوا اور یوں کمال ڈھٹائی سے افغانستان کی موجودہ صورتحال میں سنگینی کی تمام تر ذمہ داری بتدریج پاکستان کے کاندھوں پر ڈال دی گئی۔
اتفاق کی بات ہے کہ جمعہ کی شام میں اپنے گھر میں اکیلا تھا۔وقت گزاری کی راہ سجھائی نہیں دے رہی تھی۔اچانک خیال آیا کہ افغانستان کی درخواست پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا خصوصی اجلاس منعقد ہونا ہے۔انٹرنیٹ کے ذریعے سلامتی کونسل کی ویب سائٹ پر چلا گیا

 ۔اس اجلاس میں ہوئی تقاریر لائیو دکھائی جارہی تھیں۔میں نے آغاز سے انجام تک مذکورہ اجلاس میں ہوئی ہر تقریر کو بہت غور سے سنا۔۔ مذکورہ اجلاس دیکھتے ہوئے مجھے گماں رہا کہ پاکستان کو بھی اپنا مؤقف بیان کرنے کا وقت ملے گا۔ہمارے مندوب مگر وہاں موجود ہی نہیں تھے۔

منیر اکرم صاحب اورہماری وزارتِ خارجہ کے ترجمان مصر ہیں کہ اشرف غنی کی حکومت کے لگائے مستقل مندوب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے خصوصی اجلاس میں پاکستان کے خلاف یک طرفہ اور بے بنیاد الزامات لگانے میں اس لئے کامیاب رہے کیونکہ ان دنوں سلامتی کونسل کی سربراہی بھارت کے پاس ہے۔بھارت سے خیر کی امید میں نے کبھی نہیں رکھی۔اشرف غنی حکومت کی مودی سرکار سے قربت کا بھی بخوبی اندازہ ہے۔ زندگی کے کئی برس سفارت کاری کی بابت رپورٹنگ کی نذر کرنے کی بدولت اس کے باوجود یہ سوال اٹھانے کو مجبور ہوں کہ منیر صاحب اپنے تجربے اور اثرورسوخ کو واضح نظر آنے والے ماحول کا توڑ ڈھونڈنے کے لئے بروئے کارکیوں نہ لاپائے۔ بھارت کو سلامتی کونسل کی سربراہی فقط ایک ماہ کے لئے ملی ہے۔ان دنوں سلامتی کونسل کا رکن بھی وہ ہمارے ووٹ سے بناہے۔

ہمارا ہر موسم کا دوست یعنی چین مگر سلامتی کونسل کا مستقل رکن ہے۔اس کے پاس ویٹو کا اختیار بھی ہے۔سوال اٹھتا ہے کہ ہمارے مستقل مندوب نے جمعہ کے روز ہوئے اجلاس سے قبل چین کے مستقل مندوب سے ملاقات کے بعد ان سے پاکستان کو مذکورہ اجلاس کے دوران اپنا موقف بیان کرنے کا موقع حاصل کرنے کے لئے اثرورسوخ استعمال کرنے کی درخواست کی یا نہیں۔گزشتہ کئی ماہ سے ہمیں یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ چین کے علاوہ کئی برسوں تک بھارت کے قریب ترین رہا روس بھی ان دنوں افغانستان کے حوالے سے پاکستان کے موقف کا کٹر حامی ہے۔روس بھی سلامتی کونسل میں ویٹو پاور کا حامل مستقل رکن ہے۔ روس اور چین کے اس ادارے میں مستقل مندوب اگر پاکستان کا موقف سنے جانے کو اصرار کرتے تو بھارت سے تعلق رکھنے والے ان دنوں سلامتی کونسل کے سربراہ کے لئے انکار کی گنجائش ہی باقی نہ رہتی۔

میرے ذہن میں آئے سوالات کا جواب مگر ہمارے دھانسو شمار ہوتے سفارت کار فراہم کرنے کی زحمت ہی گوارہ نہیں کریں گے۔صحافی ان کی دانست میں جاہل،غیر ذمہ داری اور لفافے ہوا کرتے ہیں۔ہم ’’منشیوں‘‘ کو ’’قومی سلامتی امور‘‘ کی نزاکتوں کے تناظر میں سادہ لوح شمار کیا جاتا ہے۔ہمارے قومی مفادات کے نگہبان حلقے تو اکثر صحافیوں کو پاکستان کے ان دشمنوں کے آلہ کار بھی تصور کرتے ہیں جنہوں نے پاکستان پر گزشتہ کئی دنوں سے ففتھ جنریشن وا ر مسلط کررکھی ہے۔ایسے حالات میں دیانت دارانہ سوالات اٹھانے سے بھی خوف آتا ہے۔ہرملک کی تاریخ میں تاہم ایسے کئی مقامات آتے ہیں جہاں حالات کی سنگینی کو جانتے ہوئے بھی دانستہ اختیار کردہ خاموشی قابل معافی نہیں رہتی۔میں نہایت فکر مندی سے مصر ہوں کہ افغانستان ان دنوں جس جانب انتہائی تیزی سے بڑھ رہا ہے وہ پرخلوص غوروفکر اور دیانت دارانہ مباحثے کا متقاضی ہے۔

افغانستان کے اقوام متحدہ میں مستقل مندوب نے جو بھی کہا فی الوقت اسے نظرانداز کردیتے ہیں۔میرے لئے اس روز چین کے مستقل مندوب کی جانب سے ہوئی تقریر کہیں زیادہ پریشان کن تھی۔ان کی تقریر واضح عندیہ دے رہی تھی کہ افغانستان میں ’’مشرقی ترکستان‘‘ کے نام سے بنائی ایک تنظیم بھی متحرک ہے۔مذکورہ تنظیم کو چین اپنے مسلم اکثریتی والے سنکیانگ میں تخریب کاری کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔چینی حکومت نے داسو میں ہوئے ایک حالیہ واقعہ کی اس تنظیم سے رشتے بھی تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی داسو کے حوالے سے اپنی تشویش سے پاکستان کو آگاہ کردیا ہے۔

مذکورہ تناظر میں ہمارے ریگولر اور سوشل میڈیا پر ان خدشات کا ذکر ہی نظر نہیں آتا جو واخان کی پٹی پر طالبان کے قبضے نے چینی فیصلہ سازوں کے ذہنوں میں اجاگر کئے ہیں۔واخان کیا ہے یہ جاننے کے لئے نقشے سے رجوع کرلیا جائے۔اس کے بعد تاجکستان کو ذہن میں لائیں۔ہمارا چترال بھی اسی پٹی کی وجہ سے آپ کے ذہن میں آنا چاہیے اور وہاں سے چلتے ہوئے گلگت کے بارے میں سوچیں۔ان علاقوں میں اگر چین مخالف مذہبی انتہا پسندی فروغ پاتی محسوس ہو تو سی پیک کا مستقبل یقینا خطرے میں نظر آئے گا۔

جمعہ کے روز اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا جو اجلاس ہوا ہے اس سے خطاب کرتے ہوئے ہر ملک کے مندوب نے یکسوہوکر اصرار کیا کہ طالبان فی الفور افغان شہروں کی جانب پیش قدمی روک دیں۔طالبان اس کے لئے آمادہ نہیں۔اسی باعث سلامتی کونسل کے اجلاس کے چند ہی لمحوں بعد امریکی فضائیہ نے B-52جیسے جدید ترین طیاروں سے ان مقامات پر بمباری شروع کردی ہے جو طالبان کے قبضے میں جاچکے ہیں۔یوں گماں ہورہا ہے کہ امریکہ 31اگست تک ایسے فضائی حملوں کو شدت سے جاری رکھے گا۔یہ حملے طالبان کو مزید مشتعل کریں گے۔انہیں فوری جنگ بندی کے بعد لہٰذا مذاکرات کی میز پر لوٹنے کو مجبور نہیں کیا جاسکے گا۔

بشکریہ نوائے وقت

یہ بھی پڑھیں:

کاش بلھے شاہ ترکی میں پیدا ہوا ہوتا! ۔۔۔ نصرت جاوید

بھٹو کی پھانسی اور نواز شریف کی نااہلی ۔۔۔ نصرت جاوید

جلسے جلسیاں:عوامی جوش و بے اعتنائی ۔۔۔ نصرت جاوید

سینیٹ انتخاب کے لئے حکومت کی ’’کامیاب‘‘ حکمتِ عملی ۔۔۔ نصرت جاوید

نصرت جاوید کے مزید کالم پڑھیں

About The Author