نومبر 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

عارف نظامی کا انتقال اور پاکستان

عارف نظامی نے خاندانی اختلافات کے باعث 2010 میں انگریزی اخبار 'دی نیشن' کو خیر باد کہہ کر 'پاکستان ٹو ڈے' کی بنیاد رکھی تھی۔

معروف صحافی اور ایڈیٹر عارف نظامی بدھ کو پاکستان میں عید کے روز انتقال کر گئے۔ ان کے خاندان والوں کا کہنا ہے کہ کچھ روز پہلے انھیں دل کا دورہ پڑا تھا جس کی وجہ سے ہسپتال میں تھے۔

عارف نظامی پاکستان کے مشہور صحافی حمید نظامی کے بیٹے تھے اور ایک سے زائد مرتبہ کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز (سی پی این ای) کے صدر بھی رہ چکے ہیں۔

عارف نظامی کو ایک لبرل اور پڑھا لکھا معتبر صحافی سمجھا جاتا تھا جن کا شمار سابق وزیرِ اعظم محمد خان جونیجو کے دور میں ’آزاد‘ ہونے والے میڈیا کے ان ایڈیٹروں میں کیا جاتا ہے جو اپنے ورکروں کے ساتھ ایڈیٹر سے زیادہ ساتھی کے طور پر پیش آتے تھے۔ انھوں نے اپنے رپورٹروں کو کام کرنے کی مکمل آزادی دی تھی اور خود بھی کافی انویسٹیگیٹیو رپورٹس کیں جن میں بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خاتمے کی رپورٹ اور عمران خان کی طلاق کی رپورٹیں بہت مشہور ہوئیں۔ اپنی زندگی کے آخر میں انھوں نے ایک قابل تجزیہ نگار کے بہت شہرت حاصل کی۔ ان کے ہم عصر کہتے ہیں کہ عارف نظامی تنقید ضرور کرتے تھے لیکن وہ کبھی بد دیانتی پر مبنی نہیں ہوتی تھی۔

ان کے دوست اور سکول فیلو مجید شیخ کہتے ہیں کہ عارف ایک لبرل انسان تھے اور اگر ان کے والد صاحب اور ان کے اخبار کے حوالے سے بھی بات کی جائے تو وہ ’سینٹر آف رائٹ‘ میں ہی کھڑے ہوئے نظر آتے ہیں۔

مجید شیخ کہتے ہیں کہ عارف میرے دوست تھے اور ان کا ہمارے گھر آنا جانا تھا۔ ان کے والد نوائے وقت کے ایڈیٹر تھے اور میرے والد سول اینڈ ملٹری گیزیٹ کے۔ دونوں دو مختلف سمت کی سوچ رکھتے تھے لیکن دونوں ہی صحافت کو ایمان سمجھتے تھے۔ ’میں یہ کہوں گا کہ عارف بھی ایک دلچسپ امتزاج کی شخصیت کے مالک تھے۔ جو نہ تو کرپٹ تھے اور نہ ہی لفافہ جرنلسٹ۔ وہ تو اس میں کہیں فٹ ہی نہیں ہوتے تھے اور یہی ان کی کامیابی تھی۔‘

عارف نظامی نے صحافت کا آغاز اپنے والد حمید نظامی کے اخبار نوائے وقت سے ہی بطور رپورٹر کیا۔ حمید نظامی کی موت کے بعد 1962 میں مجید نظامی نوائے وقت کے ایڈیٹر بنے لیکن پھر 1969 میں انھوں نے اپنا اخبار ندائے ملت نکالا۔ عارف اور ان کے بھائی شعیب نوائے وقت چلاتے رہے اور ان کے چچا مجید نظامی ندائے ملت۔ ایک وقت ایسا آیا کہ ندائے ملت اور نوائے وقت اکٹھے ہو گئے اور نوائے وقت کو ندائے ملت ہی چھاپتا رہا۔ مجید نظامی اس کے ایڈیٹر بنے، تاہم عارف نظامی اور مجید نظامی کی کبھی نہ بنی کیونکہ وہ اپنے چچا سے بالکل مختلف تھے۔

صحافی اکمل شہزاد گھمن کو دیے گئے ایک انٹرویو میں جو انھوں نے اپنی کتاب میڈیا منڈی میں چھاپا ہے عارف نظامی کہتے ہیں کہ ’میرا نوائے وقت کی پالیسی پر کوئی اختیار نہ تھا۔ لیکن میں ذاتی طور پر محترم مجید نظامی سے اختلافِ رائے کا اظہار کر دیتا تھا۔ چناچہ مجھ پر لیبل لگا دیا گیا کہ یہ نوائے وقت کے اندر ایک پپلیا ہے۔ حالانکہ ایسی بات نہیں تھی۔ بھٹو کے دورِ حکومت میں مجید نظامی صاحب خود مجھے بھٹو صاحب کے ساتھ مختلف دوروں پر بھیجتے رہے۔‘

جب یکم اکتوبر 1986 کو لاہور سے نجی انگریزی روزنامہ ’دی نیشن‘ نکلا تو عارف نظامی اس کے ایڈیٹر بنے۔ اس نئے انگریزی اخبار نے نوجوان صحافیوں کی بڑی تعداد کو تیار کیا جو بعد میں پاکستان کے متعدد اخباروں اور ٹی وی چینلوں کے ایڈیٹر بنے یا ان میں سینیئر عہدوں پر کام کرتے رہے اور کئی ایک اب بھی کر رہے ہیں۔ بی بی سی کے ثقلین امام بھی رپورٹروں کی اس نئی کھیپ کا حصہ تھے۔

ثقلین کہتے ہیں کہ عارف نظامی ہمیشہ اپنے رپورٹروں کو تحفظ فراہم کرتے تھے۔ کیونکہ وہ ضیا کا دور تھا اور ذرا سی بات پر کہیں نہ کہیں سے کوئی نوٹس آ جاتا تھا، لیکن عارف ہمیشہ اپنے رپورٹروں کا ساتھ دیتے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے پروفیشنل معاملات میں آزادی دی اور اچھے سٹینڈرڈ برقرار رکھے۔

’خبروں کے حوالے سے بھی وہ کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے تھے کہ دباؤ میں آ کر کوئی خبر روک لی۔ یہ ان کی شخصیت کا حصہ نہیں تھا۔ وہ دھیمے مزاج سے وہی کرتے جو انھوں نے کرنا ہوتا تھا۔‘

عارف نظامی دی نیشن کی ٹیم کے ساتھیوں کے ہمراہ 

BBC
عارف نظامی دی نیشن کی ٹیم کے ساتھیوں کے ہمراہ

بقول ثقلین آج کل کے دور میں ان کے مقابلے کا کوئی ایسا ایڈیٹر نہیں جو مالک بھی ہو لیکن اس کی پرواہ نہ کرے کہ فلاں خبر سے ان کے اخبار کے بزنس پر اثر پڑ سکتا ہے۔

دی نیشن اخبار کے ایڈیٹر ایم اے نیازی نے بی بی سی کو دیے گئے ایک پیغام میں کہا کہ ’عارف نظامی ایک محتاط ایڈیٹر تھے، جن سے میں نے سیکھا کہ آپ کسی سٹوری کو زیادہ دیر اپنے پاس نہیں رکھ سکتے۔ ان کی فطری کوشش ہوتی تھی کہ کہانی کو چھاپ دیا جائے۔ تاہم جب ایک مرتبہ وہ اسے چھاپ دیتے تو جس نے بھی وہ فائل کی ہوتی اسے کوئی کچھ کہہ نہیں سکتا تھا۔ اور اچھی چیز یہ ہے کہ انھوں نے کبھی نوجوان رپورٹروں کو یہ نہیں بتایا تھا کہ انھوں نے ان کے لیے کیا کچھ برداشت کیا ہے۔‘

نیازی کہتے ہیں کہ جب میں زیادہ سینیئر ہوا تو تب ہی مجھے معلوم ہوا کہ انھوں نے کیا کچھ کیا تھا۔ ’میرا خیال ہے کہ یہ اس لیے کیا گیا تھا کہ صحافی خوفزدہ نہ ہو جائیں۔‘

اکمل شہزاد گھمن کہتے ہیں کہ وہ ایک نہایت وضعدار آدمی تھے۔ اس کی مثال دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ ریڈیو پر تبصرے کے لیے انھیں بلایا اور جب کچھ دن بعد انھیں ایک چھوٹا سا 1200 یا 1400 روپے کا چیک بھیجا گیا تو انھوں نے ریڈیو کے اکاؤنٹس ڈیپارٹمنٹ میں فون کر کے وہاں کے عملے کا شکریہ ادا کیا۔ چیک کے ساتھ جو لیٹر تھا اس پر اکاؤنٹس کے شعبے کا نمبر ہی درج تھا۔‘

اس طرح ایک اور مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ جنگ اخبار کے میر شکیل الرحمن اور عارف نظامی کا ننھیال ایک شہر وزیرِ آباد میں ہے اور اپنی پوری اخباری ’رائولری‘ کے باوجود دونوں آپس میں ملتے رہتے تھے۔ ’یہاں تک کہ جب عارف نظامی نے دی نیشن چھوڑا تو میر شکیل الرحمن ان سے اپنے اخبار میں کالم لکھواتے رہے۔

مجید نظامی کے ساتھ اختلافات کے بعد عارف نے دی نیشن سے علیحدہ ہو کر 2010 میں اپنا اخبار پاکستان ٹو ڈے نکالا اور اس کے ایڈیٹر بنے۔

سنہ 2013 میں بننے والی عبوری حکومت میں وہ اطلاعات کے وزیر بھی رہے۔

اس کے علاوہ وہ اپنی مصروف زندگی کے آخری وقت تک ٹی وی چینلوں پر ٹالک شوز کی میزبانی بھی کرتے رہے اور ان میں حصہ بھی لیتے رہے۔

ان کی وفات پر انھیں پورے ملک کے سیاسی اور سماجی حلقوں نے تعزیت اور خراج تحسین پیش کیا اور ان کا نام سوشل میڈیا پر ٹاپ 10 ٹرینڈ میں رہا۔

پرائم منسٹر عمران خان نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ انھیں عارف نظامی کی موت کا دکھ ہوا ہے اور ان کی دعائیں ان کے خاندان والوں کے ساتھ ہیں۔

پاکستان بری فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے عارف نظامی کی موت پر غم کا اظہار کرتے ہوئے ان کے لیے ایثالِ ثواب کی دعا مانگی ہے۔

پاکستان کی قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے رہنما شہباز شریف نے عارف نظامی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان کی وفات کے ساتھ ہی صحافت کا ایک دور ختم ہو گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ وہ بحیثیت ایڈیٹر، صحافی اور اینکر کے کسی سے کم نہیں تھے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی عارف نظامی کے وفات پر تعزیت کا اظہار کیا۔

اقوام متحدہ میں پاکستان کی سابق سفیر ملیحہ لودھی نے کہا کہ عارف نظامی کی وفات پاکستان کا نقصان ہے۔ انھوں نے کہا کہ عارف نظامی ایک اچھے دوست، ممتاز صحافی اور زبردست انسان تھے۔

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار عامر متین بھی دی نیشن کی ٹیم کا حصہ تھے۔ انھوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں عارف نظامی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھا کہ ’عارف نظامی صاحب کی موت پر بہت دکھ ہوا ہے۔ وہ ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک میرے ایڈیٹر رہے ہیں۔ وہ ہمیشہ ایک ساتھ صحافی کے طور پر رہنے کی کوشش کرتے تھے اور کبھی بھی مالک کی طرح برتاؤ نہیں کیا۔ صحافیوں کی ایک کامیاب کھیپ نے ان کی ادارت میں اپنے کیریئرز کا آغاز کیا ہے۔‘

صحافی اور تجزیہ نگار قدسیہ اخلاق کہتی ہے کہ وہ بہت قابل ایڈیٹر تھے اور رپورٹر کی سٹوری کے لیے لڑ جاتے تھے اور نئے رپورٹروں کی خصوصاً حوصلہ افزایی کرتے تھے۔ ’ایک مرتبہ جب میں نے پی آئی اے کی حج فلائٹس پر ایک سٹوری کی جس میں طیاروں میں آکسیجن کے ماسک کام نہیں کر رہے تھے تو پی آئی اے کو بہت برا لگا۔ جب انھوں نے کہا کہ کہانی سے قومی ایئر لائن کی ساکھ متاثر ہوئی ہے تو عارف صاحب نے کہا کہ انھوں نے خود اپنے ذرائع سے تحقیق کرائی تھی کہ یہ بالکل ٹھیک کہانی ہے اور ان کے خراب آلات کہانی سے زیادہ ساکھ تباہ کر رہے تھے۔‘

عارف نظامی انگریزی اخبار پاکستان ٹوڈے کے بانی و ایڈیٹر اور نوائے وقت اخبار گروپ کے بانی حمید نظامی کے بیٹے تھے۔

عارف نظامی گزشتہ دو ہفتوں سے لاہور کے مقامی اسپتال میں زیر علاج تھے جہاں وہ آج خالق حقیقی سے جا ملے ہیں۔

عارف نظامی کے بھانجے بابر نظامی نے بھی سینئر صحافی کے انتقال کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ وہ عارضہ قلب میں مبتلا تھے۔

وزیراعظم اور وزیر اطلاعات کا اظہار افسوس

وزیراعظم عمران خان اور وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے عارف نظامی کے انتقال پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے ان کے درجات کی بلندی کے لیے دعا کی ہے۔

عارف نظامی نے خاندانی اختلافات کے باعث 2010 میں انگریزی اخبار ‘دی نیشن’ کو خیر باد کہہ کر ‘پاکستان ٹو ڈے’ کی بنیاد رکھی تھی۔

2013 میں عارف نظامی کو نگراں وفاقی وزیر برائے اطلاعات و  پوسٹل سروسز بنایا گیا اور 2015 میں آپ نجی ٹی وی چینل ‘چینل 24’ کے سی ای او بنے جہاں سے آپ ایک پروگرام کی میزبانی بھی کرتے تھے۔

About The Author