ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہن….
تیری ماں دی…..
تیری بہن دی….
تیری دھی نوں….
بہن کو….
ماں کو…
بچپن میں گلی محلے میں کھیلتے ہوئے، سڑک پر چلتے چلتے، کسی تقریب میں، بازار میں کسی دوکان پہ، بس میں سفر کے دوران، بس سٹاپ پر انتظار کرتے ہوئے یہ لفظ کان میں پڑتے جن کا مطلب قطعی سمجھ میں نہ آتا۔
اب ہمارے سوالات کے جواب تو ایک ہی ہستی کے پاس ہوا کرتے تھے سو آپا کے سر ہو جاتے کہ اس کا کیا معنی؟
آپا کے کان ہماری بات سنتے ہی ایک دم سرخ ہو جاتے اور وہ جھنجھلا کے کہتیں،
” یہ تم کیا گندی باتیں سن کے آ جاتی ہو؟”
“لو، ہر کوئی تو اونچا اونچا کہہ رہا تھا یہ، اگر ایسی ہی گندی بات ہوتی تو کرتا ہی کیوں؟”
“اف خدایا، یہ گندی بات ہے، بہت گندی بات”
“تو ان لوگوں نے گندی بات ماں بہن بیٹی کے لئے کیوں کہی؟ باپ، بھائی اور بیٹے کا نام کیوں نہیں لیا؟”
اب آپا اپنے بال نوچنے والی ہو جاتیں ، اور زیر لب بڑبڑاتیں ….یا الله اب یہ گالیاں بھی نئی ایجاد کریں گی۔
انہی ماں بہن کے اعضاء کی تعریف سنتے سنتے ہم بڑے ہو گئے اور انکشاف یہ ہوا کہ اس حمام میں تو پورا معاشرہ ننگا ہے۔ ہم تو بازار اور گلی محلے کو رو رہے تھے، وہاں پارلیمنٹ اور قومی اسمبلی میں بیٹھے ہوؤں کی زبان پر بھی یہی ورد نظر آیا۔
وطن عزیز میں ریپ کلچر کی وجوہات عورت اور اس کے لباس پہ لادنے سے پہلے کسی نے اپنے گریبان میں جھانک کے یہ نہیں سوچا کہ ریپ وہ منزل ہے جس کی طرف چلنے کا آغاز لاشعوری طور پہ برسوں پہلے ہو جاتا ہے۔
جب ملک عزیز کے گوشے گوشے میں عورت کو ایک ارزاں مخلوق بنا کے پیش کیا جائے، ایک ایسی چیز جس کا جسم تخیل میں ہر وقت آپ کے رحم و کرم پہ ہو۔
جب ہر مسئلے ، ہر مشکل، ہر پریشانی، جوش، جذبات، اختیار، غصے، بے چینی، اضطراب، چڑچڑے پن، ڈپریشن اور غم کا علاج ماسوائے اس کے کچھ اور نہ ہو کہ زبان سے عورت کے جنسی اعضاء سے کھیلنے کی تمنا بلا کسی جھجھک کی جائے۔
جب دوسرے کی ماں بہن بیٹی کو روند دینے کی خواہش زبان کی نوک پر رکھی ہو, اپنے اندر کا اضطراب عورت کے جسم پہ انڈیلنے کی آگ جل رہی ہو۔
جب کچھ نہ بھی ہو تب بھی تفنن طبع کے لئے عورت کے جسم کا ذکر چٹخارے لے کر کیا جائے یا عادت اس قدر پختہ ہو کہ یہ الفاظ تکیہ کلام بن جائیں۔
دوستوں کی محفل ادھوری سمجھی جائے ہو اگر چٹپٹے جنسی لطائف نہ سنائے جائیں اور عورت کے جسم پہ پھبتیاں کس کے حظ نہ اٹھایا جائے۔
جب عورت کو جنسی تعلق قائم کرنے کا آلہ سمجھا جائے، جو بوقت ضرورت مرد کی ضرورت اپنے وجود میں سمیٹ سکے۔
جب عورت کو چھونا اپنا حق سمجھا جائے اور عورت کی مزاحمت یا انکار کو اپنی ایگو کا مسئلہ بنا لیا جائے۔جب عورت کے اعضاء پہ مرد کی آنکھ سانپ بن کر ڈسنے کو ہر وقت تیار ہو اور ہاتھ رینگتے ہوئے حشرات الارض بنے رہیں۔
تو ہمیں بتائیے کہ ایسی گفتگو ایسی ذہنیت اور ایسا ماحول ریپسٹ کیوں نہ پیدا کرے؟ عورت کو عزت کے قابل کیوں سمجھے؟
اگر آپ الفاظ کی تاثیر سے ناآشنا ہیں تو جان لیجیے کہ تحقیق کے مطابق الفاظ میں بھری توانائی کائنات میں ہر طرف پھیل کر اپنا اثر دکھاتی ہے۔ جب الفاظ خالق کائنات کے حضور پہنچ کر مرادیں پوری کروا سکتے ہیں، آسمان سے نالوں کا جواب آ سکتا ہے، الفاظ مسیحائی کر سکتے ہیں، ٹوٹے دلوں پہ مرہم لگا سکتے ہیں تو الفاظ ذات میں شگاف ڈال کے زخمی کیوں نہیں کر سکتے؟
صاحب، جس طرح مقدس الفاظ کی حرمت ہوتی ہے اور ان کا ورد ثواب و توقیر کی آس میں کیا جاتا ہے اسی طرح ذلت اور تحقیر میں لپٹے الفاظ سنپولیے بن جاتے ہیں، زہر سے بجھے جن کے ڈنک سے معاشرے کا جسم نیلا پڑ جاتا ہے۔ احساس کی لو بجھنے لگتی ہے اور جنگل کے قواعد ہر طرف نافذ ہونے لگتے ہیں جہاں طاقتور کی مرضی ہی قانون ہوتی ہے۔
ماں بہن کو….. سے پہلے خدارا سوچ لیجیے کہ کہیں کسی اور مقام پہ کوئی آپ جیسا آپ کی ماں بہن کو ایسی ذلت سے نواز رہا ہو گا اور ڈریے اس وقت سے جب باتوں کی اوٹ میں رکھا ہوا ارادہ زبانی جمع خرچ سے نکل کر عملی جامہ پہن لے۔
یہ بھی پڑھیے:
اسقاط حمل میں عورت پر کیا گزرتی ہے؟۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
کاظمی اینڈ سنز عرف سترہ برس کا بیٹا۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر