نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’پوائنٹ آف آرڈر‘‘ کا اردو ترجمہ ’’نکتہ ٔ اعتراض ‘‘ بتایاگیا ہے۔ قومی اسمبلی کے سپیکر کی توجہ حاصل کرنے کے لئے مذکورہ ایوان کے معزز اراکین مگر اس لفظ کو استعمال نہیں کرتے۔ پوائنٹ آف آرڈر چلاتے ہوئے ہی اپنے ذہن آئی بات کہنے کو بے چین رہتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ پوائنٹ آف آرڈر کی بدولت کام کی بات شاذ ہی سننے میں آتی ہے۔ گزشتہ ہفتے بدھ کے دن مگر مسلم لیگ (نون) کے احسن اقبال نے اس کے ذریعے حکومت کو ایک حساس معاملے کے حوالے سے خبردار کرنے کی پرخلوص کوشش کی۔
قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوتے ہی انہوں نے دعویٰ کیا کہ کوہستان میں ایک دلخراش واقعہ ہوا ہے۔ داسو ڈیم کی تعمیر میں مصروف چند چینی اس کی وجہ سے ہلاک ہوگئے ہیں۔ حکومتی بنچوں سے مگر انہیں تشفی بخش جواب نہیں ملا۔ پارلیمان ہائوس روانہ ہونے سے قبل میں اپنے لیپ ٹاپ پر مذکورہ واقعہ کی بابت سوشل میڈیا کے ذریعے پریشان کن خبردیکھ چکا تھا۔ مجھ سادہ لوح کو یہ گماں بھی ہوا کہ قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوتے ہی ہمارے وزیر داخلہ ازخود اس کے حوالے سے مصدقہ اطلاعات فراہم کردیں گے۔
قومی اسمبلی کو باوقار اور معتبر بنانے کے لئے ایسے قواعد وضوابط کئی دہائیوں سے موجود ہیں جو کسی بھی وزیر کو یہ حق دیتے ہیں کہ وہ کسی اہم موضوع پر جب چاہے ناپ تول کر لکھا ہوا ایک ’’پالیسی بیان‘‘ پڑھ دے۔ یہ بیان پڑھ دینے کے بعد متعلقہ وزیر کو کسی سوال کا جواب دینے کو مجبور نہیں کیا جا سکتا۔
داسو میں گزشتہ بدھ کے روز ہوا واقعہ ہر حوالے سے ایسے ہی ایک ’’پالیسی بیان‘‘ کا ہر صورت مستحق تھا۔ وزیر داخلہ اس کے ذریعے ’’حادثے‘‘ کی ابتدائی تفصیلات فراہم کر سکتے تھے۔ یہ بیان کرتے ہوئے محض یہ الفاظ کافی ہوتے کہ جو ہلاکتیں ہوئی ہیں وہ تخریب کاری کا نتیجہ بھی ہوسکتی ہیں۔ حکومت اس واقعہ کا ہر پہلو سے جائزہ لے رہی ہے۔
ان دنوں ہمارے ہاں وزارت داخلہ کی کمان راولپنڈی کی لال حویلی سے ابھرے بقراطِ عصر کے ہاتھ میں ہے۔ موصوف کو میڈیا کا حتمی ماہر گردانا جاتا ہے۔ 2008 کا انتخاب ہار گئے تھے۔ ٹی وی سکرینوں پر لیکن اینکروں کو ون آن ون انٹرویو دیتے ہوئے سٹار بناتے رہے۔ ان دنوں کی عسکری قیادت کو ٹی وی سکرینوں پر ستو پینے کے طعنے دیتے تھے۔ حکومت کو گھر بھیجنے کے لئے ’’قربانی سے پہلے قربانی‘‘ کی گردان بھی پڑھتے رہے۔ ٹی وی مالکان کو ریٹنگز کی خیرات دیتے ہوئے انہوں نے اپنا محتاج بنا دیا۔ ان کی ذات کے حوالے سے میڈیا کی محتاجی عمران خان صاحب کو بہت بھائی۔ وہ تحریک انصاف کے رکن نہیں ہیں۔ اپنی مدد آپ کے تحت ایک مسلم لیگ بنا رکھی ہے۔ اس کے نشان پر منتخب ہوکر اسمبلی میں آئے ہیں اور تگڑی وزارتوں پر براجمان رہتے ہیں۔ Ratings کا یہ شیر منتخب ایوان کو مگر کسی خاطر میں نہیں لاتا۔ خود کو ’’پنڈی بوائے‘‘ کہتے ہوئے انہیں اراکین اسمبلی کو ان کی اوقات میں رکھنے کی عادت ہے۔ ان کی رعونت مگر اب وطن عزیز کے امیج کو بھی دھچکے لگانا شروع ہوگئی ہے۔ ان سے اگرچہ اس ضمن میں کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوگی۔ ہماری دائمی ریاست کے منہ پھٹ لاڈلے ہیں۔ جو چاہے ان کا حسن کرشمہ ساز کرے۔
ہنر ابلاغ کے حتمی ماہر مشہور ہوئے بقراطِ عصر کی رعونت بھری لاپرواہی نے مگر اسلام آباد میں قائم چینی سفارت خانے اور بیجنگ میں موجود اس ملک کی وزارت خارجہ کے ترجمان کو تفصیلی بیانات دینے کو مجبور کر دیا۔ پاکستان ہی نہیں دنیا بھر کے میڈیا کو وہ بیانات تحریری صورت میں میسر ہو گئے۔ ہمیں اس ملک کے ازلی دشمنوں کی جانب سے مسلط کی ہوئی ففتھ جنریشن وار سے محفوظ رکھنے کو مامور نگہبان تاہم بدھ کے دن اس فکر میں مبتلا رہے کہ پاکستان کا غیر ذمہ دار میڈیا داسو کے بارے میں بے پرکی نہ اڑائے۔ میڈیا نے تابعداری دکھاتے ہوئے اپنی حب الوطنی ثابت کر دی۔ نہ دکھاتا تو کیبل سے غائب ہوجاتا۔ نوکر کی تے نخرہ کی۔ چینی وزیر اعظم نے مگر اس کے باوجود ہمارے وزیر اعظم سے ٹیلی فون پر گفتگو کی ضرورت محسوس کی۔ چینی حکومت کی جانب سے اس گفتگو کی تفصیلات بھی عالمی میڈیا کو جاری کردی گئیں۔ چین سے اب ایک تفتیشی ٹیم بھی داسو پہنچ چکی ہے۔ پاکستان کے دشمن اس کی آمد کا حوالہ دیتے ہوئے ’’سمندروں سے گہری اور ہمالیہ سے اونچی‘‘ دوستی کی بابت چٹکی بھرتے سولات اٹھا رہے ہیں۔
فکر کی مگر کوئی بات نہیں۔ عمران خان صاحب نے ازبکستان کا تاریخی اور کامیاب دورہ کیا ہے۔ وہ سمر قند اور بخارا بھی تشریف لے گئے۔ ازبک عوام کو نوید سنائی ہے کہ وہ انہیں کرکٹ سکھائیں گے۔ مغلیہ سلطنت کے بانی ظہیر الدین بابر کی دلاوری اجاگر کرنے والی فلم بنانے کا وعدہ بھی ہوا ہے۔ ازبکستان کی تاریخ عمران خان صاحب ازبکوں سے بھی کہیں زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ انہوں نے اپنے پسندیدہ دلاور کی لکھی ’’تزک بابری‘‘ بھی غور سے پڑھی ہوگی۔ سوال اٹھتا ہے کہ اس کے بارے میں فلم بناتے ہوئے کیا ہم ’’کھوپڑیوں‘‘ کے وہ ’’مینار‘‘ بھی دکھائیں گے جو دہلی کی جانب پیش قدمی کرتے ہوئے بابر نے لوگوں کے دلوں میں ہیبت بٹھانے کے لئے کھڑے کئے تھے۔ یاد رہے کہ مذکورہ میناروں کی تعمیر کے لئے کابل سے اٹک تک محض ’’کافروں‘‘ کی کھوپڑیاں استعمال نہیں ہوئی تھیں۔
ظہیر الدین بابر کے ذکر نے ذہن کو بہکا دیا۔ پریشانی سے بے بس ہوئے اذہان مگر ہذیان بکنے کو مجبور ہوجاتے ہیں۔ کشادہ دلی سے لہٰذا مجھے معاف کردیں۔
اپنی صحافتی عمر کا بیشتر حصہ میں نے خارجہ امور پر نگاہ رکھنے میں صرف کیا ہے۔ پاک-چین دوستی کی اہمیت کو اجاگر کرتی بے تحاشہ خبریں بھی دی ہیں۔ سی پیک کا حقیقی آغاز گوادر سے ہوا تھا۔ گوادر میں چین کو مدعو کرنے کی ’’خبر‘‘ بھی اس بدنصیب نے جنرل مشرف کی زبان سے ریڈیو پاکستان کے انگریزی چینل کے افتتاح کے روز نکلوائی تھی۔ آصف علی زرداری جب ہمارے صدر تھے تو میرے ساتھ ہوئی ملاقاتوں کے دوران اکثر اس ضمن میں ہوئی اہم ترین پیشرفت سے بھی آگاہ رکھتے۔
شیخی بگھارنا مقصود نہیں۔ اگرچہ عمر کے اس حصے میں ہوں جہاں ’’جب ہم جوان تھے‘‘ والے قصے سناتے ہوئے بزرگ افراد نوجوانوں کو جمائیاں لینے کو مجبور کردیتے ہیں۔ انتہائی عاجزی سے ہاتھ جوڑتے ہوئے یاد فقط یہ دلانا ہے کہ داسو ڈیم ہماری ترقی اور بقاء کے لئے ایک سنگ میل نما منصوبہ ہے۔ اس کی جلد از جلد تعمیر کو ممکن بنانا ہماری ریاست کی ذمہ داری ہے۔ یہ منصوبہ اپنی اہمیت کی وجہ سے ہمارے دشمنوں کی نظر میں یقینا کھٹکتا ہے۔ اس پر کام کرنے والے اگر تخریب کاری کی زد میں آئیں تو اچھنبے کی کوئی بات نہیں۔ اسے چھپانا کاربے سود ہے۔ حقیقت کو چھپانا شاید مشکل نہیں تھا اگر چین بھی اس کی بابت خاموشی کو ترجیح دیتا۔ وہ مگر خاموش نہیں رہا۔ بہتر ہوتا کہ بدھ کے روز داسو والا واقعہ ہوجانے کے بعد وزیر داخلہ قومی اسمبلی میں اس کے بارے میں کوئی ’’پالیسی بیان‘‘ دے کر اس ایوان کو باوقعت بناتے جس کے وہ 1985 سے رکن چلے آرہے ہیں۔ 2008 سے 2013 کے علاوہ۔
بشکریہ نوائے وقت۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر