دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

‎ ”تین اہم تبدیلیاں، تین بڑی کوتاہیاں (مکمل کالم)||امتیاز عالم

مودی نے پھر کشمیری قیادت کے ساتھ ہاتھ کر دیا ہے اور شاید انہیں صوبے پہ راضی بھی کر لیا ہے جس میں کشمیری قیادت صرف مقامی سول سروس اور 35۔ A کے تحت کشمیر کی نسلیاتی نوعیت کے تحفظ پہ مصر ہے۔

امتیاز عالم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گزشتہ بدھ اور جمعہ کو تین اہم واقعات دہلی، پیرس اور واشنگٹن میں ایسے ہوئے ہیں جن کے مضمرات پاکستان کے لیے نہایت دور رس ہوں گے۔ عمران حکومت ان سے کیسے نپٹے گی، اس کا اندازہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف اور وفاقی وزیر حماد اظہر کے سطحی بیانات سے کیا جاسکتا ہے۔ کیا تجاہل عارفانہ ہے۔ دہلی میں بدھ کو مودی حکومت نے 5 اگست 2019 ءکے اقدامات کے 22 ماہ بعد کشمیر کی آٹھ جماعتوں کے 14 رہنماؤں کا اجلاس طلب کر کے اپنا روڈ میپ دے دیا ہے۔ اجلاس میں گپکر اعلامیے کی حامی پیپلز الائنس کی جماعتیں بشمول فاروق عبداللہ کی نیشنل کانفرنس، محبوبہ مفتی کی پی ڈی پی شامل تھیں۔ کانگرس کی نمائندگی مودی کے دیرینہ دوست غلام نبی آزاد نے کی جو جموں و کشمیر کی آزادانہ خصوصی حیثیت کی بحالی کی بجائے ایک بھارتی صوبہ بننے پہ مطمئن تھے۔ گو کہ گپکر اعلامیہ کی پارٹیوں خاص طور پر محبوبہ مفتی نے ریاست کی پرانی حیثیت بحال کرنے اور پاکستان سے بات کرنے پہ زور دیا، سبھی انتخابی عمل میں شرکت پہ تیار نظر آئیں۔ یہ سب جماعتیں پہلے ہی مقامی حکومتوں کے انتخابات میں بھرپور شرکت کر کے کامیاب ہو چکی تھیں، مودی حکومت کے وزیر داخلہ امیت شاہ نے از سر نو حلقہ بندیوں، سیاسی قیدیوں کی رہائی، سیاسی سرگرمیوں کی بحالی اور انتخابات کے انعقاد کے ساتھ ساتھ لداخ کو یونین علاقہ برقرار رکھتے ہوئے جموں و کشمیر کو صوبائی درجہ دینے کا منصوبہ پیش کیا جبکہ آرٹیکل 370، 35۔ A کے معاملے کو زیر بحث نہیں لانے دیا گیا کہ معاملہ سپریم کورٹ میں ہے۔ غلام نبی آزاد اور عمر عبداللہ نے اسے قبول کر لیا۔ ساڑھے تین گھنٹے کی ملاقات کا ماحول انتہائی دوستانہ قرار دیا گیا۔ اگر کوئی اختلاف سامنے آیا تو بس حلقہ بندیوں پر۔

مودی نے پھر کشمیری قیادت کے ساتھ ہاتھ کر دیا ہے اور شاید انہیں صوبے پہ راضی بھی کر لیا ہے جس میں کشمیری قیادت صرف مقامی سول سروس اور 35۔ A کے تحت کشمیر کی نسلیاتی نوعیت کے تحفظ پہ مصر ہے۔ مودی نے 70 برس بعد وہی ہاتھ کیا ہے جو جواہر لعل نہرو نے 1949 ء میں شیخ عبداللہ کے ساتھ کیا تھا۔ مودی بھول گئے کہ یوں تو ”دلی سے دوری اور دل کی دوری“ دور ہونے سے رہی۔ عوام کی منشا کے قتل پہ دل کب جڑتے ہیں؟ اب کوئی شاہ محمود قریشی سے پوچھے کہ یہ تبدیلی محض تعلقات عامہ کی کارروائی کیسے ہوئی۔ بلکہ پوچھنا تو یہ چاہیے کہ عمران حکومت نے بھارت سے بات چیت کے لیے آرٹیکل 370، 35۔ A اور مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی بحالی کی شرائط کیوں عائد کی تھیں۔ پاکستان نے سرکاری طور پر کبھی بھی ریاست کشمیر کی خصوصی حیثیت کو تسلیم نہیں کیا تھا۔ غالباً وہ حلقے یقیناً مطمئن ہوں گے جو گلگت و بلتستان کو صوبہ بنا چکے اور آزاد کشمیر کو سابقہ فاٹا کی سطح پر رکھنا چاہتے ہیں۔ بھارت نے لداخ کو یونین علاقہ بنالیا اور پاکستان نے گلگت و بلتستان کو صوبہ۔ اس کے بعد شاید ”آزاد“ کشمیر کی باری ہو جہاں اگلے انتخابات میں پاکستان کی تینوں جماعتیں (آزاد) کشمیر بنے گا پاکستان کے نعرے پہ انتخابات لڑیں گی اور ہوگا وہی جو گلگت و بلتستان کے انتخابات میں ہوا۔ کہیں اپنے اپنے مقبوضہ کشمیروں کو پکا مقبوضہ بنانے اور باہم تقسیم کرنے کا اہتمام تو نہیں ہو گیا؟ یہی تو کم و بیش لاہور میں نواز شریف اور اٹل بہاری واجپائی اور جنرل مشرف اور وزیراعظم من موہن سنگھ کے بیچ چار نکاتی فارمولے کی صورت طے پایا تھا۔ کشمیریوں کو حق خود ارادیت نہ ہندوستان نے دینا ہے، نہ پاکستان نے، انہیں جبر سے آزاد اور اپنی مرضی سے پرامن زندگی گزارنے کا تو کوئی راستہ نکالنا چاہیے۔ اور پاکستان اور بھارت کو اپنے تعلقات پہ از سر نو غور کرنے کے لیے بات چیت شروع کرنی چاہیے، دیواروں سے ٹکریں مارتے رہنا کوئی عقلمندی نہیں۔

دوسرا اہم واقعہ جمعہ کو پیرس میں ایف اے ٹی ایف کے اجلاس میں ہوا جب فائنانشل ٹاسک فورس نے پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھتے ہوئے باہمی کڑی نگرانی کے تحت مزید چھ بڑے اقدامات اور 27 میں سے ایک سب سے کڑے نکتے پہ پھر سے باندھ دیا ہے۔ جو بہت ہی سخت شرط ہے وہ یہ ہے کہ جن تنظیموں اور افراد کو اقوام متحدہ نے دہشت گرد قرار دیا ہوا ہے، ان کے اور ان کے اثاثوں کے خلاف موثر ترین، نتیجہ خیز اور ناقابل تنسیخ تادیبی اقدامات کیے جائیں۔ پاکستان نے یو این کی دہشت گرد قرار تنظیموں پر پابندیاں تو لگا دیں جن میں لشکر طیبہ، جیش محمود، جماعت الدعوة، حقانی نیٹ ورک، فلاح انسانیت و دیگر تنظیمیں شامل ہیں۔ لیکن موقع پہ نگرانی کے نظام اور دو طرفہ قانونی اعانت کے باوجود پاکستان کے اقدامات کو قابل اعتماد نہیں پایا گیا۔ اب مزید ایک برس پاکستان کی سابقہ سٹریٹیجک اثاثوں کے حوالے سے پوچھ گچھ اور تادیب جاری رہے گی۔ حافظ سعید کے گھر کے قریب بارودی دھماکہ ظاہر کرتا ہے کہ اگر پاکستان مزید کچھ نہیں کرتا تو کوئی اور کچھ بھی کر سکتا ہے۔ یہ سب ہماری پرانی سٹریٹیجک نادانیوں اور مہم جوئیوں کا انعام ہے جو قوم کو جانے کب تک بھگتنا پڑے۔

تیسرا اہم واقعہ واشنگٹن میں صدر بائیڈن اور افغان صدر اشرف غنی اور ان کے حریف عبداللہ عبداللہ کی ملاقات کی صورت سامنے آیا ہے جبکہ پاکستان کے وزیراعظم کو اب تک ایک ٹیلیفون کال کے قابل بھی نہیں سمجھا گیا۔ صدر بائیڈن نے افغانستان سے امریکی اور ناٹو افواج کے انخلا کو جولائی میں مکمل کرنے پہ اپنے عزم کو دہرایا ہے اور صرف چھ سات سو امریکی فوجی سفارتی عملے کی حفاظت پر مامور رہیں گے۔ سکیورٹی، معاشی، انٹیلی جنس اور تربیتی امداد جاری رہے گی۔ سکیورٹی کے لیے 3.3 ارب ڈالرز و دیگر امداد دی جائے گی۔ امریکی خارجہ سیکرٹری، سلامتی کے مشیر اور وزارت دفاع نے افغانستان کو دوبارہ دہشت گردی کا اڈہ بننے سے روکنے اور طالبان کے بزور طاقت کابل پہ قبضہ کرنے کے خلاف سخت پوزیشن اختیار کی ہے اور انہیں اس کام کے لیے کسی ”تیسرے ملک“ کی تلاش ہے۔ پینٹاگون کے اندازے کے مطابق افغان حکومت بمشکل چھ ماہ گزار پائے گی اور افغانستان خانہ جنگی کی نذر ہو جائے گا۔ افغانستان کے 419 اضلاع میں سے 81 پر طالبان کا قبضہ ہو چکا ہے اور افغان فوج اور مقامی ملیشیاز کے ساتھ جنگ کا دائر وسیع تر ہوتا جا رہا ہے۔ لگتا ہے کہ طالبان کابل نہیں تو زیادہ تر افغانستان پر قابض ہوجائیں گے اور اس طوائف الملوکی کا شکار افغان عوام کے بعد پاکستان کے شمال مغربی علاقوں کے عوام ہوں گے۔ لاکھوں مہاجرین کے ساتھ ساتھ دہشتگردی کا عفریت پھر سر اٹھائے گا۔ جن افغان طالبان کو 20 برس سے پناہ دینے کا الزام پاکستان پر لگایا جاتا ہے وہ اب پھر فاتح ہو کر ابھریں گے اور تاریخ کا پہیہ پیچھے گھمانے کے لیے جہاد جاری رکھیں گے۔ ان کی قبائلی ضد اور امارات اسلامیہ افغانستان بمع امیر پہ اصرار انہیں پھر دنیا سے ٹکرائے گا اور پاکستان کو اس سے نتھی کر دیا جائے گا یا پھر طالبان سے لڑنے پہ مجبور۔ آخر ستر ہزار لوگوں کو مروا کر افغان طالبان کی کامیابی پہ مقتدرہ اب پریشان کیوں ہے۔ جو بویا تھا وہی کاٹو گے۔

امتیاز عالم کے مزید کالم پڑھیے

About The Author