نور الہدیٰ شاہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پیارے مولوی صاحب!
گزارش ہے کہ میں اس وقت مدینے میں ہوں۔ ویسی ہی ہوں جیسی پاکستان میں ہوتی ہوں۔ اِک بندہ گندا۔ باہر سے دھلی دھلائی اندر سے گناہوں اور خطاؤں سے لدی اور میلی۔ شیطان مردود یہاں بھی ساتھ ساتھ چلا آیا ہے اور عین نماز میں میرے سر پر پنجے گاڑ کر آ بیٹھتا ہے۔ امام تکبیر دیتا ہے تو چونک کر یاد آتا ہے کہ میں تو نماز میں ہوں! ساتھ ہی آنکھیں پھاڑ کر سامنے دیکھتی ہوں تو دھک سے رہ جاتی ہوں۔ الامان! صرف نماز ہی میں نہیں ہوں بلکہ مسجد نبوی میں بھی ہوں!
مگر مجھ ایسے انگنت ہیں یہاں۔ میں نے تو دکھاوے کے لیے حلیہ درست کیا ہوا ہے مگر ایسے لوگوں کا بھی ایک انبوہ ہے یہاں جو دکھنے میں بھی میلے ہیں۔ بوسیدہ۔ پسینے میں لت پت۔ گندے جوتے متاعِ جاں کی طرح سینے سے لگائے ہوئے کہ کہیں چوری نہ ہوجائیں!
پر الحمدللہ مولوی صاحب! یہاں تو لگتا ہی نہیں کہ اسلام کو کوئی خطرہ بھی ہوسکتا ہے! سبحان اللہ، نبیِ کریمﷺ کی شان اسی بلندی کے ساتھ قائم و دائم ہے جس کا رب سچے نے قیامت تک کے لیے وعدہ فرمایا ہے۔ اللہ معاف کرے، میرے منہ میں خاک، مگر مولوی صاحب! توہین جیسے ناپاک لفظ کا تو یہاں گزر بھی نہیں اور گمان بھی نہیں۔
توہین تو ہم جیسے گنہگاروں کی ہوتی ہے۔
اس ذاتِ عالی کا تو مقام وہ ہے کہ فرشتوں کے پر جل جائیں اگر ذرا سا بھی پھڑپھڑائیں۔ ہم تو چیخ چیخ کر ہلکان ہوئے جاتے ہیں توہین جیسے گستاخانہ الفاظ بول بول کر اور اُدھر رب ہے کہ فرماتا ہے کہ میرے نبیؐ کے سامنے آواز نیچی رکھو۔ ان کی آواز سے اونچی آواز مت کرو۔
مولوی صاحب! آپ تو مسجد کو تالا لگا کر رکھتے ہیں اور صرف اپنے فرقے کے لیے دروازہ کھولتے ہیں، مگر یہاں تو ہر خاص و عام کے لیے رحمت للعالمین کا دربار کھلا ہے۔ کیا شاہ کیا گدا، کیا سیاہ کیا سفید! فرقوں کی تو خبر ہی نہیں پڑتی۔ نہ رنگ برنگی پگڑیاں ہیں اور نہ ہی نعلین مبارک کے نام پر بازار میں بکتے اور کاروبار چمکاتے، ہاتھوں سے بنائے جوتے کے چمکتے نشان سینوں پر سجے ہیں۔
سمندر کی طرح ٹھاٹھیں مارتے اس ہجومِ بے کراں میں کئیوں کو نہیں پتہ کہ کون سے فرقے اور کون ان کے امام اور کون سی کتابیں!
بس یہ پتہ ہے کہ ایک کتاب، ایک اللہ، ایک رسولﷺ۔ نماز کے لیے جہاں تک بازو بندھے یا کھلا رہے، خیر ہے، بس سجدے میں گرنا ہے رب کے حضور۔
ابابیلوں کی طرح اُمڈے چلے آ رہے ہیں ایک ہی پہچان ساتھ لیے کہ سرکار! یہ رہا میں، آپ کا امتی۔ یہ رہی میرے گناہوں کی فہرست۔ آپ خود پڑھ لیجیے حضور! مجھے تو پڑھتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔ جی ہاں وہی بدنامِ زمانہ ہوں۔ بس میرا سلام قبول فرمائیے۔ یہی میرا اعتراف ہے کہ میں آپ کا امتی ہوں۔ یہی اعتراف کرنے آیا ہوں۔
مولوی صاحب! دیکھ لیجیے کہ آپﷺ خاتم النبین تو ہیں ہی مگر حیات النبی بھی تو ہیں پر کمال ہے کہ امتی سے ثبوت نہیں مانگتے۔ نہ تب اور نہ اب۔ بندہ گندا کھڑا ہے آگے۔ اپنی زبان میں بولے جا رہا ہے۔ بولے جا رہا ہے۔
سلام پیش کر دیا۔ معافی نامہ بھی پیش کردیا۔ اب آگئی لالچ دنیا کی خواہشوں کی۔ ایک لمبی فہرست آگے کردی۔ حضور! یہ بھی چاہیے۔ یہ بھی چاہیے۔ یہ بھی چاہیے۔ پیسہ، کوٹھی، عہدہ۔ دشمن دیکھے تو جل جائے۔ میرے سچے مقدمے جھوٹے ہوجائیں۔ بس اس بار میرا معاملہ بن جائے۔
پر یہ سوال نہیں آتا کہ اچھا کلمہ تو پڑھ کے دکھا۔ اچھا پہلے پچھلا حساب صاف کر۔ پھر سے اسلام قبول کر۔ ثبوت پیش کر کہ تو مسلمان ہے بھی کہ نہیں۔ جا پہلے اپنے ملک کے کسی عالم سے مسلمان ہونے کا سرٹیفکیٹ لے کے آ۔ پہلے دکھا کہ کس رنگ کی پگڑی پہنی ہے تونے! تیرا جوتے کے نشان والا رنگین بیج کہاں ہے؟
ایسا کیوں نہیں ہوتا مولوی صاحب؟
اس لیے کہ میرے حضورﷺ کو پتہ ہے نا کہ بندہ ہے۔ گندا سہی پر میرا امتی ہے۔ جانتے ہیں کہ یہ کمبخت دل میں پچھتایا بھی تو تھا۔ رات کو رویا بھی تو تھا۔ خوفِ زمانہ سے سانس رک گئی تھی اس کی۔ پتہ ہے میری محبت اور اللہ کے خوف سے زیادہ قبر اور دوزخ کا خوف ہے اسے۔ ٹانگیں اس لیے کانپتی ہیں اس کی کہ قبر میں لٹکائے بیٹھا ہے۔ اوپر سے دنیا والوں کا آسیب اسے گھیرے ہوئے ہے۔ کہتا تو ہے کہ میں آپ پر قربان مگر اپنی عزت بھی بڑی پیاری ہے اسے۔ لوگ اس کے چیتھڑے اڑا دیں گے اس لیے اب آیا ہے میرے پاس چھپنے۔
مگر ہے تو میرا امتی۔ اس کی چھپ چھپ کے مانگی ہوئی معافی اس کے اور اللہ اور میرے بیچ کا ہی تو معاملہ ہے۔ بس ایسی ہی معافی مانگنی آتی ہے اسے، اسی لیے ہی تو اللہ کو بھی چھپ چھپ کے مانگی ہوئی دعا اور معافی پسند ہے کہ یہ ہمارا آپس کا معاملہ ہے۔ چوراہے پر بندہ اگر اعترافِ خطا کرنے لگے تو لیر لیر ہوجائے زمانے کے ہاتھوں۔ تب ہی تو رب خود کو ستارالعیوب کہتا ہے۔
مولوی صاحب! یہاں مجھے ان دیہاتی پنجابی عورتوں پر بڑا پیار آتا ہے جو مسجد نبوی کے اندر پوچھتی پھرتی ہیں کہ سوہنے دا روضہ کتھے اے؟ پھر وہ سادہ سی انڈین عورتیں جو پوچھتی دکھتی ہیں کہ ہمرے نبیؐ جی کا روضہ کدھر کو ہے؟ اور وہ جنّت کی کیاری کہاں ملے گی؟ عرب ملکوں کی عورتیں جو پکڑ پکڑ کر پوچھ رہی ہوتی ہیں فین رسول اللہﷺ؟ انہیں ہاتھ کے اشارے سے یہ بتانا، جانے کیوں مجھے ہمیشہ سے بہت ہی اچھا لگتا ہے کہ وہاں آگے جاؤ، وہاں ملیں گے تمہیں نبیؐ جی۔ وہاں سامنے ہیں رسول اللہﷺ۔ پھر وہ تیز تیز قدم اسی طرف دوڑ پڑتی ہیں کہ کہیں لمحہ بھر کی دیر انہیں ملاقات سے محروم نہ کردے۔
یہ وہ عورت نام کی مخلوق ہیں مولوی صاحب! جن پر طرح طرح کے فتوے جاری کیے جاتے ہیں اور جن کے نام کی گالیاں فخر سے دی جاتی ہیں۔ ماں بہن ہونا تو ان کا سب سے بڑا جرم ٹھہرا۔ بیٹا یا بھائی کچھ بھی کرے، سیدھے اس کی ماں بہن کو ننگا کرو۔ ننگا ہی کیا، وہ کرو جو لکھنا ممکن نہیں۔
روضہ اقدس کے باہر کے صحن میں بیٹھے ہوئے میں ان عورتوں کا شوق اور اضطراب بہت ہی شوق سے دیکھتی رہتی ہوں جیسے بچہ کسی حیرت کدے میں بیٹھا ہو!
99.9 فیصد عورتوں کو تو پتہ ہی نہیں کہ وہ کس فرقے سے تعلق رکھتی ہیں۔ پتہ ہے تو یہ کہ یہ سوہنا نبی میرے لیے دنیا میں بھیجا گیا ہے۔ یہی تو میری سنیں گے۔ یہی تو ہیں جو مجھے دھتکاریں گے نہیں۔ منہ نہیں موڑیں گے کہ جا توُ شیطانی مخلوق ہے۔ میری دکھوں کی داستان کتنی ہی طویل سہی پر وہ سنیں گے ضرور۔ جو میں کہہ نہ پاؤں گی، وہ سمجھ جائیں گے۔ پوچھیں گے نہیں کہ کس کس کی قبر پر جاتی رہی ہو؟ مشرک تو نہیں ہو؟ کافر تو نہیں ہو؟ ثبوت پیش کرو۔
یہ تو وہ نبی جیﷺ ہیں جو بیٹی کی آمد پر اٹھ کھڑے ہوتے تھے اور ان کے لیے اپنی چادر بچھاتے تھے۔
جب روضہِ اقدس کی طرف جانے کے دروازے کھلتے ہیں تو دیوانہ وار یوں دوڑ لگاتی ہیں جیسے انہیں ہی آواز دی گئی ہو کہ فلاں بی بی حاضر ہو۔
بھیڑ کو چیرتی ہوئی، دھکے دے کر راستے بناتی ہوئی جا کھڑی ہوتی ہیں نبی جیﷺ کے حضور۔
یہ رہی میں حضور!
أنا موجود!
پیارے مولوی صاحب! آپ بھی چھوڑیے یہ کافر اور مسلمان ہونے کے سرٹیفکیٹ بانٹنا اور جلد از جلد یہاں چلے آئیے اور اپنے ایمان پر اپنا تکبر حضورﷺ کی بارگاہ میں یوں پیش کر دیجیے جیسے ہارا ہوا سپاہی اپنے فاتح کے سامنے ہتھیار ڈالتا ہے اور اعتراف کیجیے کہ سرکار! بے شک اس سرٹیفکیٹ کو بانٹنے کا اختیار روزِ قیامت تک صرف آپ ﷺ کو ہے۔
صرف آپ ﷺ کو۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر