ملک سراج احمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کشمیر کے الیکشن میں علی امین گنڈا پور کا دوران تقریر بھٹو کو غدار کہنا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے اور نا ہی بالکل بے جا الزام ہے۔ بھٹو مجرم تو ہے اور وہ بھی تاریخ کا مجرم ہے۔ بھٹو دور کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بھٹو کے بہت سے اقدامات ایسے تھے جس کی بنیاد پر کسی شک و شبہے کے بغیر بھٹو کو غدار قرار دیا جاسکتا ہے۔ مگر کوئی بات نہیں دیر آید درست آید بالآخر کسی نے تو کلمہ حق کہا اور غدار کو غدار کہہ ہی دیا۔ بھٹو غدار ہی نہیں تھا مروجہ سیاسی نظام اور رائج معاشرتی رویوں کا باغی تھا۔
بھٹو کے جرائم کی فہرست بہت طویل اور ناقابل معافی ہے۔ بھٹو کا یہی جرم کیا کم ہے کہ جاگیردار گھرانے کا تعلیم یافتہ شخص ہو کر اپنے عہد کی سیاسی اشرافیہ کا ساتھ نہیں دیا بلکہ غریب، مجبور، بے کس اور پسے ہوئے طبقات کی نمائندگی کرنے کے لیے میدان میں نکل آیا۔ وہ بدنصیب جن کو کھانے کو روٹی، تن ڈھانپنے کو کپڑا اور سکون سے سونے کے لیے چھت میسر نہیں تھی جن کو غربت سے متعلق یہ بتایا گیا تھا کہ یہ ان کے نصیب میں لکھ دی گئی ہے اور اگلے جہان میں ان کو اس غربت کا انعام ملے گا۔ ایسے طبقے کو بھٹو نے جدوجہد کا راستہ دکھایا۔ اس اکثریتی طبقے کو بہتر زندگی کے حصول کی خاطر جدوجہد کی تعلیم دی۔
محروم طبقات کی نمائندگی ہر عہد میں ناقابل معافی رہی ہے۔ تاریخ دیکھ لیں بادشاہوں کے عہد میں کسی غریب کی حمایت کرنے والے کو ریاست کا غدار قرار دے کر یا تو ہاتھی کے پاؤں کے نیچے مسل دیا گیا یا پھر تلوار سے سرقلم کر کے ریاست کی حاکمیت کو تسلیم کرایا گیا۔ کہیں پر اگر پھر بھی بغاوت کا ڈر ہوتا تو ریاست کے باغی کی لاش کو شہر کے وسط میں ٹانگ دیا جاتا کہ رعایا اس سے عبرت حاصل کرے اور کسی بھی قسم کی ایسی باغی سوچ کو نا اپنائے جس سے ریاست یا تخت کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو۔ اسی خوف کو بنیاد بنا کر بادشاہوں نے طویل مدت تک راج کیا۔
اس خوف کو ختم کرنا بھی تو بغاوت ہے۔ اور بھٹو سے یہی غلطی ہوئی اور اس نے ایک عوامی جلسے میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ایک بھٹو میں ہوں اور ایک بھٹو آپ ہیں۔ آج تک ایسا ہوتا آیا ہے کہ عوام ہی لیڈرز کو لقب یا خطاب دیتے ہیں۔ مگر یہ پہلی بار ہو رہا تھا کہ ایک لیڈر اپنی قوم کو بھٹو کا خطاب دے رہا تھا۔ سیاسی اشرافیہ کی نظر میں وہ قوم کو بغاوت پر اکسا رہا تھا۔ ایک مدت سے ذہنوں پر چھائے ہوئے خوف کو ختم کر رہا تھا۔ ان کو بنیادی حقوق بتا کر قوت گویائی دے رہا تھا۔ ایک مدت سے گونگوں کو بولنے کا شعور دے رہا تھا اور یہ بغاوت نہیں تو اور کیا ہے
مزے کی بات یہ ہے کہ بھٹو اس بغاوت میں کافی حد تک کامیاب رہا۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ آج بھی ملک کی ایک اکائی میں بھٹو کے فلسفے اور نظریے کا راج ہے اور یہ ختم ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ کسی دن ملک کی سیاسی تقسیم پر غور کریں تو ایک صوبہ مسلسل لیفٹ کی سیاست کر رہا ہے۔ باوجود خواہش اور کوشش کے صوبہ سندھ کی اکثریتی عوام کو بھٹو کے فلسفے سے ہٹایا نہیں جا سکا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ بھٹو کی بغاوت کامیاب رہی اور وہ ایک ایسا طبقہ پیدا کر گیا جو ہر حال میں مزاحمت جاری رکھے گا۔ بنیادی حقوق کے حصول تک جدوجہد جاری رکھے گا۔ مطلب امید ختم نہیں ہوئی صدر شکر کہ کوئی تو ہے جو سیاسی بنیادوں پر جدوجہد کر رہا ہے۔ بلاشبہ سندھ آج پورے ملک کا سیاسی مقدمہ لڑ رہا ہے
بھٹو کا جرم ناقابل معافی ہے۔ بھٹو کی ہر بات قابل تعزیر اور ہر عمل سزا کا مستحق ہے۔ روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگانے والے بھٹو کو علم نہیں تھا کہ معاشی وسائل کی تقسیم کا فارمولہ کچھ اور ہے۔ اگر سب کچھ عوام پر ہی خرچ کرنا تھا تو پھر قائد کی ایمبولینس بیچ سڑک خراب کیوں کی، پہلے وزیراعظم سرعام قتل نا ہوتے۔ اگر عوام کی فلاح ہی مطلوب تھی تو فالج زدہ شخص کو گورنر جنرل بنا کر نا بٹھایا جاتا۔ ملک کی اکثریت کو وسائل کا حصہ دار بننے کے خوف سے حقارت سے دھتکار کر الگ کر دیا گیا۔ کیا یہ ساری محنت اس لیے کی گئی کہ بھٹو آ کر اس پر پانی پھیر دے۔
نہیں ہر گز نہیں کوئی بھی اپنی محنت کو ضائع ہوتے نہیں دیکھ سکتا اور یہی ہوا محنت کرنے والوں نے باغی بھٹو کو نشان عبرت بنانے کا فیصلہ کر لیا۔ یہ بالکل ویسے ہی تھا جیسا بھگت سنگھ کے ساتھ ہوا تھا وہ بھی باغی تھا۔ برطانیہ کے تخت کا غدار تھا۔ وہ آزادی کی بات کرتا تھا اس کا جرم بھی ناقابل معافی تھا نتیجہ یہ کہ اس کو پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا گیا۔ یہی کچھ بھٹو کے ساتھ ہوا وہ بھی باغی تھا غدار تھا اس کی سزا بھی پھانسی کا پھندا تھی سو اس کو ملی۔
شکر کرنا چاہیے کہ بھٹو کو غدار کہا گیا اینٹی اسٹیبلشمنٹ کہا گیا۔ آج کل برسراقتدار محب وطن دیکھ کر دل سے آواز آتی ہے کہ بھٹو کی غداری زیادہ معتبر تھی۔ ریاستی جبر کے خلاف جدوجہد کا فلسفہ کربلا سے شروع ہوا ہے اور طے شدہ قانون ہے کہ ریاست کی طرف سے کسی کو غدار قرار دینا بسا اوقات حب الوطنی کے اعزاز سے بڑا انعام ہوتا ہے۔ بھٹو طاقتور اسٹیبلشمنٹ کا باغی تھا، ریاستی جبر کا باغی تھا، حکمران اشرافیہ کا غدار تھا، بھٹو نے ہر طاقتور سے بغاوت کی مگر بھٹو نے عوام سے غداری نہیں کی۔ اپنے فلسفے اور نظریے سے غداری نہیں کی۔ بھٹو اپنی کہی گئی باتوں پر ڈٹا رہا عوام کے حقوق کی جدوجہد کرتا رہا۔ معاشی مساوات کی بات کرتا رہا۔ معاشی وسائل کی منصفانہ تقسیم کی بات کرتا رہا۔ غریب کی حالت زار کو بہتر کرنے کی کوشش کرتا رہا۔
ان جرائم کی بنیاد پر بھٹو تو تختہ دار پر لٹک کر امر ہو گیا۔ حرف آخر یہ کہ اگر حب الوطنی کی انسانی شکل موجودہ حکمران طبقہ ہے تو پھر بھٹو غدار ٹھیک تھا۔ آج کے تخت نشینوں کو دیکھ کر یہی کہا جاسکتا ہے کہ ہاں بھٹو غدار تھا
براے رابطہ 03334429707
وٹس ایپ 03352644777
یہ بھی پڑھیے:
ڈانسنگ ایلیفینٹ ۔۔۔ ملک سراج احمد
وہ لڑکی لال قلندر تھی ۔۔۔ملک سراج احمد
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو ۔۔۔ ملک سراج احمد
بے نظیر بھٹو کی پکار: الوداع پاپا ۔۔۔ملک سراج احمد
عوام کے حق حاکمیت کی فیصلہ کن جنگ۔۔۔ ملک سراج احمد
حضرت خواجہ غلام فرید ؒ – پیلوں پکیاں نی وے، آ چنوں رل یار ۔۔۔ ملک سراج احمد
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر