محمد اکرم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”بلوچستان کے لوگ پاکستان سے آزادی نہیں چاہتے۔ ہم پاکستان سے باہرنکلنے کا نہیں سوچتے۔ ہمارا انڈیا سے کیا لینا دینا۔ ایران سے تعلق نہیں چاہتے کہ ہمیں وہاں کا سیاسی نظام پسند ہے نہ ہی وہ ہماری سمجھ میں آتا ہے۔ پنجرے کا پرندہ بھی بڑے پنجرے سے چھوٹے پنجرے میں نہیں جانا چاہے گا، ہم تو پھر انسان ہیں‘‘، یہ الفاظ بلوچستان کے شہر تربت کے رہنے والے بجار کے ہیں، جو اس نے آج سے 24 سال پہلے کہے تھے۔ بجار کون ہے؟ وہ اپنے وطن کو اور اس کے حالات کو کیسے دیکھتا ہے؟ اور ان کے بارے میں کیا سوچتا ہے؟ بلوچستان کیسا ہے؟ کیسا ہونا چاہیے؟ وفاق سوتیلی ماں ہےتو سگی ماں کیسی ہوتی ہے؟ وردی والے بے دردی کیوں دکھاتے ہیں؟ قبائلی سرداری نظام اچھا ہے یا بُرا ہے؟ ان سب پر بجار کی باتیں ذرا آگے چل کے، پہلے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ بلوچستان کا معمہ ہے کیا؟ کیا واقعی بلوچستان ایک معمہ ہے یا محض لوگوں کا ایک دوسرے سے مختلف ہونے کی حقیقت کو تسلیم کرنے سے انکار کے نتیجے میں پیدا ہونے والی یا پیدا کی جانے والی شورش؟ بلوچستان میں لوگ کب کب اور کیوں ناراض ہو کر پہاڑوں پر گئے؟ وزیراعظم عمران خان نے ناراض بلوچوں سے بات چیت کرنے کی داغ بیل ڈالی ہے تو کیا اس کا کوئی نتیجہ بھی نکلے گا؟
تاریخ بتاتی ہے کہ بلوچستان میں پہلی شورش 1948ء میں ہوئی جب خان آف قلات نے مختلف بلوچ سرداروں کی منشا کے خلاف ریاستِ قلات کا پاکستان سے الحاق کرنے کا اعلان کیا۔ 1950ء اور 1970ء کی دہائیوں میں ہونے والی شورشوں کے برعکس بلوچستان میں جاری حالیہ شورش اب تک کی طویل ترین مسلح بغاوت ہے۔ اس بغاوت کا آغاز 2006ء میں نواب اکبر بگٹی کی ایک فوجی آپریشن میں ہلاکت کے بعد ہوا۔ اس فوجی آپریشن کا حکم اس وقت کے فوجی آمر جنرل پرویزمشرف نے نواب اکبر بگٹی کی طرف سے پہاڑوں میں پناہ لینے اور ہتھیار نہ پھینکنے پر دیا تھا۔ اکبربگٹی نے پہاڑوں میں پناہ لینے کا فیصلہ تب کیا جب پرویز مشرف نے سوئی کے علاقے میں ایک لیڈی ڈاکٹر کا مبینہ ریپ کرنے والے فوجی افسر کا بغیر تفتیش اور انکوائری کے کھل کردفاع کرنا شروع کر دیا۔ قبائلی لیڈر اکبر بگٹی کا کہنا تھا کہ لیڈی ڈاکٹر ان کے علاقے میں، ان کی پناہ میں تھی۔ انصاف اس کا حق تھا۔ نواب اکبر بگٹی کی ہلاکت کے واقعہ کے بعد بلوچستان میں ہر گزرتے دن کے ساتھ امن و امان کے حالات بد سے بدترین ہوتے چلے گئے۔ ایک المیے کے بعد دوسرا المیہ جنم لینے لگا۔ ہلاکتیں اتنی ہوئیں کہ مرکزی بلوچستان کا شاید ہی کوئی گھر ہوگا جو اس کی زد میں نہ آیا ہو۔ لاپتہ ہونے اور کیے جانے کا سلسلہ جو تا حال نہیں تھما، ایک نیا المیہ بنا جس نے موت سے ملنے والا ‘سکون‘ بھی چھین لیا۔ زندہ لاشوں کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ ہزاروں بے نشان لاشوں کو محض اپنی شناخت اور شخصی تکریم کی جدوجہد کی پاداش میں بے نام اجتماعی قبروں میں چھپا دیا گیا۔ سکھ، چین، خوشی اور اطمینان جیسے الفاظ تو بلوچستان کے لوگوں کے لیے محض لغت میں درج الفاظ ہی رہ گئے۔ سرکشی اور مسلح بغاوت وہاں کی زندگی کا نہ ختم ہونے والا معمول بن گئے۔ بلوچ تو ایک طرف غیر بلوچ بھی، جن کی اکثریت پنجاب اور سندھ کے پسماندہ علاقوں سے روزگار کمانے کے لیے بلوچستان لے جائی جاتی وہ بھی درجنوں کی تعداد میں مسلح قوم پرست باغیوں اور ان کی آڑمیں وہاں سرگرم انتہا پسندوں کی دہشت گردی کا نشانہ بنائے گئے۔ بلوچستان میں کام کرنے والے غیر بلوچ ڈاکٹروں، انجینئروں اور دیگر پروفیشنلز کے علاوہ سکیورٹی اداروں کے اہلکاروں کو بھی بڑی تعداد میں نسلی اور علاقائی بنیادوں پر پیدا خلفشار میں نشانہ بنایا گیا۔
اس دوران انتخابات بھی ہوتے رہے اور اسلام آباد اور بلوچستان میں حکومتیں بھی بنتی رہیں، مگر بلوچستان کے لوگ بے آواز ہی رہے۔ گمشدہ آوازیں ایک پہاڑ سے دوسرے پہاڑ کو ٹکرا کر دم توڑتی رہیں۔ اور دوسری طرف بلوچستان کے نواب، رئیس، تمندار اور سردار اسلام آباد اور کوئٹہ کے طاقت کے ایوانوں میں بلوچ عوام کے نمائندے بن کر آتے رہے۔ وزیر مشیر بنے مگر طاقت کے سامنے سر جھکائے ہوئے۔ پہاڑوں پر چلے جانے والوں کا مسئلہ ان کا مسئلہ تب بنتا جب وہ اقتدار کے ایوانوں سے ٹھکرائے جاتے۔
وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ ہفتے جب ناراض بلوچوں سے مذاکرات کرنے کا اعلان کیا تو خوشگوار حیرت کا احساس تو اپنی جگہ ہوا، مگر ایک زخم بھی جیسے پھرسے ہرا ہوگیا۔ وفاق پاکستان کی یہ کوشش گزشتہ کوشش کے تقریباً چھ سال گزرنے کے بعد سامنے آئی ہے۔ گزشتہ کوشش یا کوششیں ناکام ہوئیں یا انہیں ناکام بنا دیا گیا، اس کا فیصلہ تاریخ پر چھوڑتے ہوئے آگے بڑھنا ہی بہتر ہوگا۔ گرچہ ناراض بلوچوں کو پہاڑوں سے نیچے لانے کی تاریخ بھی اتنی ہی پرانی ہے جتنی انہیں طاقت اور دھونس کے ذریعے ناراض بنا کر پہاڑوں پر مزاحمت کے لیے دھکیل دینےکی۔ تاہم کسی بھی نئے آغاز کو ماضی کے تلخ تجربات اور بھیانک نتائج کی بنیاد پر مسترد کردینا بھی بہر حال کوئی حل نہیں۔ اس نئی کوشش کے لیے طریقہ کار، مذاکرات کے لیے حکومتی اور دوسرے فریق یا فریقین کا چناؤ اور پس پردہ قوتوں کے اخلاص پر تخفظات کو دور کرنا ہی اس کوشش کو صحیح انجام تک پہنچانے کے لیے ناگزیر ہوگا۔
بلوچستان کا بجار کون ہے، چاہتا کیا ہے؟
تبت شہر کا رہائشی بجار ایک سرکاری بینک کا اگرچہ معمولی ملازم تھا، مگر وہ ایک صاحب رائے سیاسی کارکن بھی تھا۔ بلوچستان کے حالات خاص طور پر مکران ڈویژن کے حالات تو جیسے اس کی آنکھوں کے سامنے فلم کی طرح چلتے، جنہیں وہ ایک ماہر کمنٹیٹر کی طرح اپنے سننے والوں کو ایسے سناتا کہ وہ سوال پوچھنا ہی بھول جاتے۔ بجار تو جیسے سننے والے کا ذہن بھی پڑھ لیتا اور اس سوال کو بھی جو کسی لمحے سننے والے کے ذہن میں کلبلانے لگتا۔ بات آگے بڑھاتے سے پہلے پورے اعتماد کے ساتھ کہتا کہ آپ جو سوچ رہے میں اسے بھی بیان کیے دیتا ہوں اور پھر وہی ہوتا کہ سننے والے اس کی گفتگو سے سوال اخذ تو کرتے مگر انہیں پوچھنے کی ضرورت نہ رہتی جب بجار اس کا جواب بھی آپ کے سامنے رکھ دیتا۔
بجار سے پہلی ملاقات لاہور میں جبکہ آخری ملاقات اس کے شہر تربت میں اگست 1997 میں ہوئی۔ بجار نے ایک ماہر گائیڈ کی طرح دشت اور پھر پنوں کے مٹی سے بنے ہوئے شکست و ریخت کے شکار پنوں کا قلعہ بھی دکھایا، جس کے بارے میں اس کے پاس لوک داستانوں کا ایک وسیع ذخیرہ بھی تھا۔
بجار انہی لوک داستانوں کو سناتے سناتے بلوچستان کے حالات پر گفتگو بھی کرتا جاتا۔
بجار کہتا بلوچستان کے لوگ کوئی مفتوح قوم نہیں، نہ ہی اسلام آباد یہاں پر فاتح ہے یا ہوسکتا ہے۔ سکیورٹی کے نام پر قائم چیک پوسٹس تحفظ کا احساس نہیں دیتیں بلکہ اس سے احساس کمتری جنم لیتا ہے۔ پولیس، لیوی اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اہلکار جن کی اکثریت غیر بلوچ ہے، کی موجودگی سے احساس کمتری بڑھتا ہے جو کسی مسلسل عذاب سے کم نہیں۔
”ہمیں ترقی دینے کے لیے ہمیں احساس کمتری کا شکار نہ بنایا جائے‘‘، بجار کہتا اور توجہ دلاتا، ”ہمارے رہن سہن کو عزت دی جائے۔ ہمیں اپنے انداز اور اپنی رفتار کے ساتھ آگے بڑھنے دیا جائے۔ ہمارا رہن سہن ہمارا طرز زندگی ہے جس سے ہمیں اطمینان قلب ملتا ہے۔‘‘ بجار پوچھتا، ”اگر آپ ہم سے ترقی یافتہ ہیں تو یہ بھی دیکھیے کہ کیا آپ ہم سے زیادہ خوش ہیں؟ ہمارا رہن سہن اگر آپ شو کیس کرتے ہیں تو اس میں کچھ تو ہے جو آپ کے لیے بھی خوش کن ہے۔‘‘
سرداری نظام بھلے ہی ترقی یافتہ علاقوں کے رہنے والوں کے لیے دقیانوسی ہو، مگر ہمارے سامنے اس کا متبادل کیا ہے؟ ہمارے لوگ شاید ابھی سرداری نظام کا متبادل نہیں ڈھونڈ پائے اور نہ ہی انہیں ایسے مواقع دیے گئے ہیں کہ وہ خود اس نظام کو اکھاڑ پھینکنے کی طاقت حاصل کرسکیں۔ وہ کہتا کیا سندھ، پنجاب میں وہ جمہوریت لائی جاسکتی ہے جس کے نہ ہونے کا طعنہ بلوچستان کو دیا جاتا ہے۔
بجار بلوچوں کو ‘سست‘ کہنے یا سمجھے جانے پر ناراض بھی ہوتا۔ اس کی دلیل ہوتی کہ سماجی، معاشرتی اور معاشی ترقی کا ایک تسلسل برقرار رکھے بغیر اور تعلیم و تربیت بالخصوص تکنیکی تعلیم کے مواقع فراہم کیے بغیر آپ کسی کو سست کہہ کر اس کو ترقی نہ پانے کا طعنہ دے کر اس کی عادات کو تبدل نہیں کر سکتے۔
وزیر اعظم عمران خان کا اعلان کہ ناراض بلوچوں کی ناراضگی دور کر کے ان کو سیاسی و سماجی ترقی کے مرکزی دھارے میں لایا جائے گا۔ اگر محض ایک اعلان نہیں تو امید کی جاسکتی ہے کہ خطے کے بدلتے حالات خاص طور افغانستان میں پیدا ہوئی صورت حال اسلام آباد کو مجبور کردے گی کہ بلوچستان کے حوالے سے ماضی کی تمام خواہشات کو ترک کردے۔ بلوچستان کو لعل و جواہر اور دیگر معدنیات کے ذخیرے کے طور پر دیکھنا چھوڑ دیا جائے اور اسے وہاں کے عوام کی ترقی و خوشحالی کے نتیجے میں دیگر علاقوں کی ترقی کے انجن کے طور پر دیکھا جائے۔
بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو
یہ بھی پڑھیں:
عام انسان اور ترجمان۔۔۔سہیل وڑائچ
فردوس عاشق کی 9 زندگیاں۔۔۔سہیل وڑائچ
تاریخ کا مقدمہ بنام اچکزئی صاحب!۔۔۔سہیل وڑائچ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر