وسعت اللہ خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الیکشن تو یہاں پہلے بھی بارہا ہو چکے ہیں مگر اس بار کا گیارہواں الیکشن پچھلے دس پر بھاری ہے۔ پانچ اگست سنہ 2019 کو انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے ساتھ جو ہوا اس کے بعد سخت ضرورت تھی کہ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر اور گلگت بلتستان میں مثالی الیکشن ہوتے اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ سینہ ٹھوک کے کہتی کہ اے لائن آف کنٹرول کے دوسری جانب رہنے والے کشمیریو ایسے ہوتے ہیں پاک صاف انتخابات اور یہ ہوتی ہے لوٹا ازم سے پاک شفاف جمہوریت۔
مگر پہلے گلگت بلتستان اور اب پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں جو الیکشن ہوئے وہ ’مثالی‘ ضرور ہیں مگر اس مثال سے دوسری جانب یہ پیغام گیا ہے کہ کل کلاں قدرت نے آپ کو ہمارے ساتھ ملنے کا کبھی موقع دیا تو فیصلہ اپنی ذمہ داری پر کرنا، جاگدے رہنا ساڈے اتے نہ رہنا۔
اچھی بات یہ ہوئی کہ اس الیکشن مہم میں کسی جماعت کے کسی رہنما نے کسی سیاسی ملمع کاری و ظاہر داری سے کام نہیں لیا اور اپنا اصل دکھا دیا۔ اس اصل کو دکھانے میں مقامی الیکشن کمیشن نے بھی درگزر کا مثالی مظاہرہ کرتے ہوئے زبردست تعاون کیا۔
اگر ہم اپنی سیاسی قسمت پر قابض رہنماؤں کی انتخابی تقاریر کے ایک ایک جملے پر یقین کر لیں تو پھر ماننا ہی پڑے گا کہ آج کے انتخابات میں غداروں، کشمیر کا سودا کرنے والوں، را کے ایجنٹوں، یہودیوں کے کاسہ لیسوں، لٹیروں، چوروں، ڈاکوؤں، دو نمبروں، عورت دشمنوں، سیاسی نابالغوں نے جتنی بڑی تعداد میں حصہ لیا، پہلے کسی الیکشن میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔
اس الیکشن میں نہ صرف سیاسی مردوں کی قبر کشائی کی گئی بلکہ بیٹوں، پوتوں، نواسوں کی بھی شامت آئی۔
مجھے نہیں معلوم کہ امیدوار کے صادق اور امین ہونے کی شرط والا آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر پر بھی لاگو ہوتا ہے کہ نہیں۔ اگر لاگو ہوتا ہے تو پھر نو منتخب اسمبلی کو کم ازکم دس برس کے لیے نا اہل قرار دینے کے لیے الیکشن کمیشن کے روبرو عمران خان، علی امین گنڈا پور، مراد سعید، بلاول بھٹو اور مریم نواز کی گواہی کافی ہو گی۔
اس الیکشن مہم میں مقامی، معاشی، سیاسی، سماجی مسائل اور ان کے ممکنہ حل کے سوا ہر موضوع پر کھل کھلا کے بات ہوئی۔ مسئلہ کشمیر کو ہر سرکردہ رہنما نے ستلی بم بنا کر بس فریقِ مخالف کا منہ کالا کرنے کے لے استعمال کیا۔
عمران خان نے لائن آف کنٹرول کے دوسری جانب رہنے والوں کو پیشکش کی کہ آپ پہلے ہمارے ساتھ شمولیت کا فیصلہ کریں اس کے بعد ہم آپ کو ایک آزاد و خود مختار کشمیر نامی ملک بنانے کے لیے ریفرنڈم کا بھی آپشن دیں گے۔
اس فراخدلانہ پیشکش پر نہ صرف میرے کچھ بلوچ دوست زیرِ لب مسکرائے بلکہ شہباز شریف نے فوراً تصیحح کی کہ خان صاحب کا بیان مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے تاریخی مؤقف سے غداری ہے۔
میں نہیں جانتا کہ لائن کے اس پار حالتِ سرورِ انتخاب سے سرشار خان صاحب کے اس بیان کو کتنی سنجیدگی سے لیا جائے گا مگر ایک کشمیری دوست نے یہ ضرور کہا کہ اتنا کشٹ اٹھانے کی کیا ضرورت ہے کہ پہلے کشمیر پاکستان کا حصہ بنے اور پھر پاکستان اسے ایک آزاد مملکت بننے کا آپشن دے، خان صاحب یہ بھی تو کہہ سکتے ہیں کہ اقوامِ متحدہ جب بھی رائے شماری کروائے اس میں کشمیریوں کو انڈیا یا پاکستان میں شمولیت کے ساتھ ساتھ یہ فیصلہ کرنے کی بھی آزادی دے کہ وہ دونوں ممالک سے الگ آزاد رہنا چاہتے ہیں؟
اب میں اس کشمیری دوست کو کیا سمجھاؤں کہ ’آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں‘ کا نئے پاکستان میں کیا مطلب ہے، جہاں غیب اور غائب میں محض بال برابر فرق ہے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)
یہ بھی پڑھیں:
قصور خان صاحب کا بھی نہیں۔۔۔وسعت اللہ خان
اس جملے کو اب بخش دیجئے ۔۔۔وسعت اللہ خان
کیا آیندہ کو پھانسی دی جا سکتی ہے ؟۔۔۔وسعت اللہ خان
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر