نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سیاہ فام شخص کا قتل، ویڈیو بنانے والی لڑکی کیلئے خصوصی ایوارڈ

جارج فلائیڈ کی ہلاکت کے وقت ڈینئیلا فریزز کی عمر 17 برس تھی اور ان کی بنائی ہوئی

واشنگٹن

امریکہ میں سیاہ فام جارج فلائیڈ کی پولیس حراست میں ہلاکت کی ویڈیو بنانے والی لڑکی کو صحافت کا خصوصی ایوارڈ دیا گیا۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق گزشتہ سال مئی میں امریکی پولیس کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے سیاہ فام شخص جارج فلائیڈ کی ویڈیو بنانے

والوں کی حوصلہ افزائی کے لیے انہیں صحافت کے خصوصی ایوارڈ سے نوازا گیا۔

جارج فلائیڈ کی ہلاکت کے وقت ڈینئیلا فریزز کی عمر 17 برس تھی اور ان کی بنائی ہوئی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی تھی

جس کے بعد یہ معاملہ امریکہ سے باہر نکل کر پوری دنیا میں پھیل گیا تھا۔

ڈینئیلا فریزر جو اس وقت 18 برس کی ہیں ان کی ہمت کی وجہ سے انہیں اعزاز سے نواز گیا۔

ایوارڈ دینے والی کمیٹی کا کہنا ہے کہ ڈینئیلا فریزز کی ویڈیو نے دنیا بھر میں پولیس کی بربریت کو اجاگر کیا جس کے خلاف دنیا بھر میں مظاہرے ہوئے۔

ویڈیو میں ثابت ہوا کہ پولیس افسر ڈیرک شاوین ہی جارج فلائیڈ کی ہلاکت کی وجہ بنے۔

ڈینئیلا فریزر گزشتہ سال اپنے کزن کے ساتھ تھی جب یہ واقعہ پیش آیا

اور انہوں نے اپنے موبائل فون پر واقعہ کی ریکارڈنگ محفوظ کر لی تھی۔

ڈینئیلا نے ویڈیو بنا کر اپنے فیس بک پر اپ لوڈ کر دی اور جارج فلائیڈ کا قتل ایک ایسی خبر بن گیا،

جس نے اس واقعے کو امریکہ ہی نہیں، دنیا کے کئی شہروں میں مہینوں تک نسلی امتیاز کے خلاف جاری رہنے والے احتجاج میں تبدیل کر دیا۔

ڈینئیلا فریزر کی ویڈیو میں پولیس افسر ڈیرک شاوین نے جارج فلوئیڈ کی گردن پر اپنا گھٹنا رکھا تھا۔ طبی معائنہ میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ

پولیس افسر ڈیرک شاوین نے جارج فلوئیڈ کی گردن پر 8 منٹ 46 سیکنڈ تک گھنٹے ٹیکے تھے تاہم 3 منٹ بعد ہی جارج کی ہلاکت ہو گئی تھی۔

فریزز کا کہنا تھا کہ جارج فلوئیڈ اپنی مدد کے لیے پکار رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ میرا دم گھٹ رہا ہے وہ اپنی والدہ کو بھی پکار رہا تھا لیکن پولیس افسر نے اسے دبائے رکھا۔

لڑکی کی بنائی گئی ویڈیو کی وجہ سے دنیا بھر میں نسلی امتیاز کا معاملہ اٹھا جو پوری دنیا میں پھیل گیا تھا۔

ویڈیو کے ذریعے ہی سابق پولیس افسر ڈیرک شاوین کو سزا سنائی گئی تھی اور اسے عدالت سے ہی گرفتار کر لیا تھا۔

About The Author