رؤف لُنڈ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"کوہ ماڑی ” ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صحت افزاء اور مسرت انگیز مقام ، مگر سانسوں کا بوجھ اٹھائے زندگی میں مبتلاء لوگوں کی دکھوں بھری آماجگاہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ضلع راجن پور کا صحت افزاء مقام ماڑی ، جس کی وجہ تسمیہ اصلاً پتہ نہیں کیا ہو تاھم تاریخی اور علاقائی پس منظر مطابق یک منزلہ کچی عمارتوں کے دور میں پختہ اینٹوں سے بنی دو یا دو سے زائد منزلہ ( باقیوں سے اونچی) عمارت کو ماڑی کہا جاتا تھا۔ اپنے ارد گرد کے پہاڑی سلسلوں میں موجود اس اونچے ، ٹھنڈے اور خوشگوار مقام ماڑی کو آٹھ دس ذاتی/محلہ دار دوستوں کے ساتھ جانے اور تین چار دن رہنے کا موقع ملا۔ پہلے بھی کئی بار جانے کا اتفاق ہوا مگر ہر بار محسوسات نے مختلف رنگ دکھلایا ، اس بار شاید پہلے سے زیادہ خوشی اور پہلے سے زیادہ تکلیف کے ملے جلے اثرات لے کے لوٹنا ہوا۔ خوشی اس بات کی کہ بے تکف اور پیارے دوستوں کا ساتھ نصیب تھا۔ اور تکلیف دہ احساس ماڑی کے سینے میں دفن پٹرول اور گیس وغیرہ کے ذخائر کی استحصالی پنجوں سے کھدائی اور تلاش کی جدید ترین مشینریوں کی گھن گرج اور چکا چوند کی موجودگی میں وہاں صدیوں سے انسانی شکل میں رینگتے کیڑوں کی حالتِ زار دیکھ کے ہوئی۔ آج جب دنیا چاند کے بعد باقی سیاروں میں پہنچنے کی تگ و دو میں لگی ھے اور ھم ایٹمی قوت ہونے کے باوجود نت نئے میزائلوں اور راکٹوں کی تیاری میں لگے ہوئے ہیں ( اور پتہ نہیں کہ گھر میں کلاشنکوفیں رکھنے کے باوجود تیر سازی جاری رکھنا کس مذاق کی غمازی ھے ) ، مگر اس سماج میں پتھروں پہ چلتے پیروں میں جوتی ، گرمی اور سردی میں ریوڑ چلاتے جسموں پر لباس اور شب و روز نت نئے انداز میں ذلت سہتے پیٹ اور زبانیں رزق کے ذائقوں سے نا آشنا و محروم چلے آ رھے ہیں ۔ آج وہاں مسافروں کیلئے پانی کے گھڑے گزری صدیوں کے ٹھہر جانے کی گواھی دینے کو موجود ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں ماڑی پر اور راستہ میں صحابیوں ، ولیوں اور ان کے خلیفوں کے مزارات ہیں جہاں امیر لوگ جانے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے کہ ان کی مرادیں خود اپنے ہاتھ میں ہیں۔ اور جو غریب کچھ لینے یا مانگنے جاتے ہیں ان کا بڑا پن دیکھئے کہ وہ مزارات پر خالی ہاتھ نہیں جاتے اور کچھ دئیے بغیر نہیں لوٹتے۔ جن کے پاس دینے کو کچھ نہیں بھی ہوتا تو بھی وہ مزار کے باہر رکھے ایک بڑے پتھر پر بیٹیوں کی ٹوٹی چوڑیاں ، گھر کے پرانے برتن، دروازوں سے اکھڑے کنڈے، جانوروں کے گلے سے اتاری گھنٹیاں ، کہیں سے اچانک مل جانے والی موٹرسائیکل کی کوئی چابی یا کسی کی بیکار سمجھ کے پھینک دئیے جانے والی ایک شیشے کی عینک بھی اسی پھر پر رکھ آتے ہیں۔
اور اسی طرح دربار کے احاطہ یا باہر اگے درختوں پر اپنی عفت مآب خواتین کے گلے سڑے کپڑوں کے چیتھڑے لٹکا آتے ہیں کہ شاید کبھی آسمان نظریں جھکا کے ادھر ہماری حالت بھی دیکھ لے۔ کتنی حیرانی کی بات ھے اور شرافت کا کتنا بلند میعار ھے کہ دعاؤں پر یقین رکھنے والے یہ خانماں برباد ان مزاروں پر ان خبیث سرداروں ، وڈیروں اور سرمایہ داروں کیلئے بھی بد دعا نہیں کرتے کہ جنکی وجہ سے وہ نسل در نسل ان ذلتوں کا شکار ہیں ۔۔۔۔۔۔۔
آج ذخائر کھودنے والے حکمران اگر ان گزرے وقتوں کی ضرب الامثال پر غور کریں کہ جب شرم و حیا جیسے لفظوں کی وقعت ابھی باقی تھی تو وہ جس درخت کے سائے میں بیٹھیں اسی کی خیر منائیں تو بہت تھوڑے پیسوں میں(صرف اتنے پیسوں میں جو روزانہ محنت مزدوری کی ادائیگی کے کھاتے میں لکھے جار ھے ہیں مگر ادا نہیں ہو رھے) مقامی لوگوں کو پینے کا صاف پانی فراہم مہیا ہو سکتا ھے۔ ان کے جانوروں کیلئے تالاب بنائے جا سکتے ہیں۔ مقامی لوگوں کو بھرتی کرکے (کٹوتی کی حرامزدگی کے بغیر ) مکمل تنخواہ ادا کر کے پھلدار درختوں سمیت ہر قسم کے شجر اگائے جا سکتے ہیں۔ روز مرہ کی سہولیات سے مستفید ہونے کیلئے ماڑی سے لُنڈی سیدان پبلک ٹرانسپورٹ چلائی جا سکتی ھے۔ ہسپتالوں اور سکولوں کو گھر بیٹھے تنخواہیں وصول کرنے والے ازدہوں کی بجائے موقع پر ڈیوٹی سرانجام دینے والوں کو علاج اور تعلیم کی ضرورتیں مہیا کی جا سکتی ہیں۔ لوگوں کو اپنے آبائی جھونپڑوں سے نکال کر جدید چھوٹا شہر آباد کئے جا سکتا ھے۔ جہاں وہ پڑھنے والے اپنے بچوں کو ایک جگہ رکھ کر ان کی اور اپنی دیکھ بھال کرسکیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ سب اور اس کے علاوہ سب کچھ ہو سکتا ھے۔ پہلی شکل میں ان چیزوں کی مانگ اور مطالبات میں آواز بلند کر کے ، دوسری شکل میں عوامی آوازوں پر کان نہ دھرنے والے ان حکمرانوں کے گریبان پکڑ کر، ان کو کھیتوں کھلیان ، گلیوں محلوں اور سڑکوں پر گھسیٹ کر ، یہیں پہ محشر بپا کر کے۔ یہیں جزا و سزا دے کر ۔ اور اسی زمیں پر ھی سوشلسٹ سویرا ابھار کر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مبارک باد اور سرخ سلام۔۔۔رؤف لُنڈ
اک ذرا صبر کہ جبر کے دن تھوڑے ہیں۔۔۔رؤف لُنڈ
کامریڈ نتھومل کی جدائی ، وداع کا سفر اور سرخ سویرے کا عزم۔۔۔رؤف لُنڈ
زندگی کا سفر سر بلندی سے طے کر جانے والے کامریڈ کھبڑ خان سیلرو کو سُرخ سلام۔۔۔رؤف لُنڈ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر