صبح چیمبر میں ایک آدمی آیا اس نے کہا سر میری بیٹی اپنے شوہر سے طلاق لے کر اس کے گھر سے نکلنا چاہتی ہے آپ مقدمہ دائر کریں۔ میں نے اسے کہا کہ بیٹی کو کل عدالت لے آئیں تنسیخ نکاح کا دعویٰ دائر کر دیتے ہیں۔ کہنے لگا سر اسے نہیں لا سکتا اس کے شوہر نے اسے گھر میں قید کر رکھا ہے۔
میں نے کہا کوئی بات نہیں ہم آپ کی طرف سے برآمدگی محبوسہ کی درخواست دائر کر کے بذریعہ پولیس خاتون کو عدالت میں طلب کرا لیتے ہیں۔ کہنے لگا سر یہ تو ٹھیک ہے لیکن گزارش ہے کہ میرا یا میری بیوی کا نام سامنے نہیں آنا چاہیے۔ شادی کے وقت ان لوگوں سے معاہدہ ہوا تھا کہ ہم اپنی بیٹی کے کبھی وارث نہیں بنیں گے۔ میں نے کہا محترم کھل کے بتائیں آخر مسئلہ کیا ہے۔ اس نے بتایا
”دراصل تین سال قبل میری بیٹی ہمارے ایک ہمسائے کے ساتھ ڈیوڑھی میں باتیں کرتی دیکھی گئی تھی۔ ہماری تو عزت ہی لٹ گئی۔ ہم کہیں منہ دکھانے کے قابل نہ رہے۔ مقدمہ بازی ہوئی معاملہ پنچایت تک پہنچا۔ کالے کو مارنے کی ہم میں سکت نہیں تھی اس لیے ہم نے اس سے پنچایتی فیصلے میں دس لاکھ روپیہ چٹی لے لی۔ لیکن سر اس کے بعد میرے بھتیجے میرے بیٹوں کو مسلسل اکساتے رہے کہ تم نے کالی گھر میں بٹھا رکھی ہے شرم نہیں آتی۔ جس نے خاندان کی ناک کٹوا دی ہے اس کو مارنے کی غیرت اگر تم میں نہیں ہے تو پھر ہمیں اجازت دو ہم اس کو قتل کر دیں گے۔
سرجی نارسائی کی جلن میں مبتلا یہ جو کزن ہوتے ہیں ناں انھوں نے خود تو مارنا نہیں ہوتا لیکن اس طرح سے اکسا اکسا کر والدین اور بھائیوں کو مجبور کر دیتے ہیں کہ وہ اپنی نازوں پلی لخت جگر کا خون کردیں۔ گھر میں بچی کی خون آلود لاش دیکھنے کا مجھ میں حوصلہ نہیں تھا اس لئے میں نے دوسرے حل کا سوچا جس کا ہمارے علاقے میں رواج چلا آ رہا ہے۔ ایک آدمی نے قبائلی پہاڑوں میں رابطہ کرایا اور میں نے اپنی 19 سال کی بچی ایک اڑتالیس سالہ بلوچ کے ہاتھوں تین لاکھ 25 ہزار روپے میں فروخت کردی“ ۔
میرے چہرے پر دکھ بے زاری اور غصے کی ملی جلی کیفیت دیکھ کر جلدی جلدی کہنے لگا ”سر جی یہ خرید و فروخت بھی ایک نظام کے تحت ہوتی ہے۔ تمام شرعی تقاضے پورے کیے جاتے ہیں۔ باقاعدہ نکاح ہوتا ہے اور بچی کو وہاں بیوی کی حیثیت ہی ملتی ہے۔ خریدنے والوں کی بس ایک ہی شرط ہوتی ہے کہ اس لڑکی کا اب کوئی وارث نہیں بنے گا نہ تو ماں باپ اسے ملنے جا سکتے ہیں اور نہ ہی لڑکی ماں باپ سے کبھی ملنے آ سکتی ہے“ ۔
میں نے پوچھا تو آپ یہ بات مان گئے کہنے لگا ”جی سر ویسے بھی جو لڑکی کالی ہو جاتی ہے وہ ماں باپ کے لیے مر جاتی ہے اس سے جان چھڑانے سے ہی معاشرے میں رہنے کے قابل ہو سکتے ہیں۔ خیر روانہ کرنے کے بعد شروع کے کچھ دن تو“ عزت کی بحالی ”کے اعتماد میں گزر گئے لیکن سر بعد میں جب میں اپنی بیوی کو بچی کی یاد میں روتے دیکھتا تو تڑپ اٹھتا۔ اکثر رات کو جب بھی میری آنکھ کھلتی تو دیکھتا میری بیوی پائنتی کی طرف بیٹھی لمبے لمبے سانس لے رہی ہے۔
وکیل صاحب ہم آخر ماں باپ ہیں بچی نے جو کیا تھا وہ قابل معافی ہرگز نہیں تھا لیکن پھر بھی ہے تو ہمارا ہی خون۔ ہم کیا کریں اس کی یادیں، اس کے کھلونے، اس کے کپڑے، گھر میں ہر طرف بکھری ہوئی اس کی ہنسی، بھائیوں کے ساتھ کی گئی ہر شرارت ہر لمحے ہمارے ذہنوں پر طاری رہنے لگی۔ ملے بغیر چارہ نہیں تھا اور ملنے کا یارا بھی نہیں تھا۔ بے بسی اور گھٹن میں اتنا عرصہ گزارنے کے بعد آخر ہم نے اس کے شوہر سے رابطہ کیا کہ ہمیں عید پر تو اپنی بچی سے ملنے دیں ہم خاموشی سے آئیں گے اور آدھے گھنٹے میں عیدی دے کر واپس چلے جائیں گے لیکن سر انہوں نے کورا سا جواب دے دیا کہ جو بات شرائط میں طے ہو چکی ہے اسے آپ دوبارہ نہیں منوا سکتے۔
ہمارے اس رابطے کا ہماری بیٹی کو معلوم ہوا تو زندان میں پہلی بار اسے روشنی کی کرن نظر آئی۔ اسے ہمت ملی تو کسی سے فون لے کر مجھ سے رابطہ کیا اور دھاڑیں مار کر روتے ہوئے اپنے اوپر ہونے والے تمام ظلم بتائے۔ کہتی تھی بابا میں اللہ میاں سے آپ کی صرف ایک شکایت کروں گی کہ آپ نے مجھے اسی وقت مار کیوں نہیں دیا تھا۔ موت سے بدتر زندگی کی سزا کیوں دی مجھے۔ آپ تو میرے بابا جانی ہیں ناں اتنا تو رحم کر سکتے تھے کہ جان سے ہی مار دیتے۔ ۔ وکیل صاحب وہ بہت پریشان ہے وہاں سے واپس آنا چاہتی ہے اور ہم بھی اسے اب قبول کرنے کو تیار ہیں۔ ہم معاشرے کا سامنا بھی کر لیں گے ہماری بچی ہمیں ہر صورت واپس چاہیے ”۔
کافی دیر گفتگو کے بعد میں نے اسے راضی کر لیا کہ وہ ہمت دکھائے اور اپنے نام سے بطور والد برآمدگی محبوسہ کی رٹ پٹیشن دائر کرائے۔ بچی عدالت میں اپنے والد کے ساتھ جانے کی سٹیٹمنٹ دے دے گی تو اس کا شوہر کچھ نہیں کر سکے گا اور بعد ازاں ہم ان کے پیسے واپس کر کے تنسیخ دائر کردیں گے اور خلع لے لیں گے۔
اس والد کی باتوں سے مجھے احساس ہوا کہ ہمارے علاقے کا انسان بھی اب بدلنے لگا ہے، وہ رشتوں کی اہمیت کو سمجھنے لگا ہے اور دقیانوسی خیالات اور رواجوں سے ہٹ کر بھی سوچنے لگا ہے۔ اسی خوش فہمی میں میں نے ایک اور سوال کر دیا۔ میں نے پوچھا ”کالی ہونے کے بعد وہ بچی اگر آپ کے لئے مر ہی گئی تھی اور اس سے چھٹکارا ہی حاصل کرنا تھا تو پھر آپ نے اسی لڑکے کے ساتھ شادی کر کے اسے دفع کیوں نہیں کر دیا جس کے ساتھ اس پر الزام لگا تھا؟
وہ حیرت سے میری طرف دیکھتے ہوئے بولا ”حد ہے وکیل صاحب کیسی باتیں کرتے ہیں آپ۔ اپنی بچی کو کالے کے ساتھ بیاہ دیتا؟ غیرت بھی کوئی چیز ہوتی ہے“ ۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر