سید راحت نقوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حامدمیر کے سیاسی و صحافتی نظریات سے ہمیں قطعاً اتفاق نہیں۔ اس کے مجموعی صحافتی کردار پہ بھی تنقید کی جا سکتی ہے، بعض معاملات پہ اس کے کمزور اسٹانس کا دفاع نہیں ہو سکتا، مگر اس کے باوجود، اس وقت ہم حامد میر کے ساتھ ہیں۔
اور اس کی ٹھوس وجوہات ہیں۔
حامدمیر اپنی تمام تر حب الوطنی کے باجود ہمیشہ بلوچ قومی مؤقف کے ساتھ کھڑا رہا ہے، وہ بلوچ اور بلوچستان کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں پہ ہمیشہ کھل کر بولا ہے۔ لاپتہ افراد کے معاملے پر اس کی آواز ہمیشہ بلند رہی ہے۔ ماما قدیر کو اس نے پاکستانی مین اسٹریم میڈیا کے پرائم ٹائم میں جگہ دی۔ اسی پہ گولیاں بھی کھائیں۔ بلوچستان کے شہید صحافت کہلانے والے جواں مرگ صحافی ارشاد مستوئی کی ٹارگٹ کلنگ پہ پہلا کالم اسی نے لکھا۔ ایک عالمی صحافتی ایوارڈ سے اسے خاصی رقم ملی تو بلوچستان کے شہید صحافیوں کے چند خاندانوں میں بانٹ دی۔ ارشاد کے گھرانے کو بھی پانچ لاکھ روپے بھیجے۔
حالیہ ایشو پہ اس نے صحافی کا ساتھ دیا اور اسے مارنے والوں کو کھل کر للکارا۔ میرے آپ جیسے پچاس لوگوں کی آواز اتنی نہیں سنی جاتی، جتنی ایک حامد میر کی سنی جاتی ہے۔ اس لیے اس آواز کی، اس مؤقف کی اہمیت الگ ہے۔ اسی لیے سامنے والے بوکھلائے اور اس کا پروگرام بند کروا دیا۔
اس سارے عرصے میں پاکستانی حکومتی ٹرولرز تو اسے ٹرول کرتے رہے٬ صد شکر کہ بلوچستان سے ایسی کوئی منافق آواز نہیں آئی۔ بلوچستان نے مشترکہ طور پر حامد میر کے حق میں آواز بلند کی۔ بلوچستان نے ثابت کیا کہ وہ نہ احسان فراموش ہے، نہ محکوم اور ظالم کے مقابلے میں بلواسطہ یا بلاواسطہ ظالم کا ساتھ دینے والا۔
جس طرح حامد میر ہمیشہ اپنے وطن سے محبت کا پرچم لے کر محکسوم بلوچوں کے ساتھ رہا، ویسے ہی اس محکوم دھرتی کے عوام اپنے وطن سے محبت کا پرچم لیے، اس وقت اس کے ساتھ ہیں۔ بنا کسی اگر مگر کے، بنا کسی چونکہ چنانچہ کے۔
اے وی پڑھو
تانگھ۔۔۔||فہیم قیصرانی
،،مجنون،،۔۔۔||فہیم قیصرانی
تخیلاتی فقیر ،،۔۔۔||فہیم قیصرانی