فضیل اشرف قیصرانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
از عالمِ برزخ
مورخہ:۲۴ جُون ۲۰۲۱
پیارے بابر !
کیسے ہو؟
خدا لگتی کہوں تو پچھلے پانچ دن سے جو کچھ دیکھ رہا ہوں مسلسل اپنے انتخاب پہ کفِ افسوس مل رہا ہوں۔نجانے وہ کون سی منحوس گھڑی تھی جب میں نے ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ اُلٹ کر تخت نشین ہونے کا سوچا تھا۔ بات یہیں تک رہتی تو شاید خط لکھنے کی نوبت نہ آتی مگر اب کہ اصل افسوس اپنے اقتدار پہ قبضے کے فیصلے کا نہیں بلکہ اپنے انتخاب اور بھٹو کی پھانسی کا ہے۔
ذرا اپنے انتخاب پر نظر دوڑاتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ کوئی ایسا نظر نہیں آتا جسے اپنا نظریاتی وارث کہہ سکوں۔ کہہ بھی کیونکر سکوں کہ مجھے تو اب میرے ورثا خود پہ بار سمجھنے لگے ہیں۔ ذرا دیکھو تو کوئی بھی میرا نام لیوا نہیں، ہر کوئی میری میراث سے نظریں چرائے پھرتا ہے۔ کوئی دو چار اگر ہیں بھی تو ان کا رویہ میرے وارث کا نہیں، بس میرے دیے سبق کو ازبر کر کے ایک اچھے طالب علم ہونے کا ہے۔
اب خود کو ہی دیکھ لو پیارے بابر اعوان!
کتنی چاہت سے تمہارا انتخاب کیا تھا میں نے۔ تم بھی کتنی چاہت سے میرے ہر سبق کو ازبر کر کے مسلسل سینیٹر چلے آ رہے ہو۔
تم ہوۓ، اعجازالحق ہوا، نثار ہوا یا شاہ محمود۔
مگر جب دیکھتا ہوں کہ کوئی عثمان کاکڑ نام کا ایک دفعہ کا سابقہ سینیٹر پچھلے دنوں شہید ہوا ہے (شہید کاہے کا) تو تم سب پر دکھ ہوتا ہے۔ کس قدر نکمے، نالائق اور نکھٹو ثابت ہوئے ہو تم سب۔
نافرمانو، ناہنجارو اور شرمیدلو کہیں کے۔
ذرابھی غیرت ہوتی تم لوگوں میں تو چُلو بھر پانی میں ڈوب مرتے۔
اسے دیکھو تو ذرا!!!
بلوچستان کی تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ ہوا ہے اس کا۔کہتے ہیں کہ تیرہ لاکھ افراد تھے۔اور یہ تیرہ لاکھ لاۓ نہیں گۓ تھے بلکہ خود آۓ تھے۔پشتون جو مُکمل اور شُدھ کاروباری ہے،سُنا ہے اُس نے کاروبار سے چُٹھی کی تھی کہ عثمان کے جنازے کے دن اگر بازار کُھلا رہ گیا تو خُدا کو کیا منہ دکھائیں گے۔بلوچ تو ہیں ہی پاگل۔انہیں بس حق پرستوں سے پیار کی عادت ہے۔کہتے ہیں کراچی سے کوئٹہ بلوچ نے سارا دن سڑکوں پہ گزارا کہ اگر عثمان کی میت کو آخری سلام نہ کر سکا تو ساری چراگاہیں بنجر و ویران ہو جائیں گی۔ہزارہ والوں کو نجانے کیا مسلۂ ہے،یہ بھی ہر حق پرست کا بوجھ اپنے پیاروں کی لاش سمجھ کے اپنے کندھے پہ اُٹھانے کے عادی ہو گۓ ہیں۔
سارے پاگل،غدار اور کافر کہیں کے۔
نِکمّو!
کون سی ایسی آنکھ تھی جو اشکبار نہ تھی، کون تھا جو اس کے اہلِ خانہ کے دکھ میں شریک نہ تھا، کون سی ایسی قومیت تھی جو اسے اپنا نہیں سمجھ رہی تھی۔ اِدھر کو تم نکموں کا ٹولہ ہے۔ اللہ تم سب کی زندگی کرے مگر زیادہ بھی ہوا تو اپنے قبیلے کے چند افراد پہ مبنی جنازہ ہو گا تمہارا۔
نالائقو!
کوئی تو ڈھنگ کا کام کر لیا ہوتا۔ مجھ سے تو ویسے بھی اپنا ناطہ تم سب نے توڑ لیا تھا۔ کچھ تو جمہوریت جیسی بیکار چیز کے لیے کر لیتے کہ میں یہاں تم لوگوں کی کامیابی دیکھ کر خوش ہو لیتا۔ بھٹو کے پاس بینظیر ہے، باچا خان کے پاس بشیر بلور، بڑے بگٹی صاحب کے پاس اکبر خان بگٹی، جی ایم سید، نواب زادہ نصراللہ، رسول بخش پلیجو، غوث بخش خان کے پاس حاصل خان بزنجو اور اب صمد خان کے پاس یہ عثمان نام کا کوئی لڑکا بانکا آ گیا ہے۔
میرے حصے میں نکمو تم سب آئے ہو۔ نا کام کے نا کاج کے، دشمن اناج کے۔ بھٹو صاحب تو خیر پہلے دن سے ہی یہاں میرے سامنے اکڑ اکڑ کے چلتے تھے مگر 2007 کے بعد سے جب سے بینظیر یہاں اُن کے پاس آئی ہے ان کی تو ٹور ہی اور ہے۔ ایک صمد خان مغموم رہتا تھا مگر اب کے اس کے بھی وارے نیارے ہو گئے۔ دیکھو تو ذرا کل سے یہاں سب نے عثمان کی آمد کا انتظار شروع کر دیا ہے۔ صمد خان کی بیٹھک پہ کل سے رش ہی نہیں تھم رہا۔ پھول، پھولوں والے ہار، نوٹوں والے ہار اور دستار والا کپڑا یہاں اس قدر بِکا کہ کیا بتاؤں۔ صمد خان بزرگ آدمی ہے، ہاروں اور دستاروں کے بوجھ تلے دبا محسوس ہوتا ہے۔ جسے دیکھو وہ صمد خان کو مبارک پہ مبارک دینے چلا جا رہا ہے۔
بڑے بزرگ جمہوری سیاست دان جن کا نام اوپر لیا وہ تو مقیم ہی صمد خان کی بیٹھک پر ہیں۔ ابھی کل سے محترمہ فاطمہ جناح بھی یہیں تشریف لے آئی ہیں۔ محترمہ کُلثوم نواز اور بی بی بینظیر نے اُن کا اِتنا شاندار استقبال کیا یہاں۔ ایسا استقبال کہ کیا بتاؤں؟ (اور کس منہ سے بتاؤں!)
عاصمہ جہانگیر کے استقبالی کیمپ سے مُسلسل اعلانات کا سِلسلہ جاری ہے۔ کان پھاڑ سپیکرز سے مُسلسل مختلف زبانوں میں نعرے لگوائے جا رہے ہیں۔ اساں جو کھٹی آیو خیر ساں، ہو جمالو، ستر سالار، ستر شہید، جی آیاں نوں، پاکستان کھپے، سجنڑ آون اکھیں ٹھرن، بیا درشاختے، خوش آمدید اور عثمان تیرے جانثار بے شمار بے شمار کے نعرے بلند کیے جا رہے ہیں۔
یہ عاصمہ تو شروع سے ہے ہی سر پِھری۔ مجھے تو سمجھ ہی نہیں آ رہی کہ ایک قوم پرست پشتون کے نعرے پنجابی، سندھی، سرائیکی اور بلوچی میں کیوں لگوائے جا رہے ہیں؟ عجیب لوگ ہیں ویسے یہ سب۔ وفاق اور جمہوریت کوئی اِن سے سیکھے۔ مرتے مر گئے ہیں مگر ان دو چیزوں پہ ان کا ایمان نہیں ڈگمگایا۔
چلو اب یہاں رش بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ عثمان کے استقبال کی تیاریاں فقیدالمثال ہیں یہاں۔ کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی۔ کاش میں بھی صمد خان کی بیٹھک پہ جا سکتا۔مگر کس منہ سے؟نہ تو تم لوگوں نے زمین پہ کچھ کیا اور نہ میرا کوئ نظریاتی شہید یہاں میرے پاس بھیجا۔کوئ دو چار ہی بھجوا دیتے۔زرا تو مان رکھ لیتے میرا اور میرے نظریے کا۔اب یہاں آ کے مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ہم بس جان لے سکتے ہیں،دے نہیں سکتے۔یہ اِنکا ہی کام ہے کہ نظریے پہ جان دے کے خوشی سے ناچنا شروع ہو جاتے ہیں۔
اکثر انتظامات مشاہداللہ خان دیکھ رہا ہے، کہ یہاں تازہ ترین رکن وہی ہے اور کچھ عرصہ عثمان کے ساتھ سینیٹ کا ممبر بھی رہا ہے۔ سب اتنے خوش ہیں کہ کیا بتاؤں۔ بنتی ہے ان کی خوشی نکمو۔
ادھر ایک میں تم سب کو دیکھ دیکھ کر کُڑھ رہا ہوں۔ لے دے کے ایک ایوب اور یحییٰ ہی ہیں جن کے ساتھ بیٹھ کے غم غلط کر لیتا ہوں۔ ان کے مگر اپنے مسائل ہیں۔ وہ بھی کہاں میرا درد سمجھیں۔
نالائقو!
کچھ سیکھ لو عثمان سے۔ چھ سال ہی جیا اور ایسا جیا کہ جیسے چھ صدیاں جی کے آ رہا ہو۔ مجھے تو پہلے ہی سمجھ آ گئی تھی مگر اب عثمان کی پذیرائی دیکھ کر تمہیں بھی اندازہ ہو گیا ہو گا کہ کیوں بولا جاتا ہے کہ “کل بھی بھٹو زندہ تھا، آج بھی بھٹو زندہ ہے”۔
زندہ رہنا چاہتے ہو؟
دیر گاہ زندہ رہنا چاہتے ہو؟
تو عثمان بنو نالائقو۔ جمہوریت، انسانی حقوق، قومی حقوق اور آئین کی بالادستی کے لیے کام کرو۔ اب عثمان تو رہا نہیں تو اُس کی تقریریں سنو۔ دیکھو وہ کیا بولتا تھا، کِس کے لیے بولتا تھا اور کیوں بولتا تھا۔
نکمو کچھ سیکھ لو اس سے۔ ورنہ یہاں میرے منہ نہ لگنا ۔تم جیسے وُرثا سے میں بے وارثا ہی بھلا۔اور وارث تو پھر ہوتے ہی اُنکے ہیں جو نظریات کی وراثت پیچھے چھوڑ آئیں۔افسوس ہم کچھ نہ چھوڑ کے آ سکے سواے دو چار سالوں کے اقتدار کے۔
کچھ سیکھ لو عثمان کاکڑ سے نِکمو۔
تم سب کا سیاسی والد
ضیاءالحق
اے وی پڑھو
تانگھ۔۔۔||فہیم قیصرانی
،،مجنون،،۔۔۔||فہیم قیصرانی
تخیلاتی فقیر ،،۔۔۔||فہیم قیصرانی