نومبر 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

آہ ۔ منور سہروردی شہید|| زاہد حسین

میں نے پوچھا کہ آپ کو کون سی تصاویر درکار ہیں تو اس نے کہا کہ آپ نے بینظیر اور آصف زرداری کی شادی کور کی تھی ہمیں اس "جوڑے" کی تصاویر نہیں چاہئیں بلکہ شادی میں شریک ان لوگوں کی تصاویر چاہئیں جو اس " جوڑے " کو تحائف دے رہے تھے۔

زاہد حسین 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شہید چیئرمین بھٹو کو لاہور ہائیکورٹ سے موت کی سزا سنائی جا چکی تھی اور انکی ریویو پیٹیشن پر سپریم کورٹ میں سماعت جاری تھی۔ بیگم بھٹو کا زیادہ وقت لاہور اور راولپنڈی میں گذر رہا تھا ۔میر مرتضٰی بھٹو اور شاہنواز ملک سے باہر تھے۔ کارکنوں اور لیڈروں میں سے کافی لوگ گرفتار تھے، ایسے میں شہید بی بی تن تنہا ملک بھر کےبچے کھچے کارکنوں اور لیڈروں سے رابطوں میں مصروف تھیں جن کی اچھی خاصی تعداد ابھی بھی ان سے ملنے آ رہی تھی۔ ملاقات کیلئے 70۔کلفٹن کے ٹیلی فون آپریڑ اصغر راشدی کو اپنا نام اور فون نمبر لکھوانا پڑتا تھا جو تما م دن آنیوالی کالوں کی ایک فہرست بنا کر رات آٹھ بجے تک بی بی شہید کے حوالے کرتا تھا۔ اس کے بعد جب نو بجے کے لگ بھگ بی بی ملاقاتوں سے فارغ ہوتی تھیں تو ہم مساوات اخبار کے دونوں (میں اور ہمارے چیف رپورٹر عنایت حسین) لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر لسٹ پر ملاقاتیوں سے ملنے کی تاریخ اور ملاقات کا وقت طے کر کے لسٹ مکمل کرتی تھیں۔بی بی ہمیں اس لیے ساتھ بٹھاتی تھیں کہ انہیں بیشتر کارکنوں اور لیڈروں کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں تھیں اور جب وہ لسٹ میں سے نام پڑھتی تھیں تو ہم بتاتے تھے کہ یہ فلاں جگہ سے پارٹی کے ایم این اے ہیں یا یہ فلاں جگہ سے پارٹی کا عہدیدار ہے، اس میں دوسرے شہروں سے آنے والوں کو تھوڑا زیادہ وقت دیا جاتا تھا اور ان کیلیے چائے کا ایک کپ بھی ہوتا تھا۔ قریبی شہروں کے لوگوں کیلئے تھوڑا کم وقت ہوتا تھا اور کراچی کے پارٹی کے لوگوں میں سے جس سے بی بی کو کام ہوتا تھا تو ویسے ہی بلوا لیا جاتا تھا ، سہ پہر کو لان میں کچھ وقت ایک طرح کی کھلی کچہری سی ہوتی تھی جس میں کراچی بھر کے کارکنوں کی ایک بڑی تعداد شرکت کرتی تھی اوراس میں دوسرے شہروں سے آئے ہوئے کارکنان بھی شریک ہو جاتے تھے۔ اس کچہری میں بی بی کارکنوں کی طرف سے دی گئے تجاویز کو باقاعدہ نوٹ کرتی تھیں اور بعض دفعہ اس تجویز پر ہمیں مساوات کے لئے خبر بنانے کا بھی کہتی تھیں۔ان دنوں کراچی کا ایک کارکن سہ پہر کے کھلے اجلاس میں مجھ سے ملا اور کہا کہ زاہد بھائی مجھے بی بی سے الگ میں ملنا ہے اور میں نے دو دفعہ فون پر نام لکھوایا ہے مگر مجھ ملاقات کا وقت نہیں مل رہا ہے ۔ مجھے کچھ دوستوں نے بتایا ہے کہ بی بی مساوات والوں کے ساتھ بیٹھ کر لسٹ مکمل کرتی ہیں آپ پلیز مجھے بی بی سے تھوڑا الگ وقت لے دیں۔اس نے مجھے اپنا نام منور سہروردی بتایا۔ میں نے اس سے کہا کہ بی بی کراچی کے کارکنوں سے اکٹھے ملاقات کرتی ہیں اور الگ سے وہ کسی سے نہیں ملتیں ہیں اگر ان کو ضرورت ہوتی ہے تو وہ مسرور احسن، سردار حنیف یا پی ایس ایف کراچی کے عہدیدار کو بلوا کر کہہ دیتی ہیں تم کل پھر نام لکھوا دینا میں لسٹ بناتے وقت بی بی سے کہہ کر کوشش کروں گا۔اگلے دن لسٹ بناتے وقت جب بی بی نے یہ نام پڑھا تو میں نے کہا کہ بی بی یہ پارٹی کا اچھا کارکن ہے اور آپ سے ضروری ملنا چاہتا ہے ۔ بی بی نے کہا کہ ہاں یہ نام میں بار بار دیکھ رہی ہوں اس سے کہو کہ کراچی کے تمام کارکنوں کے ساتھ ہم سےمل لے اور قریب آ کر اپنی بات کر لے۔ میں نے کہا بے بی (ہم بی بی کو بے بی کہتے تھے کیونکہ بیگم صاحبہ بھی اس کو بے بی ہی کہتی تھیں) آپ اس کو دو تین منٹ دے دیں کہ آخر وہ کیا کہنا چاہتا ہے جس پر بی بی راضی ہوگئیں اور اسے اگلے دن کا وقت دے دیا۔ ملاقات میں تصویریں بنانے اور خبر نوٹ کرنے کے لئے ہم ہر وقت موجود ہوتے تھے اور موجود ہونے کی دوسری وجہ بی بی کی سیکیوریٹی بھی ہوتی تھی۔ یعنی ہم اس کے باڈی گارڈ بھی تھے۔ اس دوران بنگلے کا ایک آدھ نوکر بھی ہوتا تھا کیونکہ دوست محمد اور عرس بھٹو صاحب اور بیگم صاحبہ کے ساتھ تھے۔ملاقات میں منور سہروردی نے اپنا اور اپنے خاندان کا بتایا اور بی بی کو یقین دلایا کہ وہ بھٹو خاندان کے لیے اپنی جان بھی قربان کرنے کو تیار ہے۔ آج جب کہ ساتھی اس کی شہادت کا دن منا رہے ہیں میں اپنی ان یاد داشتوں کو منور سہروردی کے نام کرتا ہوں۔
———————————————————–
تصویروں میں آپ دیکھ رہے ہوں گے کہ سادہ لباس والے ہی گرفتاریاں کر رہے ہیں اور مار پیٹ کرتے تھے۔ یہ اس وقت جنرل ضیاءالحق اور اسکے حواریوں کا طریقہ کار تھا۔ سادہ لباس والے گرفتار کرتے واقت ٹھیک ٹھاک مار پیٹ بھی کرتے تھے اور شام کو ڈپٹی کمشنر کا ہینڈ آؤٹ جاری ہوتا تھا کہ چند شر پسند عناصر نے فلاں علاقے میں ہنگامہ آرائی کی جسے ” علاقے کے عوام ” نے ناکام بنا دیا اور شر پسندوں کو بھاکنے پر مجبور کر دیا ۔ چونکہ شیدید سنسر تھا اس لیے خبر کی بجائے صرف یہی ہینڈ آؤٹ چھپتا تھا اور پی ٹی وی سے پڑھا جاتا تھا

زاہد حسین کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author