نومبر 14, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

جنرل صاحب، معذرت کے ساتھ|| اعزاز سید

دوسری قسم ایسی کتابوں کی ہوتی ہے جن میں کردار بیباکی سے اپنے ماضی میں ادا کیے گئے کردار کا تذکرہ اور غلطیوں کا اعتراف کرتے ہیں۔ یوں قوم کے سامنے تاریخ کے کچھ حقائق آتے ہیں اور وہ اپنی سمت کا تعین کرتی ہے۔ مجبوریوں سے آزاد ایسی کتابیں پاکستان میں بہت کم ہیں۔

اعزاز سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اقتدار میں رہنے والوں کا ایک بڑا المیہ یہ ہوتا ہے کہ پہلے انہیں اقتدار حاصل کرنے اور پھر اس کے استحکام و دوام کے لئے اچھے برے کام کرنا پڑتے ہیں۔ اس سب کے بعد یہ فطری خواہش بھی ہوتی ہے کہ انہیں اچھے نام سے ہی یاد رکھا جائے۔ اسی خواہش کی تکمیل کے لئے سوانح عمریاں لکھی یا لکھوائی جاتی ہیں۔ اقتدار والوں کی سوانح عمریاں عمومی طور پر دو طرح کی ہوتی ہیں۔ پہلی وہ جن میں خود کو فرشتہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے اپنی غلطیوں کو دوسروں کے سر تھونپا جاتا ہے یا اسے حالات کا جبر قرار دیا جاتا ہے۔ دوسری قسم ایسی کتابوں کی ہوتی ہے جن میں کردار بیباکی سے اپنے ماضی میں ادا کیے گئے کردار کا تذکرہ اور غلطیوں کا اعتراف کرتے ہیں۔ یوں قوم کے سامنے تاریخ کے کچھ حقائق آتے ہیں اور وہ اپنی سمت کا تعین کرتی ہے۔ مجبوریوں سے آزاد ایسی کتابیں پاکستان میں بہت کم ہیں۔

پاکستان کے نویں آرمی چیف جنرل اسلم بیگ کی ’’اقتدار کی مجبوریوں‘‘ کے عنوان سے تازہ سوانح حیات کا مطالعہ کریں تو پتہ چلے گا کہ 17اگست 1988 سے 16اگست 1991تک ملک کے اہم ترین عہدے پر رہنے والے اسلم بیگ کو کتاب میں ایک ایسا آزاد منش اور بےنیاز آدمی کے طور پر پیش کیا گیا ہے کہ جن سے کوئی غلطی سرزد ہوئی ہی نہیں اور اگر کچھ غلط ہوا بھی تو یہ کسی دوسرے کی سازش تھی۔ کتاب میں کچھ اچھی باتیں بھی ہیں جیسے ان کی طرف سے جنرل ضیاء کی وفات کے بعد ملک میں مارشل لا کے نفاذ سے گریز کرنا وغیرہ مگر کتاب میں کچھ ایسے موضوعات بھی ہیں جن پر یا تو سرے سے معلومات دی ہی نہیں گئیں یا پھر ادھوری بات کی گئی ہے جو تاریخ کے ساتھ سراسر زیادتی ہے۔ کالم میں جگہ کے اختصار کے باعث میں صرف دو موضوعات پر ہی اکتفا کروں گا۔

سب سے پہلے کتاب میں جنرل اسلم بیگ کی بطور آرمی چیف تعیناتی کے دوران پیپلز پارٹی کو کمزور کرنے اور اسے انتخابات میں شکست دلوانے کے لئے قائم کیے گئے اسلامی جمہوری اتحاد کا تذکرہ سرے سے موجود ہی نہیں۔ تاہم اس حوالے سے شہرہ آفاق اصغر خان کیس کا تذکرہ ایک سازش کے تناظر میں ضرور کیا گیا ہے۔ جنرل صاحب فرماتے ہیں کہ 1994میں بےنظیر بھٹو کی حکومت دوبارہ بنی تو ان کے خلاف سازشی کارروائی کا آغاز ہوا۔ اس وقت کے ڈائریکٹر ایف آئی اے رحمٰن ملک کو ذمہ داری سونپی گئی۔ جنہوں نے 6جنوری 1994کو جرمنی جاکر سابق ڈی جی آئی ایس آئی اسد درانی سے اپنے مطلب کا بیان لیا۔ بیگ صاحب کے مطابق پیپلز پارٹی نے اسد درانی کو جرمنی کا سفیر تعینات کرکے ان کی وفاداری خرید رکھی تھی۔ درانی نے بےنظیر کے نام اپنے دستخطوں سے ایک خط لکھا جسے بعد میں انکے خلاف استعمال کیا گیا۔ اسلم بیگ اسی تناظر میں کچھ دوسری تفصیلات بیان کرتے ہوئے آگے جاکر یہ انکشاف بھی کرتے ہیں کہ اس وقت کے آرمی چیف جنرل عبدالوحید کاکڑ نے ان کے خلاف فوج کے پلیٹ فارم سے تو کارروائی نہ کی تاہم وہ سول عدالت میں ان کی ’’خاطر مدارت‘‘ کے خواہش مند تھے۔ یعنی پیپلز پارٹی ان کے خلاف سازش کررہی تھی، ان کے جونیئر اسد درانی خرید لئے گئے تھے اور اس دور کے آرمی چیف بھی انہیں سول عدالت میں سبق سکھانا چاہتے تھے۔ کیا تاریخ کا کوئی ادنیٰ طالب علم بھی جنرل صاحب کی یہ باتیں مانے گا؟

جنرل اسلم بیگ کی سوانح حیات دراصل کرنل اشفاق حسین کے سابق جنرل صاحب سے لئے گئے طویل انٹرویو پر مبنی ہے۔ کتاب پڑھتے ہوئے مجھے خیال آیا کہ میں اشفاق صاحب سے رابطہ کر کے پوچھوں کہ انہوں نے میاں نواز شریف کی سربراہی میں آئی جے آئی کی تشکیل کے بارے میں تفصیلات کتاب میں شامل کیوں نہیں کیں؟ یہ وہ معاملہ ہے جس پر سپریم کورٹ اسلم بیگ کو باقاعدہ مجرم قرار دے چکی ہے۔ کھلی عدالت میں سابق بینکار یونس حبیب ڈالیا نے بھی جنرل اسلم بیگ کی موجودگی میں اعتراف کیا تھا کہ کس طرح انہوں نے جناب بیگ کی ہدایات پر ’’قومی مفاد میں‘‘ پیسوں کا انتظام کیا پھر وہ رقم مختلف سیاستدانوں میں بانٹی گئی۔

اشفاق حسین صاحب سے رابطہ ہوا تو انہوں نے کھلے دل سے بتایا کہ آئی جے آئی والی بات ان کے ذہن میں نہیں آئی اس لئے پوچھی بھی نہیں لہٰذا یہ معاملہ کتاب میں شامل نہیں۔ کتاب میں بیگ صاحب نے اپنے خلاف کیس کو سازش قرار دیا پتہ نہیں یہ ان کی طرف سےسپریم کورٹ کے فیصلے کی توہین ہے یا نہیں البتہ یہ ایک حقیقت ہے کہ اعلیٰ ترین عدالت کا ان کے خلاف فیصلہ ابھی تک عملدرآمد کا منتظر ہے۔

کتاب میں ایک دوسرا موضوع بھی ہے جسے پڑھ کر تشنگی نہ صرف برقرار رہتی ہے بلکہ کتاب کے ادھورے پن کا احساس بھی دلاتی ہے۔ 17اگست  1988 کو بہاولپور میں جنرل ضیاء الحق کے طیارے کو پیش آنے والے حادثے کا معاملہ بھی یہی ہے۔ اس وقت اسلم بیگ وائس چیف تھے یعنی جنرل ضیاء کے بعد سب سے اہم افسر اور اس حادثے کے سب سے بڑے بینی فشری۔

اسلم بیگ نے طیارہ حادثہ کی تحقیقات کا ذکر صرف اتنا کیا ہے کہ بےنظیر اور نواز شریف کے ساتھ انہوں نے تحقیقات کی بات کی تھی بعد میں ایک کمیشن نے اس معاملے کو طیارے کا حادثہ قرار دے دیا۔ بیگ صاحب نے بالواسطہ طور پر کہا ہے کہ طیارہ چونکہ پاکستان ائیر فورس کا تھا لہٰذا تحقیقات کی اصل ذمہ داری ان کی ہی بنتی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ اس حادثے کی تحقیقات پاک فوج اور اس کے خفیہ اداروں نے بھی کی تھی جن کی رپورٹس اور دیگر معلومات سے جنرل اسلم بیگ واقف ہیں تاہم ان کا تذکرہ نہیں کیا گیا۔ جنرل اسلم بیگ بطور آرمی چیف اس حادثے کے بارے میں کتاب میں درج واقعات سے کہیں زیادہ آگاہ رہے ہیں مگر نجانے کیا معاملہ ہے کہ وہ آج بھی اس حادثے پر مکمل حقائق بیان کرنے سے گریزاں ہیں جس سے کتاب ادھوری لگتی ہے۔

آخر میں جنرل صاحب سے معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ اگر وہ مکمل حقائق عوام کو نہیں بتائیں گے تو انکی ادھوری سوانح حیات ان کی شخصیت پر لگے داغ تو نہیں دھو پائے گی البتہ انہیں اور گہرا ضرور کر جائے گی۔ باقی آپ کی مرضی۔

یہ بھی پڑھیے:

کیا اپوزیشن کامیاب ہوگی؟۔۔۔ اعزاز سید

خادم رضوی کی وفات کے بعد جماعت کا مستقبل ؟۔۔۔اعزازسید

وزیراعظم کے پرنسپل سیکریٹری اعظم خان کون ہیں؟—اعزازسید

پی ڈی ایم کی تشکیل سے قبل ایک اہم سرکاری اجلاس میں کیا ہوا؟۔۔۔اعزازسید

اعزاز سید کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author