ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نی عظمت توں کجھ سنڑیا، ہائے ہائے کیہی انت چکیا اے ایس آدمی نے، چوتھا ویاہ تے او وی ایس عمرے؟” (عظمت کچھ سنا تم نے، اس آدمی نے کیا تماشا بنا رکھا ہے، چوتھی شادی کرلی اور وہ بھی اس عمر میں)
خالہ ہانپتی کانپتی، دور سے اماں کو پکارتی آ رہی تھیں.
"آپا جی کیہہ ہویا؟” (آپا کیا ہوا؟)
ہا نی اڑیے، امجد نے فیر ویاہ کر لیا، پینٹھ توں ٹپیا اے تے فیر وی ویاہ تے ویاہ، پتہ نئیں کیڑھی گیدڑ سنگھی اے اودھے کول؟ ( ہائے ہائے, امجد نے پھر شادی کرلی، پینسٹھ برس کی عمر میں بھی آسانی سے شادی پہ شادی کرتا جا رہا ہے، پتہ نہیں، کونسی گیدڑ سنگھی ہے اس کے پاس.)
گیدڑ سنگھی؟ بھئی یہ کیا چیز ہے؟ خالہ اور اماں کی گفتگو سنتے ہوئے ہم نے سوچا جو امجد صاحب کی چوتھی شادی کا معمہ حل کرنے میں مصروف تھیں
گیدڑ سنگھی حقیقت ہے یا افسانہ، یہ تو ہم کبھی جان نہ سکے لیکن نہ جانے کیوں زمانہ حال کے واقعات ہمارے بچپن کی یادوں سے جب جڑ جاتے ہیں توسوچ کا ایک نہیں کئی دروازے کھل جاتے ہیں۔ حال ہی میں نور مقدم پہ لکھتے ہوئے ہمیں بے اختیار گیدڑ سنگھی یاد آ گئی۔
نور مقدم کے بہیمانہ قتل پہ ہر ذی ہوش دکھی تو ہوا لیکن ہر کسی کے پاس بے تحاشا سوالات بھی تھے۔
“نور مقدم، ظاہر ذاکر کی ساتھی ہو کے بھی اس کی متشددانہ فطرت کیوں نہ پہچان سکی؟”
“کئی برسوں پہ محیط تعلقات کی کہانی میں ظاہر کا اصل چہرہ بے نقاب کیوں نہیں ہوا؟”
“ظاہر کی منفی شدت پسندی کو نور نے کیوں نظر انداز کیا؟”
“دونوں کی پہلی ملاقات تو نہیں تھی یہ؟
جو کسی کا گلا کاٹنے کی ہمت رکھتا ہو وہ اپنی عادات میں کہیں نہ کہیں اس کی جھلک ضرور رکھتا ہے پھر کیسے یہ سب پردے میں رہا”
“نور کو ظاہر کے اندر کا وحشی نظر کیوں نہیں آیا؟”
“نور کا خاندان اتنا انجان کیوں تھا؟”
ایسے بہت سے سوالات پڑھ کے ہمیں بھی خیال آیا کہ درست تو ہے یہ سوچ! کسی کے ساتھ رہتے رہتے اس کی ذات کے مخفی گوشوں کی جھلک کہیں نہ کہیں ضرور دکھائی دیتی ہے۔ جیسے کسی کمرے کی کھڑکیوں پہ کتنے ہی دبیز پردے کیوں نہ ڈال دیے جائیں، کسی نہ کسی درز سے روشنی یا اندھیرے کا احساس ہو ہی جاتا ہے۔
ظاہر ذاکر کے ساتھ وقت گزارتے، کبھی کسی محفل میں، کبھی گاڑی میں ساتھ سفر کرتے، کبھی سڑک پہ ٹریفک کے ہنگام میں، کبھی دوستوں کی محفل میں، کبھی نوکروں پہ حکم چلاتے، کبھی فون پہ ملازمین کو جھاڑتے، کبھی قربت میں، کبھی کبھی نشاط و سرور کے لمحات میں ظاہر کی طاقت، زبان سے نکلے جملے، متشدد فطرت اور جارحانہ انداز کیسے نہیں جھلکا؟ یہ دوستی دو چار دنوں کی بات تو تھی نہیں، برسوں پہ محیط تھی اور دونوں خاندانوں کا قریبی تعلق بھی تھا۔
دوسرا امکان یہ ہے کہ وہ سب انداز نور کو نظر آئے ہوں جن کا ہم نے ذکر کیا۔ خطرے کی گھنٹی بجنے کے باوجود نور ظاہر کی دوست بنی، دوست رہی، اور اسے جاننے کے باوجود چھوڑ نہ سکی؟
آخر کونسی گیدڑ سنگھی تھی ظاہر کے پاس؟
ہم نے نور کی شخصیت کو ان کے دوست و احباب کی رائے سے جاننے کی کوشش کی،
“وہ ہمدرد فطرت انسان تھی”
“مسکراہٹ ہر وقت اس کے چہرے پہ کھیلتی رہتی”
“دوستوں کی دوست تھی”
“موٹروے ریپ کے خلاف مظاہرے میں بھی شامل تھی”
“وہ کسی کی تکلیف نہیں دیکھ سکتی تھی”
“وہ تو جانوروں تک سے بہت محبت کرتی تھی”
“ایسی بے ضرر سی لڑکی کے ساتھ ظاہر نے ایسا کیوں کیا؟”
صاحب، اگر ہم یہ کہیں کہ نور کی ہمدرد فطرت، حساسیت، بے لوث اور دوسروں کا درد محسوس کرنے کی عادت اسے لے ڈوبی تو کچھ غلط نہیں ہو گا۔ یہ خیال ہمیں ان دونوں کی ڈانس وڈیو دیکھتے ہوئے آیا اور ہمیں بے اختیار انسانی مزاج کے ان پہلوؤں کا رقص یاد آ گیا جن سے لاعلمی موت کے دہانے تک لے جاتی ہے۔ خاص طور پہ ہمارے معاشرے میں جہاں عورت کے منہ میں زبان دیکھنے کی بجائے اشاروں پہ ناچنے والی گڑیا کا کردار نہ صرف پسند کیا جاتا ہے بلکہ یہ بات تربیت کا حصہ بنائی جاتی ہے کہ لڑکی وہی قابل قبول جو خدمت کرنے پہ یقین رکھتی ہو، ضرورت پڑنے پہ خواہشات کی قربانی دینا جانتی ہو، اور اس کی ذات سے ہر کسی کو راحت وسکون کا احساس ہو۔
وہ لڑکی ہی کیا جو پٹر پٹر باتیں کرے، ہر بات کا جواب دے اور جسے دینے کے ساتھ ساتھ لینا بھی آتا ہو، جو زیادتی کے خلاف اٹھ کھڑی ہو، اور وہ ہر کسی کو سر پہ بٹھانے کی بجائے ان کا اصل چہرہ بے نقاب کرے۔
“نہیں بھئی نہیں، ایسی لڑکی سے تعلق نہیں رکھنا جو پروں پہ پانی نہ پڑنے دے یا پنجابی میں وارے نہ آنے دے” عام سنا جانے والا جملہ ہے۔
ظاہر جعفر اور نور مقدم کے تعلق کو ہم ہیومن میگنٹ سنڈروم کہہ سکتے ہیں۔ وہی مقناطیسی کشش جو ایک جیسے ٹکڑوں کو دور دھکیلتی ہے اور مختلف ٹکڑوں کو پاس لا کر اس طرح سے ایک دوسرے سے جوڑتی ہے کہ علیحدہ ہونا مشکل ٹھہرتا ہے۔
مشہور کاؤنسلنگ سائیکالوجسٹ روس روزنبرگ نے اس سنڈروم کو رقص سے تشبیہہ دی جس کے دو بنیادی کردار نارسسٹ اور کوڈپیڈنٹ مل کر ناچتے ہیں۔ کوڈیپنڈنٹ یا بے لوث ساتھی رقص کے توڑوں پہ نارسسٹ یا خودپسند کے کنٹرول میں رہتے ہیں جو رقص میں لیڈ رول ادا کرتے ہوئے اس کے ردھم کا خیال کرتا ہے۔
بے لوث ساتھی کی مروت، قربانی کا جذبہ اور دوسروں کا خیال رکھنے کی عادت سے خود پسند ساتھی لوگ ان کی طرف کھنچے چلےجاتے ہیں۔ خود پسند نارسسٹ کو بے لوث ڈیپنڈنٹ پہ اپنا حکم، اختیار اور رعب داب قائم کرنے میں لطف محسوس ہوتا ہے۔
بے لوث، بے غرض، انحصار پسند کی دوسروں کے لئے حد سے بڑھی ہمدردی مروت اور کچھ کرنے کا جذبہ انہیں خود غرض اور خود پسند ساتھی کے چنگل سے باہر ہی نہیں نکلنے دیتا۔ وقت گزرنے کے ساتھ وہ یہ تو جان جاتے ہیں کہ ان کا خود پسند ساتھی انہیں کیسے استعمال کر رہا ہے لیکن وہ اپنی خواہشات کا گلا گھونٹتے ہوئے اپنی کڑواہٹ اپنے اندر ہی دفن کر لیتے ہیں۔
نارسسٹ کی پہچان میں خود پسند ی، خود غرضی، تحکم پسندی اور موقع پرستی نمایاں ہے۔ وہ کسی اور کا احساس تب ہی کر سکتے ہیں جب اس میں ان کا فائدہ ہو یا انہیں اہمیت ملے۔ ان کی شخصیت میں ذاتی کمتری اور تنہائی کا عنصر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا ہے اور وہ تعلق توڑنے کو پسند نہیں کرتے۔
ایک اور اہم بات بے لوث ڈیپینڈنٹ کی اپنی فطرت پر نازاں ہونے کی عادت پے۔ وہ اپنی بے غرضی، ہمدرد، صابر اور حوصلہ مند طبعیت کو اپنے لئے اہم گردانتے ہوئے ایسے لوگوں کو دوست بنانا پسند کرتے ہیں جو ان عادات کو اہم سمجھتے ہوئے اس سے فائدہ اٹھا سکیں۔ یہاں اہم بات یہ ہے کہ ذہنی طور پہ بالغ نظر لوگ ان کی اس قدر بے نفس اور بے لوث فطرت سے جھنجھلاہٹ محسوس کرتے ہیں کیونکہ انسانی فطرت میں مزاحمت، احتجاج اور انکار کا پہلو ہونا ہی نارمل ہونے کی نشانی اور اس کی کمی ذہنی صحت مندی پہ سوال اٹھاتی ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا تعلق کیوں نہیں ٹوٹتا یا توڑنے کی کوشش کیوں نہیں ہوتی جیسا ہم سب نے نور مقدم کے لئے سوچا۔
اس تعلق میں پڑنے والی ہر دراڑ کو نارسسٹ کبھی دھمکی، کبھی لگاؤ اور کبھی جذباتی کیفیات استعمال کرتے ہوئے بھرتا ہے۔ تبدیل ہونے کے کھوکھلے وعدے، گزرے ہوئے خوشگوار لمحات کی یادیں، دوبارہ سے نشہ کرنے اور خود کو نقصان پہنچانے کی دھمکیاں بے لوث ساتھی کو ساتھ باندھے رکھنے کی کوششوں میں شامل ہیں۔ کبھی کبھی تبدیل ہونے کے وعدے نیک نیتی سے تو کیے جاتے ہیں لیکن پورا کیا جانا اس لئے ممکن نہیں ہوتا کہ نارسسٹ اپنی کسی بھی بات کو غلط سمجھنا تو دور کی بات، غلطی تسلیم کرنا بھی اس کے لئے ممکن نہیں ہوتا۔
جس طرح نارسسٹ یہ بندھن توڑنے میں ناکام رہتا ہے اسی طرح بے لوث ساتھی بھی کامیاب نہیں ہو پاتا۔ بے لوث ساتھی اپنی بے غرضی اور بے نفسی کا اس قدر عادی ہوتا ہے کہ وہ اس عادت سے نہ چھٹکارا پا سکتا ہے اور نہ ہی خود کو نارسسٹ سے علیحدہ کر سکتا ہے۔ دوسروں کی مدد اور اپنی ذات کی قربانی ان کے لئے نشے کا کام دیتی ہے۔
صاحب جان لیجئے کہ پدرسری معاشرہ عورت کو بے لوث، بے غرض، ہمدرد اور قربانی کی دیوی بننے کی تربیت کرتا ہے اور عورت کسی بھی طبقے کی ہو، اس روپ میں کسی نہ کسی طور ڈھل ہی جاتی ہے۔
دوسری طرف مہذب معاشرے کسی بھی انسان پہ ایسا بوجھ نہیں ڈالتے جس میں ایک صنف کو دوسری صنف کے لئے قربانی کا جانور بنا دیا جائے۔
سو سمجھ لیجیے کہ مرد کی طاقت کے پیچھے جس گیدڑ سنگھی کا تذکرہ حیرت اور فخر سے کیا جاتا ہے وہ کچھ اور نہیں، پدرسری نظام کی طاقت کا وہ پلڑا ہے جو مرد کے حق میں ہمیشہ جھکا رہتا ہے اور عورت کے نصیب میں ستی ہونے کے علاوہ کچھ بھی اور نہیں لکھا جاتا۔
یہ بھی پڑھیے:
اسقاط حمل میں عورت پر کیا گزرتی ہے؟۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
کاظمی اینڈ سنز عرف سترہ برس کا بیٹا۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر