ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نصف شب کا گجر جونہی بجتا، کچھ عجیب سا محسوس ہوتا اور وہ چھوٹی سی بچی بیدار ہو جاتی۔ نیند میں مندی ادھ کھلی آنکھیں، سویا ہوا ذہن، کچھ دیر تو سمجھ ہی نہ آتی۔ لیکن سرما کی سرد راتوں میں جب جسم فوراً ہی کپکپانا شروع کر دیتا، تب بستر چھوڑنے کے سوا کوئی اور چارہ نہ ہوتا۔
“آپا کو جگاؤں کہ اماں کو؟ اماں تو تھکی ہوئی ہوں گی بہت… آپا نے بھی کالج جانا ہے صبح.. اف، کیا کروں؟
کیا بتی جلاؤں؟ نہیں روشنی ہو گی تو سب جان جائیں گے کہ آج پھر.. ویسے کپڑوں کی الماری سامنے ہی تو ہے، اندھیرے میں ڈھونڈھ ہی لوں گی کچھ.. “
اندھیرے میں ادھر ادھر ٹٹولتی ہوئی وہ الماری کی طرف بڑھتی اور فوراً ہی کسی چیز سے ٹکرا جاتی۔ کبھی آہٹ اور کبھی چھناکا، آپا ہڑبڑا کر اٹھ جاتیں۔ اماں بھی برابر والے کمرے سے دوڑی آتیں، بتی جل جاتی۔ کمرے میں پھیلا اجالا فرش پر میز سے گری چیزوں کے بیچ میں ایک بچی کو دیکھتا جو جھینپے ہوئے چہرے کے ساتھ آنکھیں جھپکتے ہوئے آپا اور اماں کو دیکھ رہی ہوتی۔ اماں اور آپا اسے چپ چاپ دیکھتیں پھر اماں ٹھنڈی سانس بھر کے آپا کو کہتیں، تم کپڑے تبدیل کروا دو، میں دوسرا بستر لگاتی ہوں۔
صبح ہوتی تو بچی ہشاش بشاش اٹھتی اور سکول روانہ ہو جاتی رات کو پیش آنے والے واقعے کی کوئی یاد پاس نہ ہوتی۔
” دیکھیے جسمانی لحاظ سے ہمیں کوئی نقص نہیں ملا۔ بظاہر نفسیاتی طور پہ بھی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ بقول آپ کے، گھر میں متشدد ماحول نہیں پایا جاتا۔ بچی میں کوئی ڈر خوف نہیں اور کم اعتمادی کا عنصر بھی نہیں پایا جاتا”
“جی ڈاکٹر صاحب وہ ہمارے گھر کا سب سے ہنسوڑ بچہ ہے اور اعتماد تو آپ نے دیکھ ہی لیا ہے۔ ہم نے سب دوائیں استعمال کروا لی ہیں لیکن کوئی افاقہ نہیں”
“کیا آپ نے بچی کو سلانے سے پہلے کی سب تراکیب آزما لی ہیں؟”
“جی ہاں، سونے سے دو گھنٹے پہلے پانی نہیں پینے دیتے۔ بستر پہ جانے سے پہلے ٹوائلٹ بھیجنا لازم ہے لیکن پھر بھی ہر رات وہی…”
“دیکھیے اب یہی ہو سکتا ہے کہ کچھ برس انتظار کیجیے، شاید بلوغت پہ پہنچ کے بہتری آئے۔ ماہواری آنے کے بعد یہ معاملہ بہتر ہو سکتا ہے”
“ماہواری سے ….، وہ کیسے؟”
“ ماہواری کا تعلق ہارمونز سے ہےاور ایسٹروجن ہارمون عورتوں کی صحت کا ضامن ہے۔ جب بلوغت پہ ایسٹروجن زیادہ ہو گا تو امید ہے کہ مثانے کی کمزوری قابو میں آ جائے گی۔ ابھی مثانہ پیشاب کو زیادہ دیر روک نہیں سکتا”
“لیکن ڈاکٹر صاحب بلوغت تک تو بہت برس باقی ہیں، کیا تب تک یہی کچھ چلتا رہے گا؟”
“احتیاطی تدابیر جاری رکھیے ، دیکھتے ہیں”
بچی کے ماں باپ کے لئے یہ اداسی اور مایوسی کا مرحلہ تھا۔ چلبلی، ذہین، بااعتماد بچی اور جسمانی طور پہ اس قدر کمزور….
یہ ہمارا بچپن تھا!
قصہ کچھ یوں ہے کہ گزرتے برسوں کے ساتھ ساتھ ہماری جسمانی اور ذہنی عمر تو بڑھ رہی تھی مگر جسم کا ایک عضو جو اس بڑھوتری کا ساتھ نہیں دے رہا تھا وہ تھا مثانہ!
شیر خوارگی کا زمانہ تو ہم نہیں جانتے لیکن عہد طفولیت کی ابتدائی یادوں میں جہاں اور بہت کچھ ہے وہاں رات سوتے میں بستر گیلا کر دینے کی یاد بھی حافظے میں محفوظ ہے۔
شام جونہی رات میں ڈھلنے لگتی، اماں کی عقاب نظر ہمارا پیچھا کرنا شروع کر دیتی۔ جوسسز اور کولا کا تو اتنا رواج نہیں تھا لیکن شربت اور سکنجبین تو تھی جو شام کے بعد ہمارے لئے مشروب حرام بن جاتی۔ اماں کی آنکھ بچا کر اگر کچھ گھونٹ پینا بھی چاہتے تو کوئی نہ کوئی مخبری کر دیتا، اماں دیکھیے اسے، شربت پی رہی ہے۔ اور اماں جہاں بھی بیٹھی ہوتیں، گھرک دیتیں، خبردار، نہیں پینا۔ ہمیں یقین ہے کہ درون خانہ رازوں سے بے خبر کئی ہمدرد اسے اماں کا جبر یا کنجوسی سمجھتے ہوں گے۔
رات کے کھانے کے ساتھ کم سے کم پانی پینے دیا جاتا اور سونے سے پہلے تو قطعی پابندی ہوتی۔ بستر پہ جانے سے پہلے ٹوائلٹ جانے کی بار بار تاکید ہوتی۔ جب بستر میں لیٹ بھی جاتے، تب بھی اماں ابا پوچھنے آتے کہ پیشاب کر لیا کہ کہ نہیں؟
لیکن ہوتا کیا؟ نصف شب ہوتی اور ہماری آنکھ تب کھلتی جب بستر گیلا ہو چکا ہوتا اوربستر سے نکلنے کے سوا کوئی اور چارہ نہ ہوتا۔ یہ راتیں ہماری زندگی کا معمول تھیں۔
کونسی دوا تھی جو آزمائی نہ گئی، ایلو پیتھک، ہومیو پیتھک، ہربل، ٹوٹکے، سینہ بہ سینہ چلتے نسخے۔ کونسا طبی ماہر تھا جس کے پاس لے جایا نہ گیا، چائلڈ سپیشلسٹ، میڈیکل سپیشلسٹ، یورولوجسٹ، حکیم، ہومیو پیتھ۔ بس سائیکاٹرسٹ اور سائیکالوجسٹ ہی کی کسر رہ گئی تھی کہ بظاہر ہم ٹھیک ٹھاک نظر آتے تھے۔
اس سارے قضیے کے متاثرین میں ہمارے علاوہ اماں ابا اور آپا بھی تھے۔ ہم تو رہ رہ کر اس الجھن کا شکار ہوتے کہ کہ چھ بہن بھائیوں میں سے صرف ہم ہی کیوں؟ اور آخر کسی دوا اور ٹوٹکے کا اثر کیوں نہیں ہوتا؟ ہمارا کسی بھی تقریب میں جا کر رات ٹھہرنے کا سوال ناممکن اور تو اور اماں کے بغیر نانی کے گھر بھی نہیں جایا جا سکتا تھا۔ جب کبھی اماں کسی کام سے شہر سے باہر جاتیں، ان کے سر پہ بھی ایک ہی فکر سوار ہوتی، رات کو کیا ہو گا۔ آپا کو تردد سے بچانے کے لئے ہمارے بستر پہ موم جامہ بچھانے کا انتظام کیا جاتا۔ موم جامے پہ سونا ہمیں انتہائی مشکل لگتا کہ ہر کروٹ ایک عجیب سے احساس سے روشناس کرواتی۔ جب رات کو آپا گیلا موم جامہ اٹھا دیتیں تو بقیہ نیند پرسکون ہو جاتی۔ صبح کو ایک ماسی آتی جو آلودہ کپڑے اور موم جامہ دھو کے اور سکھا کے رکھ جاتی۔
رویوں کی مار اس کے علاوہ تھی۔ ہم عمر کزنز کی چھیڑ چھاڑ عموماً ہم ہنس کے برداشت کر جاتے مگر کبھی کبھار دل پہ چوٹ بھی لگ جاتی کہ آخر اس سب میں ہمارا کیا قصور تھا؟
جب ڈاکٹر صاحب نے بلوغت پہ بہتری آنے کی نوید سنائی تو اماں ابا نے امید کی شمع تھام لی۔ لیکن بلوغت تک پہنچنے میں تو کافی وقت تھا سو کیا کیا جائے؟ یہ ایک سوال تھا جس کا جواب ہمارے ابا نے سوچا۔
کئی ہفتوں کے مشاہدے کے بعد حساب لگایا گیا کہ شب کا کیا وقت رہتا ہو گا جب مثانہ بے چین ہو جاتا تھا۔ اس وقت کی اوسط نکالی گئی تو رات کے دو ڈھائی بجے کا وقت سمجھ میں آیا۔ ابا اپنا ہوم ورک کر کے ایک لائحہ عمل طے کر چکے تھے لیکن ہم اس سے بے خبر تھے۔
اگلی رات ہی عقدہ کشائی ہو گئی کہ ابا نے کیا سوچ رکھا تھا۔ ڈیڑھ بجا ہو گا یا پونے دو، جب ہمارا کمبل آہستگی سے سرکا اور شانہ تھپتھپا کے کسی نے ہمارا بازو تھام لیا گیا۔ گہری نیند میں ہونے کے باعث کچھ سمجھ نہیں آئی لیکن بستر سے نکل ضرور پڑے، کہ بازو تھامنے والا یہی چاہتا تھا۔ یونہی مندی مندی آنکھوں کے ساتھ ہم ٹوائلٹ پہنچے، جہاں ہمیں کموڈ پہ بٹھایا گیا، فراغت کے بعد دھونے میں مدد کی گئی اور پھر اسی طرح واپس پہنچا کر نرم گرم بستر میں سلا دیا گیا۔
یہ معمول برسوں پہ محیط رہا۔ آدھی رات کا الارم بجتا، ابا اٹھ کر ہمارے کمرے تک آتے، ہمیں پوری طرح کبھی نہ جگاتے، ادھ سوئی ادھ جاگی حالت میں ہمیں ٹوائلٹ پہنچاتے، ہماری مدد کرتے اور پھر واپس بستر میں لٹا کر چپ چاپ واپس اپنے کمرے میں چلے جاتے۔
ان برسوں میں نہ صرف ہم راتوں میں سکون کی نیند سوئے، بلکہ دن میں بھی زندگی سہل ہوئی۔ ڈاکٹری اور حکیمانہ نسخوں سے جان چھوٹی اور وہ دبی دبی ہنسی مذاق جو ہمیں شرمندگی کے احساس میں مبتلا کرتا تھا، اپنی موت آپ مر گیا۔
ابا نے کبھی اماں کو نہیں جتایا کہ وہ آدھی رات کو اپنی نیند خراب کرتے ہوئے گھر کی چھوٹی بچی کا مسئلہ حل کرتے ہیں، آخر صبح میں انہیں بھی دفتر جانا ہوتا ہے۔ نہ ہی یہ ذمہ داری بڑی بہن ہونے کے ناطے آپا پہ ڈالی۔ احساس کے بندھن اور بیٹی سے بے پناہ محبت نے ان سے یہ مشقت برسوں کروائی جو جسے انہوں نے بہت خوشدلی سے کی۔
لیجیے جناب، ابا کی بدولت بستر گیلا ہونا تو رک گیا تھا لیکن مثانے کی کمزوری دور ہونا تو باقی تھی۔ کسی بچی نے اپنی بلوغت اور ماہواری کا ایسے انتظار نہیں کیا ہو گا جیسے ہم نے کیا۔ ہمارے نزدیک ماہواری امرت دھارا کے درجے پہ فائز تھی کہ اب آخری امید وہی تھی۔
انتظار میں بارہواں برس گزرا، تیرہواں بھی گزر گیا، چودہویں میں تو بس مصلے پہ بیٹھنے کی کسر رہ گئی تھی، بالآخر پندرہویں میں من کی مراد پوری ہوئی۔ رونے دھونے اور غم منانے کے مروجہ چلن کی بجائے ہم ایسے شاداں و فرحاں تھے کہ کچھ لوگ بے اختیار ہو کے پوچھ بیٹھتے، ماہواری کی آمد پہ اتنی خوشی؟
ہم کیسے بتاتے کہ کوئی بھی جسمانی معذوری کیسی بے چارگی کی کیفیت پیدا کرتی ہے بلکہ اس سے آپ کے پیاروں کی بھی ایک نہ ختم ہونے والی آزمائش شروع ہوتی ہے۔ اس آزمائش کو ہمارے اماں ابا نے برسوں جھیلا، محبت کے ساتھ، ماتھے پہ تیوری چڑھائے بنا، کوئی درشت لفظ کہے بغیر، کوئی احسان جتائے بنا۔ محبت، احساس اور خیال کی شدت نے ہمیں اس قدر سیراب کیا کہ ہم آج بھی انہی برسوں میں زندہ ہیں۔
یہ بتانے کی ضرورت تو نہیں رہی کہ ماہواری نے ہمیں مایوس نہیں کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیے:
اسقاط حمل میں عورت پر کیا گزرتی ہے؟۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
کاظمی اینڈ سنز عرف سترہ برس کا بیٹا۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر