وسعت اللہ خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت لوگ کہتے ہیں کہ ضیا الحق کا دور گھٹن اور سختی کا زمانہ تھا۔ لیکن اس گھٹن اور سختی کے سبب سیاسی، عمرانی اور نفسیاتی سطح پر کیا کچھ ایکسپوز ہوا۔ اس جانب دھیان کیوں نہیں جاتا۔
مثلاً اگر ضیا الحق کا دور نہ ہوتا تو یہ کیسے پتہ چلتا کہ کس طرح ایک فردِ واحد نظریے سے لے کر ثقافت و روایات اور افراد تک ہر شے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی عظیم الشان صلاحیت رکھتا ہے۔
اگر یہ دور نہ آتا تو ہمیں کیسے معلوم ہوتا کہ کس طرح پارلیمانی جمہوریت کو دھاندلی سے پاک کرنے کا نعرہ لگانے والی کچھ سیاسی جماعتیں ڈکٹیٹر کی لچھے داری میں الجھ کر اپنی بچی کھچی نظریاتی عصمت بھی لٹوا سکتی ہیں۔
اور کس انداز سے ایک دو نمبر متوازی نظامِ سیاست و عدالت تخلیق کرکے آئین کے پاؤں میں گھنگرو باندھے جاتے ہیں۔ اور کس طرح عورتوں اور اقلیتوں کو جعلی نظامِ پارلیمان کی پیداوار روبوٹس کے ذریعے بنیادی حقوق سے بھی قانونی طور پر محروم کیا جاسکتا ہے۔
کس ترکیب سے سماج کو بنیاد پرستی اور ہیروئن کی لت لگوا کر ہاتھ میں کلاشنکوف تھمائی جاتی ہے۔
اگر ضیا الحق کا دور نہ آتا تو یہ کیسے معلوم ہوتا کہ کونسے اہلِ قلم فراز کے اس شعر کے اہل ہیں کہ
بس اس قدر تھا کہ دربار سے بلاوا تھا
گداگرانِ سخن کے ہجوم سامنے تھے
یہ کیسے معلوم ہوتا کہ جن لوگوں کو علما و مشائخ کی ٹوپی پہنائی جا رہی ہے ان میں سے کتنے مردانِ درویش ہیں اور کتنے فرقہ دسترخوانیہ سے تعلق رکھتے ہیں۔
خود صحافت و صحافیوں کی تربیت جس طرح سے ضیا الحق دور میں ہوئی کیا کسی اور زمانے میں ممکن تھی؟
اسیر جراتِ پرواز آزمانے لگے
وہ تازیانے لگے، ہوش سب ٹھکانے لگے
اور سب سے بڑھ کر سنسر شپ کا سنہری تجربہ! عالم یہ تھا کہ محکمہ اطلاعات کا غریب افسر
صادق از بنگال، جعفر از دکن
ننگِ ملت، ننگِ دیں، ننگِ وطن
جیسے مشہور شعر میں سے دوسرا مصرعہ یہ کہہ کر اخباری کاپی سے اکھاڑ دیتا تھا کہ اس سے فحاشی کی بو آتی ہے۔ حتی کہ صحافی ’برہنہ ذہنیت‘ یا ’ ننگے پاؤں‘ لکھتے ہوئے بھی کئی بار سوچتا تھا۔
وزیرِ اطلاعات محمود اعظم فاروقی، راجہ ظفرالحق اور سیکرٹری اطلاعات جنرل مجیب کے ہوتے ہوئے کس مائی کے لال میں جرات تھی کہ قائدِ اعظم کی گیارہ اگست والی تقریر اور علامہ اقبال کے
گلا تو گھونٹ دیا اہلِ مدرسہ نے ترا
کہاں سے آئے صدا لا الہ الا اللہ
جیسے غیر شرعی اشعار شائع کرسکے۔
محکمہ اطلاعات نے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا کہ کسی طرح محمد علی جناح کے افکار کو ٹخنوں سے اونچی شلوار بندھوادے اور محمد اقبال کو سرسیّد کی تصویر سے بدل دے۔
ایک صحافی کے بقول یہ تک پریس ایڈوائس آئی کہ اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم کے برابر میں ضیاء رجیم نہ چھاپا جائے۔
ضیا دور میں منطق کے شعبے میں بھی عظیم الشان کام ہوئے۔ انیس سو چوراسی میں ناجائز صدارت کو جائز کرنے کے لیے ریفرنڈم میں یہ سوال پوچھا گیا کہ کیا آپ نفاذِ شریعت چاہتے ہیں۔ اگر ہاں تو پھر جنرل محمد ضیاء الحق اگلے پانچ برس کے لیے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر ہیں۔
اس پر معروف فلاسفر سیّد محمد تقی نے تبصرہ کیا کہ صاحب منطقی اعتبار سے ریفرنڈم والا سوال ایسا ہی ہے جیسے میں آپ سے پوچھوں کہ کیا آپ بینگن کو سبزی مانتے ہیں۔ اگر ہاں تو پھر آم بھی آج سے سبزی ہے۔
اور تو اور شعبہ آبکاری بھی ضیائی اثرات سے نہ بچ سکا۔ خیرپور کے ایک گوٹھ میں تکیے پر بھنگ گھوٹنے والے اللہ ڈینو ملنگ نے مجھ سے کہا۔ آؤ تمہیں مارشل لائی بوٹی پلواؤں۔ میں نے پوچھا یہ مارشل لائی بوٹی کیا بلا ہے۔ کہنے لگا سائیں زبردست پتہ ہے۔ ایک دفعہ میرے ہاتھ سے پی کر دیکھو۔ لگے گا جیسے ٹکٹکی پر بندھ گئے ہو۔
ہائے کیا وقت تھا جو بیت گیا
اب جو سوچوں تو آنکھ بھر آوے
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)
یہ بھی پڑھیں:
قصور خان صاحب کا بھی نہیں۔۔۔وسعت اللہ خان
اس جملے کو اب بخش دیجئے ۔۔۔وسعت اللہ خان
کیا آیندہ کو پھانسی دی جا سکتی ہے ؟۔۔۔وسعت اللہ خان
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر