ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صاحب، رنج کی شدت اس قدر ہے کہ ہم خود کلامی کے مرض میں مبتلا ہو کر کچھ سوال اپنے آپ سے پوچھے چلے جا رہے ہیں؟
اگر ریپ عورت کے کپڑوں سے متعلق ہے تو زینب فرشتہ اور ان جیسی لاکھوں بچیاں کیا پہن کر سامنے آتی ہیں کہ ریپسٹ اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھتا ہے؟
قبر میں لیٹنے والی عورتوں کا کفن کیا اس قدر ناکافی ہوتا ہے کہ بہت سے معصوم ریپسٹ مردہ جسم کے بلاوے کو رد نہیں کر پاتے اور انہیں نصف شب میں قبر کھودنے کی مشقت کرنی پڑ جاتی ہے؟
دودھ پیتی بچی اور قبر کے دہانے پر پہنچی عمر رسیدہ عورت کے جسم میں ایسی کونسی مقناطیسی قوت باقی رہتی ہے جو ریپسٹ کو بے قرار کر دیتی ہے؟
مختاراں مائی اور ان جیسی بہت سی محنت کش عورتیں نہ جانے کس طرح اپنے غربت زدہ نحیف جسم سے ریپسٹ کو پاگل بناتی ہیں؟
نوعمر لڑکوں کے جسمانی نشیب وفراز نہ جانے کس طرح بہت سوں کے جذبات کو برانگیخته کرتے ہیں ؟
بکری اور گدھی سے جنسی شغل کرنے والے یقیناً فاتر العقل تو نہیں ہوں گے؟
بہن اور بیٹی کے جسم سے کھیلنے والے بھائی اور باپ یقیناً بیٹی اور بہن کے بستر پہ غلطی سے نہیں پہنچتے ہوں گے؟
ہر دور کی ہر جنگ میں ریپ کا شکار بننے والی بے شمار عورتیں نہ جانے کیسے حملہ آوروں کو دعوت نظارہ دیتی ہوں گی؟
موٹر وے پہ ریپ ہونے والی عورت نے جنگل سے برامد ہونے والے کچھ بے قصور مردوں کو نہ جانے کس طرح لبھایا ہو گا؟
کبھی کبھی ہمیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہم وہ مداری ہیں جو بین بجائے چلے جا رہے ہیں اور اردگرد ایسے لوگوں کا ہجوم ہے جنہیں جہالت نے بری طرح جکڑ کے ان کی تمام حسیات کو سلب کر رکھا ہے۔
یا پھر شاید ہم وہ طوطی ہیں جو نقار خانے میں کھڑی فریاد کیے چلے جا رہی ہے لیکن کسی کے کان پہ جوں نہیں رینگتی کہ پدرسری معاشرے کے مفادات کو زک پہنچتی ہے۔
درست بھی ہے آخر کوئی کیوں سنے ایک عورت کے جسم و روح سے نکلتی آہ و پکار؟ کیا ضرورت ہے ایک کمزور اور نہتی عورت کی باتوں پہ کان دھرنے کی جب ملک کا صادق و امین رہنما ببانگ دہل اقوام عالم میں عورت کو کمتر اور قصور وار ثابت کرنے میں مصروف ہو۔
عمران خان بغیر سوچے سمجھے بات کرنے میں ید طولی رکھتے ہیں اور اس پہ افتاد یہ کہ اپنے آپ کو عقل کل بھی سمجھتے ہیں۔ انہوں نے ایک دفعہ پھر ثابت کر دیا ہے کہ آکسفورڈ سے ڈگری حضور نے تول کے مول حاصل کی ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ محترم نے مغرب کی آزادی کا مزا جی بھر کے لوٹا ہے، اولاد بھی مغرب والی ہی سے پیدا کی ہے اور پرورش کے لئے بھی مغرب ہی کے حوالے کر دی ہے۔ یعنی مغرب ان کا قبلہ تھا اور ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ اب ان کو درد اس قوم کا لاحق ہوا ہے جہاں عورت کو دو ٹکے کا نہ صرف سمجھا جاتا ہے بلکہ وقتاً فوقتاً اس کی یہ اوقات اسے یاد دلائی جاتی ہے۔
ہم اس کے علاوہ کیا کہیں کہ ہمارا معاشرہ منافق اور عقل و فہم سے عاری پدرسری معاشرہ ہے جسے اپنی بنیادوں کو مضبوط رکھنے کے لئے ہر وقت عورت کے جسم و جاں کی بھینٹ چاہیے ہوتی ہے۔ دیوتاؤں اور پیروکاروں کا کیا بگڑتا ہے آخر، داسیاں اسی لئے تو ہوتی ہیں۔
جو بھی ہو ہمیں ایک بات پہ ضرور یقین آ گیا ہے کہ جب وقت ہاتھ سے نکل جائے، عمر عزیز کے تقاضے بدل جائیں، ہاتھ میں رعشہ طاری ہو جائے تو عالم پیری میں ایسی ایسی باتیں یاد آجاتی ہیں کہ واللہ ہم جان جاتے ہیں کہ سٹھیانے میں قطعی کوئی کسر باقی نہیں رہی۔
عمران خان کو چاہیے کہ ایسے بیانات دینے سے پہلے اپنے بیٹوں سے ہی پوچھ لیا کریں کہ سنو بیٹا میں تو بیسویں صدی کا مرد ہوں، بہتی گنگا میں خوب ہاتھ دھو چکا اب تم اپنی سناؤ، کیا عورت کے لباس کے متعلق تمہارے بھی وہی خیالات ہیں جو تمہاری چھوٹی امی نے مجھے سمجھائے ہیں؟
ان کے بیٹوں کو ہم بھی ایک مشورہ دینا چاہتے ہیں کہ موقع ملے تو وہ اپنے ابا کو ریپ اور اس سے وابستہ اسباب تو سمجھا ہی دیں، پدرسری معاشرے کی عورت ان کی احسان مند رہے گی، ہماری تو وہ سننے والے نہیں۔
ویسے جمائما کو ہم مبارکباد پیش کرنا چاہتے ہیں کہ انہیں عقل دیر سے آئی مگر آ تو گئی۔ اب تو وہ اپنے بچوں کے باپ پہ ہنسنے کے سوا کچھ اور نہیں کرتی ہوں گی؟
یہ بھی پڑھیے:
اسقاط حمل میں عورت پر کیا گزرتی ہے؟۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
کاظمی اینڈ سنز عرف سترہ برس کا بیٹا۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر