وسعت اللہ خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہاول پور کے ماڈل ٹاؤن کے ایک چوک پر ایک ماہ قبل پاکستانی ہاکی کے ہیرو فلائنگ ہارس سمیع اللہ کا جو مجسمہ کنٹونمنٹ بورڈ نے نصب کیا تھا، دو تین دن پہلے کسی نے اس مجسمے کے ہاتھوں سے ہاکی اور گیند چرا لی۔ اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر کسی سورما نے اپنی ایک پوسٹ بھی لگائی جس میں وہ مجسمے کے قریب کھڑا نازیبا حرکات کر رہا ہے۔ مقدمہ درج ہو گیا ہے۔ ملزموں کی تلاش جاری ہے۔
ڈسکہ میں ڈگری کالج کے سامنے ایک استاد کا قدِ آدم مجسمہ نصب کیا گیا جس کا ہاتھ ایک بچی کے سر پے ہے اور بچی کتاب پر اپنے ہاتھ کا نشان بنا رہی ہے۔ چار ماہ پہلے کسی نے اس بچی کا سر اور استاد کا بازو کاٹ دیا۔ یہ مجسمہ ڈسکہ کے ایک شہری احمد فاروق ساہی نے گزشتہ برس اکتوبر میں لاہور کے ایک مجسمہ ساز سے تیار کروایا تھا اور اس کا مقصد لڑکیوں کے لیے تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کرنا تھا۔
گزشتہ برس دسمبر میں لاہور کے شاہی قلعے میں نصب مہاراجہ رنجیت سنگھ کے مجسمے کو دو برس میں دوسری بار نقصان پہنچایا گیا۔ اس سے پیوستہ برس میں بھی کسی نے اس مجسمے کا بازو توڑ دیا تھا۔ یہ مجسمہ برطانیہ کی ایک سکھ تنظیم ایس کے فاؤنڈیشن نے پنجاب کے دونوں حصوں کے مابین ہم آہنگی کو فروغ دینے کے جذبے میں نصب کروایا تھا اور اسے لاہور کے مقامی فن کاروں نے ہی تعمیر کیا تھا۔
پہلی بار جس نے رنجیت سنگھ کے مجسمے کا بازو توڑا، اس کا کہنا تھا کہ اس نے یہ کام بھارت کی جانب سے کشمیر کی خود مختاری ختم کرنے کے اقدام کے خلاف بطور احتجاج کیا ہے۔ دوسری بار جس لڑکے نے یہ مجسمہ توڑا ، وہ مرحوم خادم حسین رضوی کے افکار سے متاثر تھا۔ دونوں بار توڑ پھوڑ کرنے والے گرفتار بھی ہوئے۔ پھر کیا ہوا۔ خدا بہتر جانتا ہے۔
گزشتہ برس جولائی میں مردان کے نواحی علاقے تخت بائی میں ایک مکان کی کھدائی کے دوران ٹھیکیدار اور مزدوروں نے گوتم بودھ کا ایک مجسمہ دریافت کیا۔ سب جانتے ہیں کہ تخت بائی گندھارا تہذیب کے اہم مراکز میں شامل ہے اور یہاں سے بدھا کے سیکڑوں مجسمے دریافت ہو چکے ہیں مگر مذکورہ ٹھیکیدار شاید نابلد تھا۔ اس نے ایک مقامی مولانا کو بلایا جنھوں نے فتویٰ دیا کہ اس مجسمے کو فوراً توڑ دو۔ چنانچہ اسے دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا اور ایک دوسرے کو مبارک باد بھی دی گئی۔ محکمہ آثارِ قدیمہ کو بھنک پڑی تو اس نے متعلقہ دفعات کے تحت مقدمہ درج کروا دیا۔ یہ مجسمہ لگ بھگ سترہ سو برس پرانا بتایا جاتا ہے۔
تین ماہ قبل سوشل میڈیا پر ایک تصویر وائرل ہوئی جس میں کھڑے تین افراد موہن جو دڑو میں نصب پروہت بادشاہ کے مجسمے کو لعنت دکھا رہے ہیں۔ پولیس نے مقدمہ درج کر کے انھیں تلاش بھی کر لیا اور پھر تنبیہہ کر کے چھوڑ دیا۔
میں نے اوپر جتنی بھی مثالیں پیش کیں۔ ان کے پیچھے جواز اور ذہن بھلے کوئی بھی ہو مگر ایک قدرِ مشترک ان تمام مثالوں میں نمایاں ہے۔ جب ماحول اور ہوا میں عدم رواداری کا زہر جان بوجھ کر گھول دیا جائے تو پھر اس طرح کے واقعات کا ذمے دار کسی ایک شخص یا شرارتی لونڈے کو نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ پھر اس ماحول میں سمیع اللہ ، لڑکیوں کی تعلیم دینے والے استاد کا مجسمہ ، رنجیت سنگھ ، گوتم بودھ اور پروہت بادشاہ ایک ہی صف میں کھڑے کر دیے جاتے ہیں۔ جو شے یا اس کا پس منظر یا سیاق و سباق سمجھ میں نہ آئے وہ یکطرفہ نفرت، مفت کی دشمنی اور گستاخی کے خانے میں فٹ ہو جاتی ہے۔ ایسے کسی اقدام کی مذمت کرنے والے سیکڑوں میں ہیں تو حمایت کرنے والے ہزاروں میں ہیں۔
جہاں فروغِ رواداری کے لیے نہ ریاست کا ذہن یک سو ہو، نہ نصاب گنجل پن سے پاک ہو، نہ علم کے دانوں کو جہل کے بھوسے سے الگ کرنے کی سہولت میسر ہو اور نہ ہی اس طرح کی وارداتوں اور وارداتیوں سے نپٹنے کے قوانین واضح ہوں اور واضح بھی ہوں تو ان قوانین کا موثر استعمال کرنے والے بے بہرہ ہوں۔ ایسے میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ اور کچھ بھی ایب نارمل نہیں قرار پاتا۔ اور پھر وہ معاشرہ تشکیل پا جاتا ہے جس میں اوپر سے نیچے تک بونے چھا جاتے ہیں اور انھیں کسی بھی شعبہِ حیات میں اپنے سے نکلتا کوئی بھی قدآور قبول نہیں ہوتا۔ وہ اسے اپنے درمیان پا کر عدم تحفظ میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
اور پھر ان کی پوری توانائی اس قدآور کے وجود کو اپنے برابر یا اپنے سے بھی چھوٹا کرنے میں صرف ہو جاتی ہے۔ کوئی بھی مجسمہ یا زندہ وجود جو ان کی سمجھ سے بالا ہو انھیں بقائی، تہذیبی و ثقافتی ، نسلی و نظریاتی ناگ دکھائی پڑتا ہے اور ناگ کا تو بس ایک ہی علاج ہے۔ اور اس احساسِ کمتری سے جنم لینے والی بداعتمادی سے پھوٹنے والی خود اعتمادی کا عالم یہ ہے کہ ہم سے اچھا کوئی نہیں۔ ہائے رہے پنجرے میں بند مخلوق کا احساسِ برتری۔
بہت ہی خوش ہے دل اپنے کیے پر
زمانے بھر میں خواری ہو رہی ہے
( جون ایلیا )
میں نے ارب ہا روپے کے صرفے سے بنے ایئرپورٹ جناح انٹرنیشنل کراچی کے آرائیول لاؤنج میں بنے بیت الخلا کے کموڈ کے عین اوپر سول ایوی ایشن انتظامیہ کی جانب سے نصب ایک دھاتی پلیٹ پر لکھا ہوا دیکھا۔
’’برائے مہربانی کموڈ کے اوپر پاؤں رکھ کے نہ بیٹھیں۔ ‘‘
بشکریہ: ایکسپریس
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)
یہ بھی پڑھیں:
قصور خان صاحب کا بھی نہیں۔۔۔وسعت اللہ خان
اس جملے کو اب بخش دیجئے ۔۔۔وسعت اللہ خان
کیا آیندہ کو پھانسی دی جا سکتی ہے ؟۔۔۔وسعت اللہ خان
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر