فضیل اشرف قیصرانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افغانستان جو گزشتہ اکیاون برس سے (ثور انقلاب سے لمحہ موجود تک) حالت ِ جنگ میں ہے کسی طور مکمل امن کی جانب جاتے نظر نہیں آتا۔ایران اور پاکستان کی ہمسائیگی میں موجود افغانستان دو ایسےممالک کے بیچ موجود ہے جہاں مذہبی انتہاپسندی بطور کاروبارِ مملکت کے کام میں لائ جاتی ہے۔کوئ دن نہیں جاتا کہ ان دو ممالک میں ایسی ایسی نادرونایاب قانون سازی سامنے آتی ہے کہ قرونِ وسطیٰ کا زمانہ یاد آ جاتا ہے۔مثلاً ایران میں گزشتہ سالوں فیفا پابندیوں کی وجہ سے ایران کو اس حوالے سے باقاعدہ قانون سازی کرنا پڑی کہ آئندہ خواتین بھی فٹبال میچ سٹیڈیم میں آ کر دیکھ سکیں گی اور دوسری جانب پاکستان میں خواتین کے متعلق ہونے والی قانون سازی ہمارے سامنے ہے اور یہ یاد رہے کہ یہ معاملات اکیسویں صدی میں برتے جا رہے ہیں جبکہ انسان،معاشرہ اور ممالک کی تقسیم اس صدی میں مہذب اور غیر مہذب کی بنیاد پہ کی جا رہی ہے۔یہ دیکھے بنا کہ ہمارا شمار کس فہرست میں ہوتا ہے آگے بڑھتے ہوۓ بس اس قدر ہی کہنا ہی بہت ہو گا کہ ہم خود پسندی اور نرگسیت میں ڈوبے خود کو کیسے دیکھتے ہیں کوئ قیمت نہیں رکھتا کہ قیمت یہ رکھتا ہے کہ ہمیں اور کیسے دیکھتے ہیں۔
پاکستان ،ایران اور افغانستان جو کہ اپنی پیدائش سے ہی محکوم چلےآ رہے ہیں درحقیقت محکوم اقوام کا وہ قبرستان ہیں جہاں غلامی بچے جنتی ہے اور آزادی کی کھوکھ بانجھ ہے۔کوئ دن نہیں جاتا کہ محکومی کی کھوکھ سے نئ محکومییاں جنم لیتی ہیں اور غلامی،محکومی اور پسماندگی میں پِستی اقوام غلامی کی اس دلدل میں مزید کھنچتی چلی جاتی ہیں کہ سانس لینے میں بھی دقت کا گمان ہوتا ہے۔ظلم در ظلم ہے کہ غلامی میں کوئ اخلاقیات باقی نہیں رہتیں کہ مانا جاتا ہے غلامی میں سب سے پہلا قتل اخلاقیات کا ہوتا ہے۔سچ کا قتل،سچائ کا قتل،سانس کا قتل،زمین اور وسائل کا قتل،حق کا قتل،حق طلبی کا قتل،سوال اور جواب طلبی کا قتل اور در حقیقت قتل اس ادراک کا جو غلام کو یہ باور کراتا ہے کہ تم غلام اور محکوم ہو۔
ایسی اقوام کو کیا کہا جاۓ محکوم یا مقتول ؟
ایران جو کھبی فارس تھا۔ایران جو کھبی استاذہ کی سربراہی میں روشن فکر انقلاب کی راہ پر گامزن تھا اور ایران جس کا انقلاب اغوا کار اغوا کر کے وہاں لے گۓ جہاں سٹیڈیم میں فٹبال کا کھیل دیکھنا جرم ٹہرا۔کیا ایسا ایران جو گزشتہ بیالیس سال سے ہمہ وقت اپنے انتہا پسند انقلاب کو برآمد کرنے کی کاوش میں مشغول ہو کسی طور ایک اچھے ہمسایہ ملک کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے؟کیا افغانستان جو پچھلے اکیاون برس سے حالتِ جنگ میں ہو کسی طور ایک مہذب ملک کے طور پر شمار کیا جا سکتا ہے ؟پاکستان جو گزشتہ تہتر سال سے اپنی بقا کے نام پر کھبی کشمیر،کھبی افغانستان ،کھبی ایران اور کھبی بنگلہ دیش میں برسرِِ پیکار نظر آۓ کسی طور ایک مستحکم اور با اعتماد ہمسایہ کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے؟
شاید نہیں۔
تاریخ شاید ان اقوام،ممالک اور معاشروں کو دنیا کی “کچی بستی” کے طور پر تو یاد رکھے اور وہی مقام بھی عنایت کرے کہ اس سے زیادہ نہ تو اس کچی بستی کی کوئ contribution ہے اور نہ حیثیت ہاں مگر نرگسیت ضرور یہ کہتی ہے کہ ہم وہ عظیم لوگ،ہم وہ شاندار لوگ اور ہم خدا معلوم کونسے لوگ ۔
سو قاتل،حاکم اور استحصال مردہ آباد
قتل مردہ باد
محکومی مردہ باد
اور
غلامی مردہ باد
نوٹ:یہاں لفظ کچی بستی بطور استعارہ استمال ہواہے۔کسی طور کچی بستی کے مکینوں کی ہتک مقصود نہیں کہ وہی تو اصل زمیں زاد ہیں اور ہمارے محبوب بھی مگر دنیا کے ہر خطے میں زمیں زاد کی ہتک یوں ہی کی جاتی رہی ہے کہ کھبی انکا مقام کچی بستی کہلایا اور کھبی slum..
اے وی پڑھو
تانگھ۔۔۔||فہیم قیصرانی
،،مجنون،،۔۔۔||فہیم قیصرانی
تخیلاتی فقیر ،،۔۔۔||فہیم قیصرانی