اسلام آباد: بقرعید سے ایک دن قبل اسلام آباد کے پوش سیکٹر ایف سیون میں بیہیمانہ طور پر قتل کی جانے والی نور مقدم کے قتل کے شبہ میں گرفتار ملزم ظاہر جعفر سے پولیس تفتیش جاری ہے۔
پیر کو مقامی عدالت نے ملزم کے ریمانڈ میں دو روز کی مزید توسیع کر دی ہے، جبکہ پولیس نے مقدمے میں اعانت جرم، جرم چھپانے اور شواہد پر پردہ ڈالنے جیسی مزید دفعات بھی شامل کر لی ہیں۔
وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید کے مطابق ملزم ظاہر جعفر کا نام بلیک لسٹ میں ڈال دیا گیا ہے تاکہ ضمانت کی صورت میں بھی وہ ملک سے باہر سفر نہ کر سکیں۔
ملزم کے والد اور معروف کاروباری شخصیت ذاکر جعفر اور والدہ عصمت آدم جی بھی اس وقت دو روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کی تحویل میں ہیں جنہیں منگل کو دوبارہ عدالت میں پیش کیا جا رہا ہے۔
اس کیس کو ملک میں عورتوں کے عدم تحفظ کے حوالے سے ایک مثال کے طور دیکھا جا رہا ہے۔ اب تک اس کیس میں کب کب کیا پیش رفت ہوئی؟
مقتولہ کی 13 سال سے دوست اور خاندان کی ترجمان عائلہ حسین نے میڈیا کو کو بتایا کہ 19 جولائی کی شام نور مقدم کے والدین گھر سے باہر کسی کام سے گئے تو واپسی پر اپنی بیٹی کو گھر میں نہیں پایا۔ بیٹی کو متعدد بار کالز کیں مگر جواب نہیں ملا جس کے بعد انہوں نے عائلہ سمیت بیٹی کی دوستوں سے رابطے کیے اور اس کی تلاش شروع کر دی۔ نور مقدم پاکستان کے سابق سفیر شوکت مقدم کی بیٹی تھیں۔
نور کے کلاس فیلوز اور دوستوں کے ایک گروپ نے ہر جگہ تلاش کے بعد اسی رات ملزم ظاہر جعفر کے گھر کا رخ بھی کیا، کیونکہ ظاہر جعفر اور نور کے مشترکہ دوستوں کو معلوم تھا کہ دونوں کے درمیان کئی سال سے خاندانی دوستی تھی اور دونوں کی شادی تک زیربحث آئی تھی، مگر اس سال رمضان میں نور نے ملزم کو بتا دیا تھا کہ وہ اس سے شادی نہیں کر سکتی۔
عائلہ کے مطابق مشترکہ دوستوں کا ملزم ظاہر جعفر کے گھر آنا جانا رہتا تھا کیوں کہ اس کے گھر میں گارڈز اور گھریلو ملازمین کی وجہ سے دروازے اکثر کھلے رہتے تھے۔ تاہم اس روز ملزم نے آنے والے مشترکہ دوستوں کو گھر کے ٹیرس سے ہی کہا کہ نور اس کے پاس نہیں اور اس وقت وہ انہیں اندر نہیں بلا سکتا۔
دوسری طرف والدین تلاش جاری رکھے ہوئے تھے کہ انہیں نور کی طرف سے کال آئی کہ وہ لاہور ایک اجتماع کے سلسلے میں گئی ہوئی ہیں اور فون پر مزید رابطہ نہیں کر سکتی۔ عائلہ کے مطابق ہو سکتا ہے نور کو ملزم نے یرغمال بنا کر اس سے زبردستی یہ کہلوایا ہو۔
دوروز قبل بھی سابق سفارتکار کی بیٹی نور مقدم قتل کیس کے مرکزی ملزم ظاہرجعفر کے والدین اور 2سیکیورٹی گارڈزکو ڈیوٹی مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا،عدالت نے پولیس کی درخواست پر ملزمان کو 2روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا تھا۔
اسلام آباد پولیس نے موقف اختیار کیا تھا کہ ملزمان سے قتل کی تفتیش اور موبائل فون برآمد کرنا ہیں ، ریمانڈ دیا جائے،۔
پولیس نے عدالت کو بتایا تھا کہ لڑکی نے جان بچانے کےلیےروشن دان سے باہر چھلانگ لگائی،ملازمین نے ملزم کی طرف سے مقتولہ کو کھینچ کر اندر لے جاتے دیکھا۔ ملازمین اگر پولیس کو بروقت اطلاع دیتے تو قتل روکا جا سکتا تھا۔
، پولیس کی طرف سے دعوی کیا گیا کہ ہمسائے نے پولیس کو اطلاع دی اور تین منٹ میں پولیس پہنچی ۔
اس موقع پر وکیل صفائی نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ان کے موکل قتل کی مذمت کرتے ہیں۔ اورچاہتے ہیں کہ انصاف ہو، ملزم کو سخت سزا ہو۔
دوران سماعت ملزم ظاہر جعفر کے والد نے یس کہہ کر اپنے وکیل کے موقف کی تائید کی ۔
وکیل نے الزام عائد کیا کہ ان کے موکل ضمانت پر ہیں اس کے باوجود پولیس نے حراست میں لیا،پولیس کے خلاف توہین عدالت کا کیس اور ایف آئی آر درج کرائیں گے۔
ملزم کے والدین نے عدالت میں کہا کہ وہ ملزم ظاہر جعفر کو کبھی بھی سپورٹ نہیں کررہے۔ ہمیں پتا لگا کہ گھر میں شور شرابا ہو رہا ہے تو والدین نے ری ہیبلیٹیشن والوں کو کہا دیکھیں جا کر، ہمیں بعد میں پتا لگا کہ یہ واقعہ ہو چکا ہے۔ میرے موکل خود کراچی سے اسلام آباد آئے، خود پولیس اسٹیشن پہنچے۔
نور مقدم کے والد کے وکیل نے کہا ایک عدالتی نظام ہے جس کو فالو نہیں کیا گیا۔ہماری عدالت سے استدعا ہے کہ ملزم کے والدین کا جسمانی ریمانڈ دیا جائے ۔
اس موقع پر وکیل صفائی نے کہا کہ ساتھی وکیل اگر ملزم کو پروٹیکٹ نہیں کر رہے تو ملزم کے والدین کو حراست میں تفتیش کے لئے رہنے دیں ۔ عدالت نے فریقی کے وکلا اور پولیس کا موقف سُننے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا اور کچھ دیر بعد 2روزہ جسمانی ریمانڈ کا حکم دیتے ہوئے کیس کی سماعت دو روز کے لئے ملتوی کردی۔
منگل کی شب وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں سابق سفیر شوکت مقدم کی صاحبزادی نور مقدم کے قتل میں ایف آئی آر کا اندراج ہو گیا ہے۔
پولیس حکام کے مطابق ملزم ظاہر جعفر کو ڈیوٹی مجسٹریٹ کے سامنے پیش کر کے تین روزہ جسمانی ریمانڈ بھی لے لیا گیا ہے جس میں اب معاملے کی مزید تفتیش کی جائے گی۔
تھانہ کوہسار پولیس نے والد شوکت علی مقدم کی مدعیت میں قتل کی دفعہ 302کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
ایف آئی آر کے مطابق شوکت مقدم نے کہا کہ ’جولائی 19کو نور مقدم میری اور اہلیہ کی غیر موجودگی میں گھر سے نکلی۔ بیٹی کو فون ملایا تو نمبر بند تھا بعد ازاں نورکے دوستوں سے رابطہ کیا۔ کچھ دیر بعد نور کا ٹیلی فون آیا کہ دوستوں کے ساتھ لاہور جا رہی ہوں۔ نور نے ایک دو دن میں واپس آنے کا کہا۔‘
شوکت مقدم نے مزید لکھا کہ ’منگل دوپہر کو ظاہر جعفر جو معروف بزنس مین ذاکر جعفر کا بیٹا ہے، اس کا فون آیا کہ نور اس کے ساتھ نہیں ہے۔ ذاکر جعفر کی فیملی کے ساتھ ہماری جان پہچان ہے۔‘
’رات کو تھانہ کوہسار سے کال آئی کہ نور مقدم کا قتل ہو گیا ہے۔ پولیس سٹیشن پہنچا تو وہ ایف سیون فور میں واقع گھر پر مجھے لے گئے، وہاں جا کر دیکھا تو میری بیٹی کا گلا کٹا ہوا تھا۔‘ انہوں نے مزید لکھا کہ ’تیز دھار آلے سے سر کاٹ کر جسم سے الگ کر دیا گیا تھا اور دھڑ کے قریب سر رکھا ہوا تھا۔ بیٹی کی لاش کو شناخت کیا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’میری بیٹی کو ناحق قتل کیا گیا ہے ظاہر جعفر کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ ‘
شوکت علی مقدم 2012 میں جنوبی کوریا اور 2014 میں قزاقستان میں پاکستان کے سفیر رہے ہیں۔
پولیس حکام کے مطابق ’گھر کے ملازمین نے نور مقدم کی چیخیں سُنیں جن کے بعد وقوعہ پیش آیا۔ گھر کے ایک ملازم ہی نے پولیس کو فون کر کے بتایا کہ یہاں ایمرجنسی ہے۔ پولیس جب موقع پر پہنچی تو قتل ہو چکا تھا اور ملزم مقتولہ کے خون میں لت پت تھا۔ پولیس نے جب ملزم کو حراست میں لینے کی کوشش کی تو اُس نے پولیس اہلکار پر حملہ بھی کیا جس کے بعد اس کو باندھ کر حراست میں لیا گیا۔‘
ظاہر جعفر، احمد جعفر کمپنی لمیٹڈ میں چیف برینڈ سٹریٹجسٹ ہیں اور خاندانی بزنس سنبھالے ہوئے ہیں۔ خاندانی ذرائع کے مطابق دونوں بچپن کے دوست تھے۔ اور قتل کی رات نور مقدم ملزم ظاہر جعفر کی رہائش گاہ موجود تھیں جہاں واقعہ پیش آیا۔
اے وی پڑھو
سیت پور کا دیوان اور کرکشیترا کا آشرم||ڈاکٹر سید عظیم شاہ بخاری
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ