ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نواب مظفر خاں 1757ء ملتان کے شاہی محل ابدالی روڈ نواب شجاع الدین کے گھر پیدا ہوئے۔ نواب مظفر خاں کی تعلیم و تربیت اسلامی ماحول میں ہوئی وہ حضرت حافظ جمال اللہ ملتانیؒ کے شاگرد بنے اور بعد میں وہ اُن کے مرید بھی ہوئے۔
نواب مظفر خاں سرائیکی بولنے والی ملتانی ماں کے بطن سے پیدا ہوئے اور وہ ملتان کا اس قدر حصہ بنے کہ اُن کا رہن سہن، لباس و خوراک کے ساتھ ساتھ بول چال بھی ملتانی تھی 1777ء اُن کے والد فوت ہوئے تو انہیں تخت نشینی ملی اس پہلے سکھوں کے ملتان پر ان گنت حملے ہوئے اور نواب مظفر خاں ملتان کے سپاہ کے ساتھ سکھوں کا مقابلہ کرتے رہے۔
نواب مظفر خاں نے اقتدار سنبھالنے کے بعد سلطنت ملتان کی ترقی پر خصوصی توجہ دی ملتان کی صنعت و حرفت کے ساتھ ساتھ سلطنت ملتان کی زراعت کو ترقی دے کر ملتان کی آمدنی میں بے پناہ اضافہ کیا اور ملتان کو خوشحال ریاست بنا دیا۔ اس خطے کا ہر شخص خوشحالی کی زندگی گزارنے لگا۔
تو یہ الزام کسی بھی لحاظ سے درست نہیں کہ نواب مظفر خاں باہر سے آنے والا لٹیرا تھا جو شخص جس دھرتی پر پیدا ہوتا ہے وہ اُسی دھرتی کا بیٹا ہوتا ہے اور نواب مظفر خاں نے اپنی ماں دھرتی کے بیٹے کا حق ادا کرتے ہوئے اپنی اور اپنی آل و اولاد کی جان سرائیکی ماء دھرتی کی ناموس پر نچھاور کر دی۔ مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ نواب مظفر خاں شہید کے خاندان سے تعلق رکھنے والے عمر کمال خان ایڈووکیٹ نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ نواب مظفر خاں نے ماء دھرتی کی غیرت پر اپنی جان قربان کر دی۔ سقوط ملتان کے واقعات قلمبند کرتے ہوئے مورخین لکھتے ہیں ۔
جون کے مہینے میں سورج آگ برسا رہا ہے ٗ گرمی سے انسان تڑپ رہے ہیں ٗ بدنام زمانہ ڈاکوئوں کے جتھے پر مشتمل ’’سکھا فوج‘‘ نے قلعہ ملتان کا چاروں طرف سے محاصرہ کر لیا ہے ۔ راستے بند ٗ پانی اور راشن کی سپلائی بند ٗ بارود کی تڑ تڑاہٹ میں سکھ کمانڈر کھڑک سنگھ کی طرف سے ملتان کے فرمانروا کو پیغام آتا ہے کہ ہتھیار ڈال کر جان کی امان لے لو ٗ جواب ملتا ہے ہمیں جان کی نہیں ایمان کی امان چاہئے ٗ سکھا فوج قلعے کے اندر داخل ہونے کی کوشش کرتی ہے ٗ ملتانی سپاہ کا قائد اور اس کے پانچ بیٹے اور ایک بیٹی سب سے آگے ہیں ٗ مسلم فرمانروا کے دو بیٹے شہید ہوئے تو سکھا فوج نے کہا ٗ بوڑھے نواب اب تمہاری کمر ٹوٹ چکی ہے ٗ تختِ ملتان کی چابیاں ہمارے حوالے کر دو ٗ مسلم فرمانروا کہتا ہے ملتان کی چابیاں میرے پیٹ میں ہیں ٗ سکھا فوج کی بربریت جاری ہے ٗ سورج سوا نیزے پر ہے ٗ گھمسان کی جنگ ہو رہی ہے ٗ ملتانی سپاہ کے ساتھ ملتان کے فرمانروا کی عظیم بیٹی دخترِ ملتان صبیحہ بی بی اور اس کے ایک اور بھائی کو قتل کر دیا جاتا ہے ٗ سکھ کمانڈر کی طرف سے پیغام آتا ہے کہ ضدی نواب! اب تمہاری آل اور نسل ختم ہونے کے قریب ہے اب تم ہاتھ کھڑے کر دو ٗ ملتانی فرمانروا کا واپسی جواب ہوتا ہے مجھے پیدا کرنے والے کی قسم پانچ تو کیا پانچ لاکھ بیٹے اور بیٹیاں ہوں تب بھی میں ایک ایک کر کے اپنی ماں دھرتی اور ملتان کی ’’ویل‘‘ دیدوں ۔
تاریخی حوالے سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ 2 جون 1818ء کو نواب مظفر خان نے حملہ آور سکھا فوج سے جنگ کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا ٗسکھا فوج نے قلعہ ملتان پر قبضہ کر لیا ٗ نواب کی آل میں سے دو بیٹے اور چند سپاہی جو زندہ بچے قیدی کر لئے گئے اور انہیں لاہور بھیج دیا گیا۔ سقوط ملتان کے بعد سکھا فوج نے لوٹ مار شروع کر دی ٗ سرکاری خزانہ لوٹنے کے بعد سکھا فوج گھروں میں داخل ہوئی ٗ وہاں بربریت کی انتہاء ہوئی ٗ وہاں لوٹ مار کے علاوہ انسانوں کو تہ تیغ کیا گیا ٗ بچوں کو سانگوں پر ٹانگ دیا گیا ٗ تاریخ کی کتب میں درج ہے کہ غیرت کا یہ عظیم واقعہ بھی ملتان کے حصے میں آیا کہ اپنی عصمت و ناموس کو سکھ ہوس پرستوں سے بچانے کیلئے ملتان کی سینکڑوں و ہزاروں دوشیزائوں نے کنوئوں میں چھلانگیں مار دیں اور جب کنویں لاشوں سے بھر گئے تو ان کے منہ بند کر کے انہیںاجتماعی قبریں قرار دیدیا گیا۔
ملتان پر قبضے کے بعد سکھوں نے جس طرح لاہور میں مسجدوں کو اصطبل بنایا ٗ قرآن مجید کی بیحرمتی کی ٗ اذانوں کی آواز بند کر دی ٗ لائبریریاں جلا دیںیہی کچھ ملتان میں بھی کیا۔ وسیب اور اس کا مرکز ملتان جن حالات سے گزر رہا ہے تو اس کا تقاضہ ہے کہ ملتان کے اس خطے کے بارے میں تحقیق اور ریسرچ کی جائے ۔ اس علاقے کے لوگ ہمیشہ اعلیٰ عہدوں پر بر سر اقتدار رہے مگر اس طرف کسی نے توجہ نہ دی ۔
فاروق خان لغاری سربراہ مملکت، مخدوم سید یوسف رضا گیلانی وزیراعظم کے عہدے پر پہنچے مگر وہ بھی کوئی ایسا ادارہ قائم نہ کر سکے جو خطے کی تاریخ ، ثقافت اور جغرافیہ پر ریسرچ کرتا ۔ ملک مصطفی کھر پنجاب کے سربراہ بنے تو انہوں نے خود کو شیر پنجاب کہلوانا شروع کر دیا ۔ لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ ہمارے جو ’’ رہنما ‘‘ ہیں انہیں خود راستے کا پتہ نہیں ، نہ وہ تاریخ کا علم جانتے ہیں اور نہ اُن کو جغرافیے کا پتہ ہے اور نہ ہی اس خطے کی تہذیب و ثقافت کا ادراک رکھتے ہیں تو ایسے لوگوں نے ہماری کیا رہنمائی کرنی ہے؟
اور ہمیں کیا راستہ دکھانا ہے؟ اللہ جھوٹ نہ بلوائے ، میں وثوق سے کہتا ہوں کہ سرائیکی وسیب کے 99 فیصد رہنماؤں کو اس بات کا علم ہی نہیں کہ سقوط ملتان کیا ہے اور ملتان کے لئے اپنے اہل و عیال کی قربانی دینے والے نواب مظفر خان شہید کا مقام و مرتبہ کیا ہے ؟ اور تو اور انہیں اس بات کا بھی ادراک نہیں کہ مظفر آباد اور مظفر گڑھ کس شخصیت کے نام سے موسوم ہیں ؟ پوری دنیا میں وسیب شاید واحد خطہ ہو جسے آشکار ہونے کی ضرورت ہے ‘ اگر ریسرچ سکالر اس بارے توجہ کریں تو حیرتوں کے بہت سے جہان تلاش کر سکتے ہیں ۔
یہ بھی پڑھیں:
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر