شہزاد عرفان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی بھی فنکار چاہے کسی بھی رنگ و نسل قوم قبیلے مذہب ریاست سے تعلق رکھتا ہو وہ انسانیت کا مشترکہ سفیر ہے جس شخص نے اپنی تمام عمر چالیس سالوں پر محیط جنگ کے یتیم لاوارث معذور بچوں کو ہنسنا سکھایا ان کے درد بانٹے اور مسکرانے کا موقع دیا آج اسکے بچے اسی درد دکھ کے آنسو بہا رہے ہیں نظرمحمد مزاحیہ فنکار کا طالبانوں کے ہاتھوں سفاکانہ قتل دنیا بھر کی مسکراہٹوں کا قتل ہے ۔ ہمارے وزیرِ خارجہ انہیں سادہ اور ذہین لوگ کہتے ہیں طالبان کی حمایت کرتے ہیں کہ طالبان کے ساتھ ان کا رشتہ مذہب اور کلمہ کا ہے
لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھرنے والے نظر محمد جو معاشرے کا مزاحہ کردار جاناجاتا تھا ایک فنکار تھا عوام کا ہردل عزیز تھا وحشی طالبانوں نے گھر سے نکال کر پہلے ان پر بدترین تشدد کیا اور بعد میں بےدردی سے ذبح کرکے لاش کو درخت سے لٹکا دی ۔ افغانستان میں برسوں پر محیط جنگ نے جس معاشرے کو دکھوں غموں اور مایوسیوں سے بھر دیاتھا،نظر محمد نے افسردہ، مایوس، بدحال اور ناامیدی کی شکار قوم کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیرنے کا کام کیاتھا
نظر محمد
"اسپین بولدک، قندھار”
کے نامور کامیڈین "خاشہ زوان” کو ظالم، بےحس بھیڑیوں نے اسکے بچوں کے سامنے لوگوں کےسامنے گھر سے نکال کر قتل کر دیا گیا
جو آگ ہمارے جرنیلوں اور پنجابی سیاسی اشرافیہ نے ڈالروں ریالوں کے بدلے اسلام کے نام پر افغانستان میں لگائی اس سے ان کا کچھ بھی باقی نہیں بچا مسکراہٹیں بانٹنے والا یہ سفیر بھی نہیں سکول جاتی معصوم بچیاں بھی نہیں نوجوان بھی نہیں کوئی فلسفہ کوئی سائنس کوئی ازم کوئی جمہوریت کوئی ثقافت قوم ریاست کوئی مذہب کوئی اسلام کوئی عیسائی ہندو سکھ بدھ کچھ بھی تو باقی نہیں بچا ۔۔۔۔ مگر یہ آگ جنگل کی آگ سے زیادہ خوفناک ہے یہ آگ انسانی شعور و ترقی کے خلاف انسانی درندگی کی آگ ہے جسے کوئی سرحد پہاڑ فوج جدید ترین اسلحہ ٹیکنالوجی کچھ بھی نہیں روک سکتا۔ انسانی کمپلکس ذہن میں انجینئرڈ کیا ہوا یہ عفریت کسی بھی وقت کسی بھی جگہ کسی بھی نسل میں جاگ جائے اور آدم بو آدم بو کرتا سب کو ہڑپ کرجائے ۔
جن پنجابی جرنیلوں نے قتل و غارت لوٹمار کو اسلام اور جہاد کا نام دے کر افغانستان پاکستان کو تباہی کے دہانے پر کھڑا کرکے خود مغربی آقاؤں کی آغوش میں یہ سوچ کر رٹائرمنٹ گزار رہے ہیں کہ یہ اور ان کی خشحال نسلیں اس عفریت سے بچ پائیں گے ان کے مالک انہیں اس عفریت سے بچالیں گے۔۔۔۔ نہیں ۔۔۔۔ یہ انسانی خون کا پیاسا جن اب دنیا میں ہر اس جگہ موجود ہے ۔ یہ منظر دور نہیں ہے پاکستان کی سرحدوں کے اندر طالبان کے گڑھ بن چکے ہیں ہر مسجد ہر مدرسہ طالبان کی تنظیم سازی میں مکمل ہوچکا ہے جس ملک کا وزیر اعظم وزیر خارجہ اور داخلہ طالبان کے نمائندگان ہوں انکے ہمدرد ہوں تب سوچیں پاکستان میں کیا ہونے والا ہے۔یہ بھیڑئے تو صرف رات کی تاریکی کے انتظار میں ہیں یہ غول درغول کچھاروں سے باہر آکر گھروں سے باہر نکال کر ننظرمحمد،اور ملالہ کا قتل کریں ۔ افسوس تو یہ ہے کہ فوج کے جوانوں کے سرکاٹ کر فٹبال کھیلنے پر بھی ہمارے جرنیلوں کی ہمدردیاں ان کےساتھ ہیں فوجیوں کے معصوم بچوں کو ذبحہ کرنے والوں کو اس ملک میں ٹی وی پروٹوکول انٹرویوز اور معافی دے کر بھگایا جاتا ہے ۔
مرنے سے کچھ دیر پہلے
” خاشہ زوان” نے اپنے قاتلوں کو بھی ہنسانے کی اپنی سی ناکام کوشش کی مگر انسانیت کے قاتل انسان نما حیوانوں نے خوشیاں بانٹنے والے اس بےضرر معصوم انسان کی زندگی کا بےدردی سے خاتمہ کر دیا
جب تک عوام کی آنکھوں سے نام نہاد حب الوطنی کی پٹی اور سرپر مذہب مسلک کا دینی آہنی شکنجہ نہیں اترتا تب تک فوجی جرنیل اور ان کے گماشتہ سیاسی اشرافیہ جمہوریت کے لبادے میں اسلام کا نام لے کر غریب عوام سے اس عفریت کی بھوک مٹا کر اسےپالتے رہیں گے۔ نظر محمد جتنا افغان پشتون کا ہردل عزیز تھا اتنا پاکستانی پشتونوں کا بھی ہردل عزیز تھا۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ