رؤف لُنڈ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حادثاتی دہشت گردی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دہشت گردی کی کئی اقسام ہیں یا ہو سکتی ہیں ۔ لیکن اگر دہشت گردی کو صرف دو اقسام میں تقسیم کیا جائے تو ایک دہشت گردی حکومتیں کرتی ہیں دوسری دہشت گردی حکومتوں کی وجہ سے ہوتی ھے۔ حکومتوں کی وجہ سے دہشت گردی ہو یا حکومتیں دہشت گردی کریں ان دونوں کا فائدہ حکمران طبقے اور مقتدر لوگوں کو ہوتا ھے۔ جبکہ دہشت گردی کی کوئی بھی قسم ہو اس کے ہاتھوں بحیثیت مجموعی خانماں برباد اور خاک نشیں لوگ ھی تباہ ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔
دہشت گردی گولیوں کی تڑ تڑاہٹ سے ہو یا بم بارود سے اس کی تشہیر زیادہ ہوتی ھے۔ اس پر پرنٹ ، الیکٹرونک اور سوشل میڈیا پہ تیز تیز دھول اڑائی جاتی ھے۔ اس سے ہونے والی دو چار ، دس بیس یا اس سے زیادہ ہونے والی اموات پر واویلہ کیا جاتا ھے۔ اور پھر اس سے حکومتیں یا حکمران براہِ راست بھاری بھرکم اور کثیر صلہ/جزا/ پیسہ وصول کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ رھی دہشت گردی کی دوسری قسم جو ہر چھوٹی بڑی سڑک پر اس قدر تعداد میں ہوتے رہتے ہیں کہ ان کو نہ تو شمار کیا جاتا ھے نہ کسی خاطر میں لایا جاتا ھے۔ ما سوائے اس کے کہ کوئی غیر معمولی حادثہ نہ ہو جائے۔ حادثات کی اس دہشت گردی میں لوگ زیادہ برباد ہوتے ہیں مگر حکومتوں یا حکمرانوں کو صلہ اور جزا تھوڑی مقدار میں یا چھوٹی چھوٹی اقساط میں یا دیر آمدہ اقساط کی صورت میں ملتی ھے۔ اسی لئے اس حادثاتی دہشت گردی کے ہاتھوں زیادہ عوامی نقصان ہونے کے باوجود اس پر توجہ کم دی جاتی ھے۔ بلکہ پاکستان جیسے پسماندہ و درماندہ ملک میں توجہ دینے کی ضرورت ھی نہیں سمجھی جاتی ۔ ہر چھوٹی بڑی گاڑی پر بلا لائسنس ڈرائیور، سرکاری ٹرانسپورٹ اور سرکاری تربیت یافتہ ڈرائیور کی بجائے اپنے بچوں کی روٹی روزی کیلئے پرائیوئٹ ٹرانسپورٹ مالکان کی تجوریاں بھرنے اور کمیشن لینے، اڈے پر پہلے پہنچنے کی نفسیاتی دوڑ کے مریض ڈرائیورز کی بہتات، جگہ جگہ اکھڑی سڑکیں (جن کی مرمت کے ہڑپ ہوتے فنڈ ) یا جن سڑکوں پر تعمیر شدہ لوٹ مار کے ٹول، ٹول پلازوں کے پلتے ٹھیکدار یہ سب اس حادثاتی دہشت گردی کے اسباب نہیں ہیں تو کیا ہیں ؟
ان حادثاتی دہشگردیوں سے ہونے والے نقصان، انسانی اموات پر ھمدردی جتلانے، سڑکوں کی تعمیر کے وعدے ، امدادی رقوم کے ناٹک، ہسپتالوں میں بہتر علاج کی یقین دہانیوں کی روائتی بک بک، کفن پوش میتوں کے سراہنے اور کراہتے زخمیوں کے پہلو میں تصاویر بناتی خباثتوں کے تسلسل کے علاوہ اس بربادی کا کب کچھ مداوا ہوا ھے ؟
اس طبقاتی نظام اور اس نظام کو بھمبوڑنے والے کتوں کی منشاء سے لاشیں اٹھتی رہیگی ، قبرستان بھرتے رہینگے۔ اور یہ قبرستان ھم سے پہلے ان لوگوں سے بھی بھرے پڑے ہیں۔ جنہوں نے محض اس خوف اور خیال سے احتجاج نہیں کیا کہ کوئی بات کی تو مارے جائینگے۔ جبکہ ساری دنیا ان کے بارے آگاہ ھے کہ انہوں نے احتجاج بھی نہیں کیا اور مارے بھی گئے یا مر بھی گئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آیئے اس سے پہلے کہ بے موت مارے جائیں۔ راہ چلتے مارے جائیں۔ بسوں کی سیٹوں اور چھتوں پہ بیٹھے بیٹھے کچھ کیے اور کچھ کہے بغیر مارے جائیں۔ تو کیوں نہ احتجاج کریں ؟۔ کیوں نہ جدوجہد کریں ؟ کیوں نہ بچ جانے کی لڑائی کے میدان میں کود پڑیں۔ کچھ بول کے اورکچھ کر کے مرنے کو تیار کیوں نہ ہو جائیں؟ کہ زندہ رہنے اور زندگی گزارنے کی اس معتبری کے علاوہ زندگی کے پاس اور ھے کیا کہ راتیں ہوں یا کہ دن بس گزارتے چلے جائیں ۔۔۔
مبارک باد اور سرخ سلام۔۔۔رؤف لُنڈ
اک ذرا صبر کہ جبر کے دن تھوڑے ہیں۔۔۔رؤف لُنڈ
کامریڈ نتھومل کی جدائی ، وداع کا سفر اور سرخ سویرے کا عزم۔۔۔رؤف لُنڈ
زندگی کا سفر سر بلندی سے طے کر جانے والے کامریڈ کھبڑ خان سیلرو کو سُرخ سلام۔۔۔رؤف لُنڈ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر