ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
درد اتنا تھا کہ اس رات دل وحشی نے
ہر رگ جاں سے الجھنا چاہا
ہر بن مو سے ٹپکنا چاہا
اور کہیں دور ترے صحن میں گویا
پتا پتا مرے افسردہ لہو میں دھل کر
حسن مہتاب سے آزردہ نظر آنے لگا
میرے ویرانۂ تن میں گویا
سارے دکھتے ہوئے ریشوں کی طنابیں کھل کر
سلسلہ وار پتا دینے لگیں
یہ لازوال اور آفاقی شعر پڑھ کے سر دھنتے ہوئے ہم رشک و حسد میں مبتلا ہوئے جاتے ہیں۔ فیض دل کے درد میں کیا مبتلا ہوئے کہ درد کو مجسم کر کے پیش کر دیا۔ جسم کی طنابیں، افسردہ لہو، دل وحشی، بن مو سے ٹپکنا اور ویرانہ تن نے دل کے دورے کو ایک ایسی تصویر بنا دیا کہ ہر کوئی عش عش کر اٹھا اور فیض کے دل سے اٹھنے والے درد کی شدت ہر کسی کے دل کو چھو گئی۔ بہت سوں نے تو اس کے بعد دل کے درد میں مبتلا ہونے کی تمنا کی۔
ایسے میں بے اختیار ایک مختلف اور کچھ پاگل سی سوچ نے در دل پہ دستک دے دی۔ سوچ میں کچھ پاگل پن تو تھا لیکن کیا کیجیے سوچ تو ایسی ہی ہوتی ہے۔ کیسی ہی عجیب، کیسی ہی انوکھی، کیسی ہی اچھوتی کیوں نہ ہو، کسی بھی وقت آ سکتی ہے۔ دھڑلے سے مقفل کواڑ کھول کر دندناتی ہوئی براجمان ہو جاتی ہے اور حیران کرتی ہے۔ اب آپ لاکھ یہ کہتے رہیے کہ سوچ صاحبہ آپ نے ناحق زحمت کی ہم ایسی کہ الٹی سیدھی سوچوں پہ کان نہیں دھرتے۔ وہ تو اپنا آپ کہہ کر ہی اٹھتی ہے سو سن لیجیے آپ بھی۔
ہم نے سوچا، کیا ہوتا اگر فیض کو ماہواری کا درد محسوس ہوتا، وہ ہر مہینے درد کی شدت سے اسی طرح تڑپتے جیسے اس رات ہارٹ اٹیک میں تڑپے۔
سوچیے کیسی کیسی نظمیں رقم ہوتیں؟ کیا کیا الفاظ احساس کی بھٹی میں پگھل کر لاکھوں دلوں کو گداز نہ بخشتے؟ مگر افسوس کہ فیض جیسے درد آشنا کو ماہواری نہ آئی اور وہ نظمیں جنم نہ لے سکیں جو عورت کا کرب بیان کر سکتیں۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ ہمیں ماہواری بھی آئی اور تڑپے بھی بہت مگر ایسے کم نصیب کہ فیض کی سی درد آشنائی قلم پہ نہ اتر سکی۔
ہمارے ابا ان لوگوں میں سے تھے جو بڑی بڑی باتیں صبر کا گھونٹ پی کے برداشت کر لیتے مگر کچھ باتوں پہ ان کی حساسیت آسمان کو چھونے لگتی۔ انہی میں سے ایک بات بچوں کی سکول سے بلا وجہ غیر حاضری تھی بلکہ بعض دفعہ ناگزیر وجہ بھی ان کے ماتھے پہ بل ڈال دیتی۔ گھر میں نافذ قانون یہ کہتا تھا کہ آج اگر سکول نہیں تو پھر کبھی نہیں۔
اس قانون سے ڈرنے یا بچنے کی نوبت ہم نے کبھی محسوس نہ کی کہ سکول جانے کا شوق ہی بہت تھا۔ ہفتہ واری چھٹی پہ بھی سوچا کرتے کہ کیا بوریت ہے، کچھ کرنے کو ہے ہی نہیں۔ ایسے میں اگر اچانک ہمارے نامہ اعمال میں اکثر سکول سے غیر حاضری لکھی جانے لگے تو ہمارا حال تو چھوڑیے، سوچیے ابا کا کیا حال ہوتا ہو گا؟
ماہواری آتے ہوئے سال ہو چلا تھا اور ابھی تک سب خیریت تھی۔ ایک دن سو کر اٹھے تو علم ہوا کہ ماہواری آنے کی گھنٹی بج چکی تھی لیکن اس دن کچھ ایسا تھا جو طبعیت میں بے چینی پیدا کرتا تھا۔ پیٹ کے نچلے حصے اور کمر میں عجیب سا درد تھا جو وقفے وقفے کے بعد پھیلتا تھا۔ پہلے کچھ حیرانی ہوئی پھر اپنے آپ کو تسلی دے کر کہ ابھی ٹھیک ہو جائے گا سکول جانے کی تیاری کرنے لگے۔
باتھ روم، ناشتہ، یونیفارم پہننے تک تو معاملہ کچھ قابو میں رہا لیکن ابھی بال بنانے ہی شروع کیے تھے کہ یوں لگا جیسے کسی نے تیز دھار آلے کا وار کیا ہو۔ ایک اندر ہی اندر کاٹتی ہوئی شدید درد کی لہر تھی جو کمر سے اٹھی اور پیٹ تک پھیل گئی۔ ہمارے ہاتھ سے کنگھا چھوٹ کر زمین پہ گر پڑا اور ہم بے اختیار اپنا پیٹ پکڑ کر دوہرے ہو گئے۔ پاس ہی کھڑی چھوٹی بہن نینو نے گھبرا کر ہماری طرف دیکھا۔ ہمارے چہرے کی رنگت پیلی پڑ چکی تھی، ہونٹ نیلے اور دانت بھنچ چکے تھے، آواز کانپ رہی تھی، حلق سے کراہیں نکل رہی تھیں اور جسم میں کپکپاہٹ تھی۔
ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ہمارے جسم کو تیز دھار چھری سے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں کاٹا جا رہا ہے یا پھر خار دار تاروں پہ لٹا کر گھسیٹنے کا عمل ہے یا شاید کسی تختے پہ لٹا کے ہاتھ پاؤں میں میخیں ٹھوک کے مصلوب کیا جا رہا ہے جس کے نتیجے میں ہر مسام اور ہر ریشے سے درد کی ایک تیز لہر اٹھتی ہے۔ شاید عالم نزاع میں ایسا ہی ہوتا ہو گا۔
ہماری آنکھوں کے سامنے اندھیرا تھا اور چہرہ آنسوؤں سے بھیگ چکا تھا۔ اماں نینو کے بتانے پہ دوڑی آئیں تھیں اور ہمارے جوتے اتار کے بستر میں لٹانے کے بعد ہمارے ہاتھ پاؤں سہلانے میں مصروف تھیں۔
درد تھا کہ بڑھتا چلا جاتا تھا، ہم بستر پہ لوٹ پوٹ ہوئے جاتے تھے اور اماں کو کچھ سمجھ نہیں آتا تھا۔ کبھی بھاگ کر گرم پانی کی بوتل لاتیں، کبھی درد کی گولی کھلاتیں اور کبھی کمر سہلانا شروع کر دیتیں۔ وہ سمجھنے سے قاصر تھیں کہ یک لخت ہماری طبعیت کو ہوا کیا؟ ماہواری تو پہلے بھی ہوتی تھی تو پھر اب یہ درد کیوں اور کیسے؟
اماں جو ان سب ٹوٹکوں کے بعد بہتری کی امید لگائے بیٹھی تھیں، بوکھلا گئیں جب ہم نے قے کرنا شروع کر دی۔ درد سے تو پہلے ہی بے حال تھے، رہی سہی کسر قے نے پوری کر دی۔ اب ہم ایک ایسے خلا میں معلق تھے جس کے چاروں طرف درد کا طوفان تھا۔
اماں شدید گھبرا چکی تھیں۔ ابا کب کے دفتر جا چکے تھے۔ اب کس سے کہا جائے اور کیا کہا جائے؟ بہر کیف کسی نہ کسی طرح اماں نے ڈاکٹر نما ڈسپنسر گھر بلا ہی لیا۔ کچھ تو وہ ہماری حالت دیکھ کر بھانپ گیا اور کچھ اماں سے تصدیق چاہی۔ اثبات میں جواب ملنے کے بعد درد زائل کرنے اور قے روکنے کے لئے دو انجکشن لگائے گئے اور کچھ گولیاں پرچے پر لکھ کر دے دی گئیں۔
انجکشن کے زیر اثر اگلے چھ آٹھ گھنٹے کچھ سکون سے گزرے لیکن اتنا درد باقی رہا کہ سکول سے اگلے دن بھی چھٹی کرنا پڑی اور گولیاں تو مسلسل تین دن کھانی پڑیں۔ ابا سکول سے غیر حاضری پہ خاموش رہے۔
اماں ابا کی سمجھ سے باہر تھا کہ کسی بچی کی ماہواری اس کا یہ حشر بھی کر سکتی ہے۔ اماں کی ماہواری پرسکون، آپا کی سہل سو اماں کے تجربے اور مشاہدے میں ماہواری کا ایسا درد کہیں نہیں تھا اور ابا کیا سمجھتے جب اماں ہی نہیں جانتی تھیں۔
پہلے مہینے تو جو کچھ ہوا اسے انہونی سمجھ کر بھلا دیا گیا لیکن جب آنے والے مہینوں میں یہ کیفیت بار بار ہوئی تو پھر سنجیدگی سے ڈاکٹر صاحبان سے رجوع کیا گیا۔ مختلف ٹیسٹ وغیرہ کے بعد تشخیص ہوئی کہ ہم ماہواری کی وجہ سے ہونے والے ایسے شدید درد کا شکار ہو چکے ہیں جس کی بظاہر کوئی اور وجہ نہیں ہوتی سوائے اس کے کہ ہر مہینے جسم میں ہونے والی کیمیائی تبدیلیوں کا ردعمل شدید ہونے کی وجہ سے درد کی یہ کیفیت ہو سکتی ہے۔
یہ بھی بتایا گیا کہ فی الوقت ہمیں اس کے ساتھ گزارا کرنا ہو گا، دواؤں، گرم پانی کی بوتل اور ہیٹنگ پیڈ جیسے ٹوٹکوں کے سہارے، اس وقت تک کہ جب جسم کسی اور کیمیائی تبدیلی سے گزرے (اشارہ شادی اور حمل کی طرف تھا) ۔
اس وقت تو ہمیں سمجھ نہیں آیا لیکن بعد میں جب مفہوم پلے پڑا تو ہم مرض کی بے ہودگی پہ بے حد بھنائے۔ یعنی کہ اگر دس پندرہ برس ہمیں ڈولی چڑھنے کا موقع نہ ملا تو ہم یونہی تڑپ تڑپ کر زندگی گزاریں گے، ہم نے سوچا۔
پھر ہوا کچھ یونہی کہ جب بھی ماہواری آتی، ہم بستر میں پڑ جاتے اور درد کا خیال آتے ہی کپکپی طاری ہو جاتی۔ گولیاں فوراً حلق سے نیچے اتارتے تاکہ اس سٹیج تک نہ پہنچیں جس کا انجام درد کا انجیکشن ہو۔ لیکن انجکشن ہمارا ایسا ساتھی بنا جو ماہواری کے ساتھ لازم و ملزوم تھا۔
سکول کالج سے ہر ماہ دو دن کی چھٹی ہماری روٹین بنی۔ آہستہ آہستہ سب عادی ہو گئے۔ مشکل تب ہوئی جب ہم ہوسٹل کے مکین ہوئے جہاں نہ اماں تھیں نہ آپا جو سارا وقت ہمارا طواف کرتیں اور ہر چیز بستر پہ مہیا کر دی جاتی۔
میڈیکل کالج میں کچھ ڈاکٹروں کے مشورے سے کچھ اور دوائیاں استعمال کرنے کی کوشش کی لیکن بات نہ بن سکی۔ دو دن چھٹی یہاں بھی معمول بن گئی۔
اب اس جاں لیوا درد سے نجات کی ہماری آخری امید حمل تھا لیکن اس سے پہلے ایک عدد دولہا کا انتظام ہونا باقی تھا۔ خیر خدا خدا کر کے وہ مرحلہ بھی سر ہوا۔ ماہم نے دنیا میں تشریف لا کر نہ صرف جھولی بھری بلکہ اس شقی القلب سے جان چھڑائی جس نے اپنے پنجوں میں ہمیں بچپن سے دبوچ رکھا تھا۔
لیکن جناب، ہماری خوشیوں اور سکون کی عمر مختصر تھی اور کچھ برس میں ہی انہیں کسی کی نظر کھا گئی۔ اب کے ماہواری کا درد شدت کے ساتھ کچھ اور پیچیدگیاں بھی ساتھ لایا۔ خون کا بہاؤ اس قدر ہوتا کہ لباس تو ایک طرف، بستر بھی بھیگ جاتا۔ اب سکول سے چھٹی کرنے کا مرحلہ تو تھا نہیں جس میں صرف ابا کی اجازت درکار ہوتی، یہ تو ایک ڈاکٹر کی ذمہ داریوں کا سوال تھا۔ ساری گائناکالوجی آزما لی گئی لیکن ہماری مٹی ہی کچھ ناقص تھی سو کچھ افاقہ نہ ہوا۔ آخر چار و ناچار رحم کی بھینٹ چڑھا کے جان چھڑائی گئی۔ لیجیے پندرہ برس کی عمر سے جو فسانہ شروع ہوا تھا آخر کار اس کا اختتام پینتالیس پہ ہو ہی گیا۔
صاحب، کہانی کہنے اور سننے کا شوق فیض کے ہارٹ اٹیک کی نسبت سے ہمیں نہ جانے کیا کچھ یاد دلا گیا۔
ہم نے ایک اور بات بھی سوچی کہ کسی خاتون شاعر نے دل کی رگیں ٹوٹنے کو لفظوں میں کیوں نہیں پرویا؟ پھر سوچا کہ شاید عورت عمر بھر درد کے ایسے تپتے صحرا سے گزرتی ہے کہ دل وحشی کی درد رگ جاں سے الجھ کر ریشوں کی طنابیں جب توڑتی ہے تو عورت کے لئے اس میں کوئی نئی بات نہیں ہوتی۔
سوچنے کی ایک اور بات بھی ہے۔ ماہواری اور زچگی کے درد تو جسمانی ٹھہرے اور جیسے ان کی شدت کا اندازہ لگانا کسی اور کے لئے مشکل ہے اسی طرح عورت کی روح پر لگے چرکوں سے اٹھتی ٹیسوں کا بھی کوئی پیمانہ نہیں!
یہ بھی پڑھیے:
اسقاط حمل میں عورت پر کیا گزرتی ہے؟۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
کاظمی اینڈ سنز عرف سترہ برس کا بیٹا۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر