ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈھٹائی اور ہٹ دھرمی کو مجسم دیکھنا ہو تو مفتی عزیز کو دیکھ لیجیے جن کا خیال ہے کہ وطن عزیز میں پائی جانے والی مخلوق اتنی کم فہم ہے کہ ان کی سادگی پہ مر مٹے گی اور ان کی بلائیں لیتے ہوئے نہیں تھکے گی۔
ویسے آپس کی بات ہے کہ ان کا خیال کچھ ایسا غلط بھی نہیں۔ بے شمار چاہنے والے مفتی صاحب کے اردگرد حصار بنائے ان پہ برسائے جانے والے تیر و تفنگ کا سامنا کرنے کو تیار بیٹھے ہیں۔ آنکھوں دیکھا جھٹلا کے ملبہ کبھی طبی اہلیت پہ ڈالا جاتا ہے اور کبھی نشہ آور چائے کے استعمال پہ۔ اور تو اور ایک صاحب کو عورتوں سے یہ گلہ ہے کہ ان کے التفات کی کمی مفتی صاحبان کو ہم جنسی پہ مجبور کرتی ہے۔ واللہ ایک اسی الزام کی کمی رہ گئی تھی۔
کاش مفتی صاحب نشہ آور چائے پہ الزام دھرنے سے پہلے کسی صاحب عقل ودانش سے مشورہ ہی کر لیتے جو انہیں بتاتے کہ نشہ آور اشیا اس قسم کی سرگرمیوں کے لئے سم قاتل ہوتی ہیں۔ حسیات کا یہ کھیل ہوش اور جوش کے ساتھ ہی کھیلا جا سکتا ہے سو آپ کا یہ بیان دوسرے لفظوں میں آپ کی بدنیتی کا اقرار ہی ہے۔
ہم ان کی اس نادانی بھرے اقرار کے بعد حیرت کے سمندر میں غوطے کھاتے ہوئے ایک ہی بات سوچتے ہیں کہ کیا ایسی مخلوق میں عزت نفس نام کا کوئی عنصر پایا جاتا ہے؟ چلیے یوں کہہ لیجیے کہ دین کا انتظام وانصرام سنبھالنے والے ان بے ضمیر لوگوں میں ایمان کی حرارت چٹکی بھر بھی ہے کیا؟
سوال تو یہ بھی ہے کہ ایک طرف مسیحی چرچ معصوم بچوں سے پادری حضرات کی زیادتی کے پے در پے الزامات کی زد میں تو دوسری طرف مسلم علما کے بارے میں ایک کے بعد ایک خبر آتی ہے۔ ہندو دیوداسیوں کی درد ناک داستانیں الگ سے تاریخ کا حصہ ہیں۔ تقدیس کے ان سرچشموں کے پانی میں اس مشترک آلودگی کا سبب کیا ہو سکتا ہے؟ کوئی نفسیات کی گتھی ہے یا تقدیس کے بلند بام قلعوں کی معاشرتی بنت میں کوئی گرہ ہے؟
ہمیں یہ حضرات وہ خون آشام بلائیں نظر آتی ہیں جو زندگی کی دوڑ کا آغاز کرنے والے معصوموں کے لہو سے اپنی پیاس بجھاتی ہیں۔ وہ بے بس جن کی روح اور جسم پہ لگے داغ اور بچپن کی بے کسی انہیں تمام عمر نہ جینے دیتی ہے اور نہ مرنے۔
ہم سمجھنے سے قاصر ہیں کہ مسجد ومنبر کے رکھوالوں کی ہوس کی پیاس نہ جانے کیسی پیاس ہے جو عالم پیری میں بھی نہیں بجھتی؟ شیطان سے دوری کا سبق سکھانے والوں کے اپنے جسم میں نہ جانے کیا آگ بھڑکتی رہتی ہے جسے ہر روز کسی نہ کسی کی عزت و حرمت اور معصومیت کا ایندھن درکار ہوتا ہے۔
ڈوب مرنے کا مقام یہ ہے کہ مذہب کا لبادہ اوڑھ کر مذہب کی چھتری تلے یہ کھیل کھیلا جاتا ہے۔ شکار ہونے والوں کو سمجھ ہی نہیں آتی کہ تقدس کی دھجیاں اڑانے والوں کی شکایت کس سے کریں کہ اس حمام میں یا تو سب ننگے ہیں یا من ترا حاجی بگویم تو مرا حاجی بگو کے مصداق ایک دوسرے کی پشت پناہی کرنے کو کھڑے ہو جاتے ہیں۔
منبر پہ حوروں کے ملبوسات اور سراپے کی تفصیلات گھنٹوں بیان کرنے والے طارق جمیل کی زبان اپنے ہم مشرب کی کج روی کے شواہد دیکھ کے گنگ ہو جاتی ہے۔
معاشرے سے بےحیائی ختم کرنے کے لئے چھوٹی بچیوں کا بیاہ اور تین چار بچیوں سے نکاح کی تلقین کرنے والے مفتی طارق مسعود مدرسوں پہ پائی جانے والی اس علت پہ ایک وعظ بھی نہیں دیتے۔ جہاں وہ اپنے مخصوس انداز میں لوگوں کو بتائیں کہ بے گناہ لڑکوں کی معصومیت سے کھیلنے والوں کیا علاج کیا جائے؟
اتنی گہری خاموشی کا ایک ہی معنی ہوا کرتا ہے کہ جملہ صاحبان اس علت کو مدرسوں کی روایت سمجھتے ہوئے اسے درست سمجھتے ہیں اور کیا کہہ سکتے ہیں جب حمام میں سب ہی ایک جیسے ہوں۔ تبھی تو جب بھی کوئی ایک رنگے ہاتھوں پکڑا جائے تو پورا قبیلہ چھاتی تان کے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کے متحد کھڑا نظر آتا ہے۔
ہمیں تعجب ہوتا ہے کہ کیا واقعی یہ سب اپنی ہوس کے ہاتھوں اس قدر مجبور ہیں کہ انہیں اس روز حساب کا ڈر بھی نہیں ستاتا جس سے یہ دوسروں کو ہمہ وقت خوفزدہ کرتے ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ انہیں خود بھی روز حساب پہ یقین نہیں؟
ایک اور خیال بھی بے اختیار سرسراتا ہے، کیا انہیں کسی کی معصومیت سے کھیلتے سمے اپنا بیٹا تصور میں نہیں آتا؟ یا سنگدلی اور شقاوت ان سے احساس کا یہ جوہر برسوں پہلے چھین چکی ہے۔
ہمیں شائبہ گزرتا ہے کہ شاید ابتدائی عمر میں ان صاحبان نے انہی مدرسوں کے تنگ و تاریک کمروں میں کسی اور کے جسمانی تقاضوں کی شدت اپنے جسم پہ سہی تھی اور اب اس کا تاوان لینے کی تمنا انہیں چین سے نہیں بیٹھنے دیتی۔
علت مشائخ کے بارے میں آخر کون نہیں جانتا؟
مغرب پہ دن رات تبرا بھیجنے والوں کو ہم یہ بتاتے چلیں کہ کم از کم اتنا تو ہوا ان کے یہاں کہ دنیا بھر میں چرچ اور پادریوں کے ہاتھوں ہونے والے جنسی تشدد کا پردہ عدالت کے ذریعے چاک کیا گیا۔ روح اور جسم کے داغ تو مٹ نہیں سکتے تھے لیکن اقبال جرم، معافی کی طلب اور کروڑوں کا ہرجانہ کم از کم کچھ رفو گری تو کرنے میں کامیاب ہوا۔
ہم جو اپنے دین کو تمام مذاہب سے برتر سمجھتے ہیں، کیا حق گوئی اور بے باکی کے اس رستے پہ چل کے کوئی ایسی مثال قائم کر سکتے ہیں جہاں بہت سوں کے رستے ہوئے زخموں پہ شاید کوئی مرہم لگ سکے!
کاش ہم بحثیت قوم منافقت اور دوغلے پن کے یہ پردے چاک کر سکیں!
یہ بھی پڑھیے:
اسقاط حمل میں عورت پر کیا گزرتی ہے؟۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
کاظمی اینڈ سنز عرف سترہ برس کا بیٹا۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر