نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اخبار کے لئے لکھا کالم تحقیقی مضمو ن نہیں ہوتا۔ برجستہ لکھا جاتا ہے۔تاریخی حوالے دیتے ہوئے اس کے باوجود محتاط رہنا لازمی ہے۔اس تناظر میں مجھ سے بھی ایک فاش غلطی سرزد ہوگئی۔روانی میں دعویٰ کردیا کہ آزادکشمیر نواز شریف کے نام سے منسوب ہوئی مسلم لیگ نے وہاں 2016کا انتخاب لڑنے کے لئے اپنی الگ شناخت کو اجاگر کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔جبکہ یہ واقعہ 2011میں ہوا تھا۔ان دوستوں کا تہہ دل سے مشکور ہوں جنہوں نے اس غلطی کی نشان دہی کی۔
آزادکشمیر کے انتخاب کی بابت لکھے کالموں میں بارہا اعتراف کرتا رہا ہوں کہ مجھے وہاں کے زمینی حقائق سے کماحقہ آگاہی میسر نہیں۔گوشہ نشین ہوئے رپورٹر کو اسلام آباد کے بااثر حلقوں سے جو اشارے ملتے رہے ان کی بنیاد پر اندازے لگاتا رہا۔مذکورہ تناظر میں یہ بھی لکھ دیا تھا کہ محترمہ مریم نواز صاحبہ کے پرہجوم اور پرجوش جلسوں کے باوجود ان کی جماعت کو ’’5سے 6نشستوں ‘‘ تک محدود رکھنے کی بات چل رہی ہے۔ پیپلز پارٹی اس کے برعکس دوسرے نمبر پر آتی بتائی جارہی ہے۔انتخابی نتائج نے مجھ تک پہنچی اطلاعات کو درست ثابت کیا۔
ہمارے ہاں مابعد انتخاب تجزیے کی روایت قائم نہیں ہوئی ہے۔ہارنے والے محض ’’دھاندلی‘‘ کی دہائی مچاتے رہتے ہیں۔اس دہائی پر اکتفا ہمیں برسرزمین موجود حقائق سے غافل رکھتا ہے۔ہماری ریاست کے یقینا چند دائمی ادارے ہیں۔وہ جائز وناجائز وجوہات کی بنا پر سیاسی منظر نامے پر گہری نگاہ رکھتے ہیں۔دنیا بھر کی ریاستوں میں ایسی نگرانی ہوتی ہے۔اصل گڑبڑ مگر اس وقت شروع ہوتی ہے جب سیاسی منظر نامے پر محض نگاہ رکھنے کے بجائے اسے اپنی ترجیح کے مطابق تشکیل دینے کی کوشش طاقت ور حلقوں کے ذہنوں پر حاوی ہوجائے۔
پاکستان میں بالغ رائے دہی کی بنیاد پر عام انتخاب پہلی بار 1970میں ہوئے تھے۔اس کے نتائج کی بابت ہمارے ریاستی اداروں نے جو انداز ے لگائے تھے پریشان کن حد تک غلط ثابت ہوئے۔اس سے خوفناک نتیجہ یہ بھی برآمد ہوا کہ شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے ان دنوں کے مشرقی پاکستان میں اپنی کامل اجارہ دار ی دکھائی۔صوبائی خود مختاری کی بنیاد پر اس جماعت کے 1966کے برس سے چند ٹھوس مطالبات تھے۔مغربی پاکستان کی واحد اکثریتی جماعت کے طورپر ابھرنے والی پیپلز پارٹی انہیں تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھی۔شیخ مجیب کے چھ نکات کی مزاحمت کرتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو کی نگاہ میں یہ حقیقت بھی تھی کہ مغربی پاکستان کے دو چھوٹے صوبوں یعنی ان دنوں کے صوبہ سرحد اور بلوچستان میں ولی خان کی نیشنل عوامی پارٹی طاقت ور ترین جماعت کے طورپر سامنے آئی۔صوبائی خودمختاری کے حوالے سے اس کے نظریات عوامی لیگ کے قریب تر تھے۔جنرل یحییٰ کی حکومت 1970کا انتخاب جیتنے والی جماعتوں کو سیاسی سمجھوتوں کی جانب راغب کرنے کے بجائے ان کے مابین اختلافات کو ہوا دیتی رہی۔اس کے نتیجے میں پاکستان بالآخر دولخت ہوگیا۔’’سقوط ڈھاکہ‘‘ کے سانحے کے بعد ریاستی اداروں نے طے کرلیا کہ انتخابی عمل ان کے لئے پریشان کن حیرانیاں پیدا نہ کرے۔
مذکورہ سوچ کے تحت ہی 1988کے انتخاب سے قبل محترمہ بے نظیر بھٹو اور ان کی جماعت کو اس کی ’’اوقات‘‘ تک محدود رکھنے کے لئے پیپلز پارٹی کی تمام مخالف جماعتوں کو آئی جے آئی نامی اتحاد میں یکجا کردیا گیا تھا۔انتخابی نتائج آجانے کے بعد پاکستان کا آبادی کے اعتبارسے سب سے بڑا صوبہ اس اتحاد کی بدولت پیپلز پارٹی کے ہاتھ نہیں آیا۔ یہ سوچنا بھی لیکن دانشورانہ بددیانتی ہے کہ ریاستی ادارے محض زور زبردستی کی بنیاد پر اپنی پسند وترجیح کا سیاسی منظر نامہ تشکیل دے سکتے ہیں۔
انتخابی عمل اپنے تئیں ایک بہت ہی پیچیدہ عمل ہے۔اسے اپنے قابو میں لانے کے لئے لازمی ہے کہ برسرزمین حقائق کو ٹھوس اعدادوشمار کے ذریعے سمجھنے کی کوشش ہو۔آ ج کی دنیا میں اسے Data Analysisکہا جاتا ہے۔موبائل فون اور سوشل میڈیا نے Dataجمع کرنے والی قوت کو توانا تر بنادیا ہے۔اس کا عملی اظہار برطانیہ کے اس ریفرنڈم کے دوران ہوا جو یورپی یونین سے علیحدگی کے سوال کی بابت ہوا تھا۔برطانیہ کی نام نہاد Deep Stateیادریںدولت کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔امریکہ کی Establishmentبھی ٹرمپ کی کامیابی سے زیادہ خوش نہیں تھی۔وہ مگر امریکہ کی سفید فام اکثریت کے دلوں میں نسلوں سے موجود تعصبات کو بھڑکاتے ہوئے چھاچھوگیا۔
بھارت میں نریندر مودی کی جماعت بھی Dataکے ٹھوس تجزیے کے بعد ہی مسلسل کامیابیوں کی جانب سفر کرتی رہی ہے۔وہ ڈھٹائی سے اصرار کرتی ہے کہ بھارت ایک ہندواکثریتی ملک ہے۔انتخاب جیتنے کے لئے لہٰذا لازمی ہے کہ ہندو اکثریت کے دلوں میں موجود تعصبات وخدشات کو بھڑکایا جائے۔بھارت کے کئی صوبوں میں لیکن اس کی حکمت عملی کامیاب نہیں ہوئی۔کیرالہ اور مشرقی بنگال اس کی واضح مثال ہیں۔بھارتی پنجاب میں بھی اس کا جادوچل نہیں پایاہے۔
بھارت میں Dataکا تجزیہ کرتے ہوئے سیاسی جماعتوں کے لئے انتخابی مہم مرتب کرنے والا ایک ماہر ہے۔نام ہے اس کا پریشانت کشور۔بھارتی بنگال میں اپنی کامیابی کو یقینی بنانے کے لئے ممتابنیر جی نے اس سے رجوع کیا۔ مودی اور امیت شا کی چالاکیاں اور بھاری بھر کم جلسے پریشانت کی بنائی حکمت عملی کا توڑ فراہم نہ کرپائیں۔ٹھوس اعدادوشمار کی بنیاد پر بنائی اس کی حکمت عملی انتہائی اعتماد سے دعویٰ کرتی رہی کہ بنیر جی کی جماعت کو کم از کم اتنی سیٹیں ملیں گی۔انتخابی نتائج نے اس کے دعویٰ کو درست ثابت کیا۔
کوئی تسلیم کرے یا نہیں عمران خان صاحب کی تحریک انصاف پاکستان کی وہ پہلی جماعت ہے جو سوشل میڈیا اور Dataکو سنجیدگی سے لیتی ہے۔اس ضمن میں Same Pageوالی حقیقت بھی اسے فائدہ پہنچارہی ہے۔یہ تسلیم کرنے کے بعد سیاست کا طالب علم ہوتے ہوئے میں نہایت اعتمادسے یہ دعویٰ کرنے کو بھی مجبور ہوں کہ تحریک انصاف کا توڑ Data Analysisکی بنیاد پر ہی بآسانی ڈھونڈاجاسکتا ہے۔مثال کے طورپر سندھ میں ابھی تک اس جماعت کی حکمت عملی قطعاََ ناکام رہی ہے۔ آزادکشمیر کے حالیہ انتخاب کے دوران بھی پیپلز پارٹی اس کا مقابلہ کرنے کے لئے تگڑے امیدواروں اور مناسب حکمت عملی کے ساتھ میدان میں اتری۔ نواز شریف کے نام سے منسوب مسلم لیگ کا یقینا ایک طاقت ور ترین ووٹ بینک ہے۔مریم نواز صاحبہ کی صورت اسے کرشماتی ووٹ Pullerبھی مل چکا ہے۔اس جماعت کی صفوں میں لیکن مفاہمت یا مزاحمت کے سوال نے ذہنوں کو الجھا دیا ہے۔تحریک انصاف اس کا بھرپور فائدہ اٹھارہی ہے۔
بدھ کے روز پنجاب میں صوبائی اسمبلی کے ایک حلقے میں تحریک انصاف کی کامیابی بنیادی طورپر Dataکی بنیاد پر بنائی حکمت عملی کا بھرپور اظہار تھی۔روزنامہ جنگ کے لئے تحریک انصاف کے ایک حامی لکھاری منصور آفاق صاحب ایک کالم لکھتے ہیں۔چند روز قبل انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ تحریک انصاف کا امیدوار کم از کم 60ہزار ووٹ لے کر جیت جائے گا۔وہ بالآخر درست ثابت ہوئے۔دھاندلی کی دہائی مچانے کے بجائے مسلم لیگ (نون) کو فی الوقت اپنی صفوں میں موجود ذہنی الجھائو سے نجات کی ضرورت ہے۔اس کے بعد ہی Dataپر توجہ دیتے ہوئے کامیابی کو یقینی بنانے والی حکمت عملی تشکیل دی جاسکتی ہے۔
بشکریہ نوائے وقت
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر