محمد اکرم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
‘کسی نے کانٹا رکھا تم نے بھی کانٹا رکھا تو اس طرح ہر طرف کانٹے ہی کانٹے ہو جائیں گے’۔ حضرت نظام الدین اولیاء کا یہ قول آج ہماری زندگی اور خصوصاً وہ زندگی جو ہم سوشل میڈیا پر گزارتے ہیں، کی عملی تصویر نظر آتا ہے۔ سوشل میڈیا علم اور معلومات کا ایک سمندر ہے، ایک انمول خزانہ ہے، یہاں ایک شفیق استاد ہمیشہ آپ کو ہر وہ کام سکھانے کے لیے موجود ہوتا ہے، جس کو سیکھنے کی آپ کو ضرورت ہو۔
سوشل میڈیا آپ کو ہر درکار معلومات فوری مہیا کر کے آپ کو بااختیار اور طاقتور بناتا ہے۔ سوشل میڈیا پل بھر میں آپ کو ایسی دنیا میں لے جاتا ہے، جو آپ کی یاد سے بھی محو ہو چکی ہوتی ہے۔ لیکن یہ کیا کہ ہم سوشل میڈیا کی اس جدید اور خواب جیسی دنیا کو پرخار بناتے جا رہے ہیں۔ حقیقی دنیا سے کانٹے ہٹانے والے تو بن نہ سکے مگر اب اس ورچوئل دنیا کے امرت دھارے کو گدلا کرنے پر تلے ہیں۔
سوشل میڈیا پر معلومات اور تجزیات پیش کرنے کے نام پر کانٹے بچھانے کا کام زبردست کاروبار بن چکا ہے۔ متعدد وی لاگزر اور یو ٹیوبرز عموماً بغیر تحقیق اور ذہن استعمال کیے جو دل میں آئے کہہ دیتے ہیں اور پھر نتائج سے بے پرواہ ہو کر اسے انٹرنیٹ پر برقی لہروں کے حوالے کر دیتے ہیں۔ کسی کا دل دھکے، جگر یا پھر سر ہی کٹ جائے انہیں اس سے کوئی غرض نہیں۔ غرض ہے تو صرف اس بات سے کہ کتنے لوگوں نے دیکھا، پسند کیا یا آگے بڑھایا اور یہ کہ اسے ‘پسندیدگی’ کتنی ملی اور مونیٹائزیشن کے نتیجے میں کتنے ہزار یا لاکھ روپے اکاؤنٹ میں آئے۔
پاکستانی میڈیا، جو سنسنی خیزی میں ہمیشہ سے اپنی مثال آپ رہا ہے، آج وی لاگز اور یو ٹیوبز کے ذریعے جاری نام نہاد نئی معاشرتی صحافتی صنف کی لپیٹ میں ہے۔ ایک چلبلا وی لاگ یا ٹیوب پر کوئی خانہ ساز یا خواہشات پر مبنی بات نما خبر یا تجزیہ ایسی چنگاری کا سا کام بآسانی انجام دے رہا ہے جو پل بھر میں بھوسے کے ڈھیر کو خاکستر کر دے۔
اکثر وی لاگز اور یو ٹیوبرز کی پھرتیاں ایسی کہ اڑتی پھرتی اور کچی پکی بات کو ادھر اُدھر سے اکٹھا کیا اور آٹھ دس منٹ میں ڈائنامائٹ نامی خبر یا تبصرہ تیار کیا اور پھر یہ جا یا وہ جا۔ کون جانے کس کی درگت بنے، تشدد کا نشانہ بنے، غدار کہلائے یا جھوٹے الزام پر قتل ہی کر دیا جائے۔
سوشل میڈیا پر مذہبی، مسلکی، سیاسی اور گروہی تعصبات سے بھری گفتگو وہ کانٹے ہیں، جو جا بجا بکھرے ہیں اور ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں ہر روز بکھیرے جا رہے ہیں۔ معاشرتی زندگی کی راہیں مسدود سے مسدود بنائی جا رہی ہیں۔ اس طرح کے وی لاگز میں وہ زہر اگلا جا رہا ہے کہ جس کا تریاق ڈھونڈنے سے نہ ملے۔ یہ بندر کے ہاتھ ماچس کے برابر ہے جو آناً فاناً ہرے بھرے جنگل کو شعلوں کے سپرد کرنے سے محض ایک دیا سلائی پھونکنے کی دوری پر ہے۔
ایک وقت تھا جب پاکستان میں یو ٹیوب پر مذہبی حلقوں کے دباؤ کے تحت پابندی تھی۔ یہ ویسے ہی تھا جیسے تقریبا سوا صدی پہلے لاؤڈ اسپیکر کا استعمال شیطانی عمل، تصویر کھینچوانے یا گھر میں ریڈیو، ٹیلی فون یا ٹیلی ویژن رکھنے کے خلاف فتوے دیے جاتے تھے، مگر آج یہ عالم ہے کہ یو ٹیوب سمیت تمام سوشل میڈیا سائٹس نہ صرف قبولیت حاصل کر چکی ہیں بلکہ جن کی طرف سے یہ کبھی معطون ٹھہرائیں جاتی تھیں آج ان ہی حلقوں کے ہاں مقبولیت کے ریکارڈ توڑ رہی ہیں۔
مفروضے کے طور پر اب اگر کوئی ان سوشل میڈیا سائٹس پر پابندی کا سوچے بھی تو شاید پہلی صدائے احتجاج انہیں کی جانب سے بلند ہو۔ خیر خدا اس وقت سے بچائے کہ کوئی علم کے ان خزانوں پر پابندی کا سوچے بھی۔ تاہم اسی سوشل میڈیا کو کردار کشی اور ترقی معکوس کے عمل سے بچانے کے لیے کوئی نہ کوئی راستہ تو ڈھونڈنا ہو گا کہ اسے شتر بے مہار رکھ کر سماجی اور معاشرتی انتشار کا ذریعہ نہیں بننے دینا چاہیے۔
اس پر المیہ یہ بھی کہ میڈیا گرو جو بظاہر روایتی سکہ بند صحافت کے کارپرداز ہی کیوں نہ ہوں وہ دہائیوں سے ٹیلی وژن ریٹنگ پوائنٹس(ٹی آر پی) کے ایسے دلداہ ہو چکے ہیں کہ سوشل میڈیائی ہتھکنڈوں سے خود کو بچانا بھی چاہیں تو بچا نہ سکیں گے کیونکہ اسی ٹی آر پی سے ان کی نوکری اور ان کے آجر کا کاروبار جڑا ہے، کہ اسی ٹی آر پی نے بڑے بڑے نامور اشخاص کو دھول چٹائی اور ککھ والے لاکھوں میں کھیلنے لگے، مال آنا چاہیے، کیا ہوا اگر طوفانی خبروں اور تبصروں نے عام آدمی کا ذہنی توازن ہلا کر رکھ دیا ہے۔
اس صدی کے آغاز میں پاکستان میں نیوز چینلز کا آغاز ہوا تو معلومات تک بروقت رسائی اور ان پر آزادانہ تبصروں سے میڈیا کے کاروبار کو چار چاند لگ گئے۔ ایک کے بعد دوسرا اور ایک ایک سال میں کئی کئی نیوز چینلز کھلنے لگے۔ اینکرز گھر گھر میں مقبول ہو گئے اور سیلبرٹی بننے لگے۔ ٹی وی اینکر بننا فلمسٹار بننے جیسا ہو گیا۔ نیوز اینکرز اور ٹاک شوز کے میزبان لاکھوں میں کھیلنے لگے۔ ایک میڈیا گروپ تو ایسا بھی سامنے آیا کہ ملک کے تمام ‘چوٹی’ کے میڈیا گرو، بڑے بڑے اینکرز، رپورٹرز بھیڑ چال میں اس گروپ کا حصہ بن گئے کہ تنخواہیں اور مراعات ایسی کہ یورپ اور امریکا کو مات دیں۔ جعلی ڈگری اسکینڈل سامنے آیا تو تمام بڑے بڑے تحقیقاتی صحافی اور میڈیا گرو جو حکومتیں گرانے اور بنانے میں خود کو یکتا سمجھتے تھے اور پاتال میں چھپے حقائق کو طشت از بام کرنے کا دعوٰی رکھتے تھے، ایک ایک کر کے اس ٹائٹینک سے کودنے پر مجبور ہو گئے۔
گزشتہ صدی کی آخری دہائی میں شام کے اخبارات نے سنسنی خیزی سے بھرپور مگر حقائق سے عاری ‘صحافت’ کا آغاز کیا تو ایسی ‘کامیابیاں’ ملیں، جس کی مثال نہ تھی۔ پیسہ کمانے کا آسان راستہ بھی اور سیاسی اور سماجی اثرو رسوخ میں دن دگنی رات چوگنی ترقی۔ یہ نام نہاد بزنس ماڈل ایسا کامیاب ٹھہرا کہ موجودہ دور کے اکثر نیوز چینل اسی ماڈل کو اپنائے نظر آتے ہیں۔
صحافی تنظیمیں بھی عمومی طور پر میڈیا قوانین کے حوالے سے میڈیا مالکان کے نقطہ نظر کی حامی ہوتی ہیں۔ اس لیے میڈیا ورکرز کے حالات کار کے حوالے سے کوئی قانون سازی نہ ہو سکی۔ کبھی یہ نہ سوچا گیا کہ قانون کا موجود نہ ہونا معاشرتی انتشار کا باعث بنتا ہے، ایک بیچارہ 1973ء کا نیوز پیپرز ایمپلائز ایکٹ ہوا کرتا تھا اب بھی ہے، مگر اس بیمار کی طرح کہ جسے زندہ رہنے سے کوئی دلچسپی ہے اور نہ مالکالموت کو اس کی جاں قبض کرنے میں۔
گزشتہ کئی دہائیوں سے میڈیا اور خاص طور پر سوشل میڈیا کی بھر پور ترقی پر اگر نبض شناس ہاتھ رکھ پاتے اور حکومتیں عوام کی ذہنی صحت کا خیال رکھتیں تو یقیناً ایسے قوانین آج نافذ ہوتے جو میڈیا کو محض منافع اور فرد یا خاندان کے بڑے منافع کا ذریعہ نہیں بلکہ ایک ایسے کاروبار کا ذریعہ بنتے جس کی ترقی معاشرے اور سماج سے جڑی ہو۔ اس کاروبار کا مقصد معلومات دینا، تعلیم دینا اور تفریح مہیا کرنا ہوتا، نہ کہ بادشاہ گر بننا۔
میڈیا کے حوالے سے قانون سازی کا مطلب میڈیا کے کاروبار کو جدید خطوط پر استوار کرنے سے لیکر ایسے میڈیا پروفیشنلز کی تعلیم وتربیت کا انتظام بھی کرنا ہے جن کا روزگار میڈیا سیٹھ کے موڈ سے زیادہ اس کی پیشہ ورانہ صلاحیت پر منحصر ہو۔ گزشتہ دو دہائیوں میں میڈیا اور سوشل میڈیا میں ہونے والی ترقی اور اس کے معاشرے اور سماج پر آنے والے اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس شعبے کے ماہرین یقیننا قابل عمل قوانین بنانے میں پارلیمنٹ کی مدد کر سکتے تھے۔ مگر پارلیمنٹ یا سیاسی جماعتتوں کی غفلت نے قانون سازی کے ایسے کئی مواقع کھو دئے حتی کہ اٹھارہویں ترمیم کے موقع پر اس جانب پیش رفت نہ کی گئی اور اس کی بنیادی وجہ ایک ایسا طاقتور میڈیا گروپ تھا، جو حکومتیں بنانے اور گرانے سے کم کسی کام میں دلچسپی ہی نہ رکھتا تھا۔
2008ء سے 2018ء تک کے پاکستانی میڈیا پر اگر نظر دوڑائی جائے تو واضح ہو جاتا ہے کہ جسے میڈیا کی طاقت یا آزادی کا نام دیا گیا وہ میڈیا کی آزادی نہیں بلکہ میڈیا سیٹھوں کو کھل کر ہر دھندہ کرنے کی آزادی تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب سپریم کورٹ کے کمرہ نمبر 1 میں عدالتی کارروائی اس وقت تک حدت نہ پکڑتی جب تک بڑا میڈیا چینل اس کیس کے ٹکرز آن ایئر نہ کرتا۔
کہنے کو وہ جمہوری اور آئینی دور تھا، مگر کیا آئین کی بالادستی میں ایک بڑا چینل آئینی اداروں کو ایسے پابند بنا سکتا ہے جیسا کہ اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری نے بنا رکھا تھا۔ قوانین کی عدم موجودگی میں ہر نیا دن ایک نئی الجھن لیے سامنے آن کھڑا ہوتا ہے۔
بدلتی دنیا کے بدلتے تقاضوں پر ہر سماج اپنے اندر موجود سیاسی عمل سے نئے نئے راستے تلاش کرتا رہتا ہے۔ پاکستان میں سیاسی عمل کا سفر ہنوز دائروں میں جاری ہے۔ ایک طاقتور کی دوسرے طاقتور سے لڑائی کے نتیجے جو کچھ اور جس شکل میں سامنے آتا ہے وہ سیاسی عمل کے آگے بڑھنے میں اس لیے بھی ایک رکاوٹ بن جاتا ہے کہ ہر طاقتور پوائنٹ آف نو ریٹرن سے پہلے پہلے لین دین کر کے اسٹیٹس کو برقرار رکھنے میں ہی عافیت سمجھتا ہے۔ دائروں کے اس سفر میں نئی نئی حکمت عملی اس زور سے استعمال میں لائی جاتی ہے کہ ہم جیسے عام سی ذہنی حالت کے مالک جن کی تعداد کروڑوں میں ہے وہ گومگو کی حالت سے ہی باہر نہیں آ پاتے۔
میڈیا اور سوشل میڈیا جس کا بنیادی کام ہی عام آدمی کو معلومات مہیا کر کے بااختیار بننے میں مدد دینا ہے، اس کا عمومی استعمال ہی ایسا بنا دیا گیا ہے کہ کوئی دائروں سے باہر نکلنے کی ہمت ہی کیا خواہش بھی ترک کر دے، علم و ہنر سے آراستہ میڈیا اور خاص طور پر سوشل میڈیا ورکر کا ساتھ ہو تو دشوار گزار راستوں سے کانٹے چن کر سفر کو سہل، آرام دہ اور خوشگوار بنایا جا سکتا ہے، اور یہ زندگی کے سفر پر بھی یکساں لاگو ہوتا ہے۔
راہ میں کانٹے بکھیرنا شیطانی عمل ہے، عبرانی زبان میں شیطان کے ایک معنی رکاوٹیں کھڑا کرنے والا بھی ہے۔ اب کوئی ہے جو رکاوٹوں کو ہٹانے کے لیے ایسا قانون لائے جو راستے کو کانٹوں سے صاف کرے اور معلومات، علم اور تفریح کے بحرالکاہل کو گندگی اور آلائشوں سے پاک کر دے۔
بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو
یہ بھی پڑھیں:
عام انسان اور ترجمان۔۔۔سہیل وڑائچ
فردوس عاشق کی 9 زندگیاں۔۔۔سہیل وڑائچ
تاریخ کا مقدمہ بنام اچکزئی صاحب!۔۔۔سہیل وڑائچ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر