دسمبر 27, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ورنہ ہونے کو کیا نہیں ہو رہا||عفت حسن رضوی

صرف مغرب پہ سماجی ڈھانچے کے زوال کا بوجھ ڈالنا درست نہیں، انہوں نے جنسی مذہبی یا سماجی بے راہ روی اور کشمکش کے ننگے جسم کو قانون اور حقوق کا لباس دے دیا۔ مگر جدید دور کی یہ عجیب جدت ہمارے یہاں آ دھمکی تو کیا ہوگا، کبھی سوچا؟

عفت حسن رضوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ موضوع ہمارے لوگوں کے لیے بولڈ ہے، سماجی حدوں سے باہر ہے، بہت سے پاکستانی قارئین کے لیے شاید اس مضمون میں کی گئی باتیں ہمارے معاشرے سے تعلق نہیں رکھتیں۔ لیکن اگر دنیا کو گلوبل ویلج کہتے ہیں تو سمجھنا پڑے گا۔

جیسے ہوا، پرندے، خیال اور افواہیں سرحد، فاصلہ رکاوٹ سے بےنیاز ہوتے ہیں ایسے ہی جدید دور میں ٹیکنالوجی، سماجی کشمکش، وسوسے، کنفیوژن، ٹرینڈ اور وبا کسی کے روکے نہیں رک رہے۔ ظاہر ہے جسمانی، زمانی اور مکانی فاصلے تو وہی ہیں لیکن ذہنی سطح، نفسیاتی معاملے اور سماجی زندگی کے تانے بانے اب ایک ہی دھاگے میں ساری دنیا کو پرو رہے ہیں۔

انفارمیشن ٹیکنالوجی نے سماج کے یہ ٹانکے بہت پیچیدہ اور گنجلک بنا دیے ہیں۔ اس لیے اب یہ کہہ کر کندھے نہیں اُچکا سکتے کہ احتجاج شکاگو میں ہو رہا ہے، ہم کیا کریں، کارڈف کے سماجی حلقوں میں بحث چھڑ گئی ہم کو اس سے کیا۔ جرمن شہر بون نے فلاں قانون پاس کر لیا، تو کرتا رہے، ان کی مرضی۔

اگر آج مغرب کا نوجوان اپنے مذہب، اپنی جنس اور اپنے سماجی رشتوں کو ایک قابل بحث موضوع گردانتا ہے، وہ زندگی کے ان اہم لوازمات کو کسی منطقی نتیجے پہ پہنچنے تک غیرحتمی ہی رہنے دینا چاہتا ہے تو اس نئے سماجی ٹرینڈ کو مغرب سے میلوں دور پاکستان میں بیٹھ کر پڑھنا، اسے سمجھنا، اس کےنفع نقصان پہ بات کرنا ہمارے لیے بھی اہم ہے۔

جون کا مہینہ ہم جنس پرست پرائیڈ یعنی فخر کے طور پہ مناتے ہیں۔ امریکی شہر ڈینور میں 2015 میں ایک پرائڈ پریڈ دیکھنے کا موقع ملا۔ اول اول تو کچھ پلے نہیں پڑا کیونکہ متبادل جنس، بیک وقت مرد و عورت کی جنس رکھنا، پیچیدہ جنسی پہچان، یا کسی بھی فرد کےجنسی رجحان ہمارے یہاں سرے سے کوئی موضوع ہی نہیں۔

مغربی ممالک میں صنفی پہچان کی پیچیدگی اس حد تک ہے کہ اب صرف ٹرانس جینڈر یا ہوموسیکشوئل یعنی ہم جنس پرست نہیں، اس فہرست میں کوئیر، پین، بائی اور انٹر سیکشوئل افراد کا اضافہ ہوا ہے۔

 ہماری جنرل نالج کے مطابق مرد، عورت اور بہت کم تعداد میں پیدائشی خواجہ سرا یہ تین جنس ہیں۔ مگر پچھلی کچھ دہائیوں سے مغرب میں جنسی پہچان اور رجحان کی کئی اقسام ابھری ہیں۔ یہاں تک کہ اب یہ فیشن بھی دیکھاگیا کہ بچے کی پیدائش پہ اس کی جنس کا خانہ خالی رکھو تاکہ وہ باشعور ہو کر اپنی مرضی سے اپنی جنس فائنل کرے۔

جیسے جنس کا تعین بہت سے اندیشوں اور شکوک میں گھرا ہے ایسے ہی مغرب میں شادی، اولاد اور خاندان جیسے سماجی معاہدوں اور رشتوں کو بھی چیلنج کا سامنا ہے۔ شادی کی جگہ ایک تصور تو وہی پارٹنر شپ والا ہے، یہ شادی کی کاغذی اور مذہبی کارروائی سے آزاد سماجی رشتہ ہے۔ دو افراد کے ایک جوڑے کی شکل میں رہنے کی اور بھی کئی اقسام نکل رہی ہیں۔

عورت سے عورت کا، مرد سے مرد کا، خواجہ سرا یا کویئر سے مرد کا اور خواجہ سرا یا کویئر سے عورت کا جنسی تعلق بہت سے مغربی ممالک میں اب قانونی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ فیملی کہلاتے ہیں۔ تعلیمی اداروں، دفاتر یہاں تک کہ حکومت میں بھی اب فیصلہ سازی ایسے پیچیدہ جنسی رجحان رکھنے والوں کو سامنے رکھ کر کی جا رہی ہے۔

جنسی رجحان کے حقوق کی تنظیمیں اب پریشر گروپ میں ڈھل رہی ہیں۔ کئی تنظیموں کا حکومتوں اور نجی اداروں سے مطالبہ ہے کہ جینڈر رول یعنی صنفی کردار میں جنسی پہچان ختم کی جائے۔ جیسے کہ ہم جنس پرست جوڑے کے یہاں بچے کی پیدائش یا گود لینے پہ لفظ ماں نہیں لفظ ’پیرنٹ‘ یعنی والدین استعمال کیا جائے۔

کچھ ایسی ہی عجب صورت حال مغرب کے نوجوانوں میں مذہبی شناخت کے حوالے سے ہے۔ کنفیوژن ہی کنفیوژن ہے۔ مغرب کے  نوجوانوں کی بڑی تعداد اپنی مذہبی شناخت کے حوالے سے فی الحال کسی فیصلے پہ نہیں پہنچی۔

کوئی کہتا ہے کہ اسے سرے سے مذہب پہ یقین نہیں پھر بھی تمام مذاہب کا احترام کرتا ہے، کوئی ابھی مختلف مذاہب پڑھ رہا ہے جو سمجھ آ گیا وہی اس کا مذہب ہو گا، کچھ مذہب کو سائنس کے عدسے سے دیکھ رہے ہیں۔ مذہبی نظریے اس حد تک بےیقینی کی فضا میں تیر رہے ہیں کہ نوجوان مذہب کو ’اوپن فار ڈیبیٹ‘ کہہ کر بحث ہی ختم کر دیتے ہیں۔

جب انسان کی نفسیات، اس کے جسمانی تقاضے اور روحانی ضرورت پوری کرنے کے لیے فطری نظریات الٹ پلٹ کر دیے جائیں تو اجتماعی تذبذب کی ماری غیرمطمئن نسل پروان چڑھتی ہے۔ جسے نہ ایک مذہبی نظریہ مکمل محسوس ہوتا ہے نہ ایک جنس کا چولا پورا آتا ہے۔

ویسے تو مغرب کیا، مشرق کیا اگر فریڈم آف چوائس یعنی انتخاب کی آزادی کا دائرہ لامحدود کر دیں، پبلک کو کھلی چھٹی دے دیں تو نتائج یہی ہوں گے۔ لاحاصل کی تمنا اور لایعنی کی کھوج۔

تحریر اس بات پہ ختم ہوسکتی ہے لیکن صرف مغرب پہ سماجی ڈھانچے کے زوال کا بوجھ ڈالنا درست نہیں، انہوں نے جنسی مذہبی یا سماجی بے راہ روی اور کشمکش کے ننگے جسم کو قانون اور حقوق کا لباس دے دیا۔ مگر جدید دور کی یہ عجیب جدت ہمارے یہاں آ دھمکی تو کیا ہوگا، کبھی سوچا؟

ہم، ہمارا معاشرہ، مذہب اور قانون تو بغیر کسی تذبذب کے تمام غیر فطری غیراخلاقی جنسی رویوں اور مذہبی نظریات میں شکوک کو ناقابل قبول مانتا ہے اسی لیے مذہب پہ مکالمہ ہونے کا کوئی رواج نہیں۔

رہ گئی جنسیات تو وہ خیر سے پڑھائی نہیں جاتی۔ پھر بھی مدارس، کالج، یونیورسٹیوں سے لے کر گاؤں کے کھیتوں تک ہونے والی جنسی زیادتی کے واقعات، نشانہ بننے والے کم عمر لڑکے، بچے، بچیاں، خواجہ سرا اور خواتین کی تعداد، جسم فروشی کے کاروبار میں ٹرانس جینڈرز کا غلط استعمال، کم عمر لڑکوں سے زیادتی اور ویڈیوز بنانے کے واقعات، شادی سے باہر جنسی تعلقات، اوپن ریلیشن شپ وغیرہ کیا کیا کچھ ہے۔

 منافقت کرتے ہیں وہ بات اور ہے، کھلے بندوں اچھا ہم ایسی ویسی کسی بات کو نہیں سمجھتے مگر سچ تو یہ ہے دوستوں کہ ہونے کو کیا نہیں ہو رہا۔

نوٹ: یہ مضمون مصنفہ کی ذاتی رائے پر مبنی ہے ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

یہ بھی پڑھیے:

دے دھرنا۔۔۔عفت حسن رضوی

کامریڈ خدا حافظ۔۔۔عفت حسن رضوی

ابا جان کی نصیحت لے ڈوبی۔۔۔عفت حسن رضوی

ہزارہ: میں اسی قبیلے کا آدمی ہوں۔۔۔عفت حسن رضوی

خاں صاحب! آپ کو گمراہ کیا جارہا ہے۔۔۔عفت حسن رضوی

فحاشی (وہ مضمون جسے کئی بار لکھا اور مٹایا گیا)۔۔۔عفت حسن رضوی

عفت حسن رضوی کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author