رضوانہ تبسم درانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسے ہی الماری صاف کرنے لگی تو اس میں سے ایک نایاب تصویر مجھے ملی ۔تو کافی دیر میں اپنی اس تصویر کو دیکھتی رہی اور سوچتی رہی کہ کل کیسا تھا اور آج کیسا ہے ۔میں سمجھتی ہوں جس طرح تصویر کچھ اچھی لگ رہی ہے اسی طرح ہمارا کل بھی بہت پیارا تھا ۔کوئی رنجشیں نہیں تھیں عداوتیں نہیں تھیں اور مخالفتیں بھی نہیں تھیں۔ حسد بغض کینہ نہیں تھا ۔
معصومیت تھی چلاکیاں نہیں تھیں۔ میںلوں سفر کر کےتھکتے نہیں تھے ۔کوئی بھی کام کرنا رشتے داروں سے دوستوں سے صلاح مشورہ کرتے تھے ۔سارا سارا دن ساری ساری رات کام کرنا لوڈو کھیلنا اور بیٹھ کے باتیں کرنا مشغلہ ہوتا تھا ۔ایک گھنٹے کا ڈرامہ ہوتا تھا اور پھر خبریں دیکھ کر سو جاتے تھے ۔پیدل سکول جاتے تھے پیدل واپس آتے تھے ورزش کرتے تھے ۔یہ فوڈپانڈا نہیں ہوتا تھا گھر کے دیسی کھانے ہوتے تھے ۔چاٹی کی لسی مکھن سے ناشتہ ہوتا تھا رات کو پتلی دال اور سفید چاول بنتے تھے ۔
ایک پنکھا صحن میں لگتا تھا اور ساری چارپائیوں کو ہوا دیتا تھا ۔لکڑی کا چولہا جلتا تھا اور جس کے اردگرد کے سارے بہن بھائی بیٹھ کے ماں کی باتیں سنتے تھے ایک سالن بنتا تھا اور تندور کی گرم گرم روٹی سے بڑی خوشی سے کھانا کھاتے تھے ۔خالص دوستی تھی خالص پیار تھا خالص محبت تھی بناوٹ تصنوع سے پاک خوبصورت زندگی تھی ۔نلکے سے پانی بھرنا اور ڈھیروں ڈھیر کپڑے دھونے اور سارے بہن بھائیوں کی باری لگنا اور خوش ہو کے کام کرنا ۔ناماں بیمار تھی نہ بابا کو کوئی تکلیف تھی ۔
اور بیماریوں کے نام سے تو دور دور تک کوئی واسطہ ہی نہیں تھا ۔نوکرانی کا تصور ہی نہیں تھا کار موٹر سائیکل کی دوڑ نہی تھی کے خاندان میں کسی کے پاس کار ہے یا موٹر سائیکل ہے بس ماضی کے جھروکوں میں چلی گئی تو کچھ باتیں یاد آگئیں اور لکھنے بیٹھ گئی آج اور کل میں کیا فرق ہے آج تو کسی کو اچھا پہنا اچھا کھانا دیکھ کے بھی لوگوں کو تکلیف ہوتی ہے کہ اس نے کہاں سے لیا ہے اس کے پاس کہاں سے پیسہ آیا ہے یہ سوچے بنا کے اس نے کتنے دن رات آپ سے دور رہ کے محنت کی ہوگی آج ہم وہی ہیں جو کل تھے۔
ہماری اقدار بھی وہی ہیں ہماری روایات بھی وہی ہیں ہماری ثقافت بھی وہی ہے لیکن ہم نے ان کی پاسداری کرنی چھوڑ دی ہے ہم راتوں رات امیر بننے کے چکر میں لوگوں کی دیکھا دیکھی محل بنانے کی دوڑ میں اپنی ہی خوشیوں کو خراب کر بیٹھے ہیں ۔آج مائیں بھی ہیں باپ بھی ہیں بڑے بھی ہیں بزرگ بھی ہیں لیکن افسوس کہ ان کا تقدس ختم ہوگیا ہے ۔
سب کچھ ویسا ہے لیکن ہماری سوچیں بدل گئی ہیں ہر انسان اپنے آپ کو عقل کل سمجھنے لگ گیا ہے بڑوں کا کہنا ماننا یا ان سے پوچھنا شان میں کمی کا باعث ہے ۔دوسروں کی راہ میں پتھر پھینکنا دوسروں کی غیبت کرنا دوسروں کو برداشت نہ کرنا دوسروں سے حسد کرنا دوسروں کو نیچا دکھانا دوسروں کی جڑیں کاٹنا دوسروں کی تذلیل کرنا دوسروں پر کیچڑ اٹھانا ہمارا وطیرہ بن گیا ہے اللہ سے دوری اسلام سے دوری قرآن نماز کی جگہ ویڈیو موبائل فلمیں ہمیں لے ڈوبا ہے۔ کرونا جیسی مہلک مرض نہیں آئے گی تو کیا ہوگا ۔اپنے کل کو دیکھیے اپنی اقدار کو پہچانیے اپنے اسلام کی پیروی کیجئے ۔اسی میں بھلائی اور بہتری ہے ایک دوسرے کا احساس کیجئے غریبوں کی مدد کیجئے ۔شاید ہم فلاح پا سکیں ۔معذرت چاہوں گی کہ میری تحریر طویل ہو گئی ہے
لیکن یہ وہ کڑوا سچ ہے جو شاید بہت سوں کو برا بھی لگ جائے فی امان اللہ
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ