دلبر مولائی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے پتہ چلا کہ سندھ میں ایک ایسا "زندہ پیر ” ہے جو صرف ایم۔ فل اور پی۔ ایچ۔ ڈی سکالرز سے ملاقات کرتا ہے۔ انہیں دعا دیتا ہے کہ ان بیروزگار سکالرز کو روز گار مل جاتا ہے۔
میں وہیں دوستوں سے ملنے گیا ہوا تھا ۔اس بزرگ کی ولایت کا ہر جگہ چرچا تھا ۔ میرے لئے یہ خبر ایک خوشخبری تھی کیوں کہ میں بھی ایک بیروزگار دانشور کا والد تھا۔
اس کامل ولی” زندہ پیر "سے ملاقات ممکن نہیں تھی۔ وہیں ایک گوٹھ میں پتہ چلا کہ فلاں ایم ۔فل سکالر کو روز گار مل گیا ہے ۔ میں نے دوستوں سے عرض کیا میری اس سے ملاقات ممکن بنوائیں ۔
دوسرے دن ہم اس نوجوان کو ملنے اس کے گوٹھ گئے ۔اس کے والد نے بتایا کہ وہ شب و روز پیرن شاہ کی درگاہ میں رہتا ہے۔جو اس بستی سے ایک کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔
ہم متعدد خیالات لئے دوستوں کے ہمراہ مذکورہ درگاہ میں پہنچے ۔ کیا دیکھتے ہیں کہ ایک سادہ سی سیمنٹ سے بنی قبر ہے۔اس کے سر کی طرف "پیرن شاہ ” نام کی تختی لگی ہوئی ہے۔ سادہ لکڑیوں اور گھاس پھوس سے بنا سا ئبان بنا ہوا ہے ۔اس کے نیچے ایک خوبرو نوجوان محو عبادت ہے۔ ہم وہیں بیٹھ گئے ۔دس منٹ بعد وہ نوجوان ہم سے مخاطب ہوا ۔ہمارے آنے کا مقصد پوچھا ۔ہم نے پہلے فاتحہ پڑھی، دعا مانگی ۔اپنا تعارف کرایا کہ میں بھی ایک بیروزگار دانشور کا والد ہوں ۔ اس نے مزید قربت کا اظہار کیا اور کہا مجھے تنہا ملیں ۔ میرے دوست اٹھ کر دور چلے گئے ۔ ہم نے تفصیلی احوال کا تبادلہ کیا ۔
اس نوجوان نے بتایا کہ میں انگلش میں ایم فل ہوں ۔روزگار کے لئے پریشان تھا ۔ سیاسی اپروچ تھی اور نہ ہی رشوت کے پیسے ۔ میں اس” زندہ پیر "کے پاس گیا جو خود بھی ایک پی۔ ایچ ۔ڈی سکالر ہے۔ اس نے میرے لئے دو دن عمل کیا اور میرے لئے خواب میں بشارت پائی ۔
مجھے حکم دیا کہ اس قبرستان میں ایک قبر کے نشان مٹ چکے ہیں ۔ٹیلے نما اونچی جگہ ہے۔وہاں سیمنٹ سے قبر کی تعمیر نو کرو اور ان کے نام ” پیرن شاہ” کی تختی بھی لگاو ۔مرتا کیا نہ کرتا ۔ رقم ادھار لی اور قبر کی تعمیر نو میں مصروف ہو گیا ۔ہفتے کے بعد "زندہ پیر” سے ملاقات کی ۔
اس نے فرمایا کہ ” پیرن شاہ” نے زندہ پیر کو بتایا ہے کہ اس نوجوان سے کہو بڑے شہروں اور غیرممالک کے خواب دیکھنا چھوڑ دے۔ ریاضت اپنائے اور میری قبر کی مجاوری کرے۔اس سے اسے عزت، دولت اور لوگوں کو رشد ملے گا ۔
مجھے یہاں بیٹھے تھوڑا عرصہ ہوا ہے ۔نمازی بن گیا ہوں ۔قرآن مجید کی تلاوت کرتا ہوں ۔نوافل پڑھتا ہوں ۔عشا کے بعد گھر جاتا ہوں ۔درگاہ میں لوگ کثرت سے آنے لگے ہیں ۔پانچ سے دس ہزار روپے تک نذر نیاز جمع ہوجاتی ہے۔لوگوں کی بھرپور عقیدت سے میری حوصلہ افزائی ہوئی ہے ۔اب دینی مدرسہ اور روضہ بنانے کا سوچ رہا ہوں ۔ پچاس سے زیادہ سکالرز نئی دریافت شدہ قبروں کی مجاوری کر رہے ہیں ۔ دربار دتو شاہ، دربار موسن، دربار بی بی سینڑ وغیرہ وغیرہ سے لوگ رشد لے رہے ہیں اور ہم عبادت بھی ، عزت بھی اور دولت بھی کما رہے ہیں ۔ پہلی فرصت میں اپنے سکالر بیٹے کو بھیجو ۔” زندہ پیر” سے ملاقات کرے ۔عمل کروائے اور کسی ویران قبرستان کو آباد کرے۔
یہ بھی بتا دوں اپنا” زندہ پیر” بھی کشمیر سے آیا تھا ۔بہت غریب تھا اور آج کل کروڑوں کا مالک ہے۔ اس کے بڑے آباواجداد غیر مسلم تھے ۔یہ نو مسلم پی۔ ایچ ۔ڈی ” زندہ پیر "ہے۔
میں” نئی امید ” لے کر دوستوں کے ہمراہ واپس آ گیا ۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر