نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

وزیر اعظم عمران خان سے لیہ میں ملاقات||ظہور دھریجہ

میاں نوازشریف کی جماعت سے تعلق رکھنے والے سرداروں نے دوسرے طریقے سے اپنا حصہ وصول کرنے کی کوشش کی اور اپنے ڈاکوئوں کے ذریعے فیکٹری سے حصہ بھتے کی شکل میں وصول کرنے لگے۔

ظہور دھریجہ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

25 مئی 2021ء کا دن ڈیرہ غازیخان کیلئے یوم سیاہ کی حیثیت رکھتا ہے کہ اس روز تین افراد کو لادی گینگ نے مخبری کے شبہ میں اغواء کیا ، ایک شخص فائرنگ سے ہلاک ہو گیا اور دوسرے پر اس قدر ظلم ہوا کہ اس کے ہاتھ کاٹے گئے، ناک کاٹی گئی اور اُس پر بد ترین تشدد ہوا لیکن اس وقت انتہاء ہو گئی جب ظلم کی ویڈیو بنائی جاتی رہی اور میڈیا پر اَپ لوڈ کی گئی۔ مگر ڈی جی خان کے سرداروں اور سیاستدانوں کو ہوش نہ آیا۔
انسانی حقوق کے حوالے سے کام کرنے والی قوم پرست سرائیکی جماعتوں کے نوجوانوں نے جب اس ظلم کے خلاف سوشل میڈیا پر طوفان اٹھایا تو حکومت کی طرف سے نوٹس لیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ گینگ کا گھیرا تنگ ہو چکا ہے، کچھ لوگ مارے گئے مگر بہت سے فرار ہیں۔ جو لوگ فرار ہیں وہ سخت خطرے کا باعث ہیں۔ سابق گورنر ذوالفقار خان کھوسہ کے صاحبزادے سردار سیف الدین خان کھوسہ، جو کہ ممبر اسمبلی بھی ہیں، نے حکومتی نوٹس اور آپریشن کے بعد بیان دیا ہے کہ مسئلے کا حل یہ ہے کہ ڈی جی خان میں تمنداریاں ختم کی جائیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ تمنداریاں کون ختم کرے گا؟
آپ لوگ ہی تمندار ہیں اور آپ ہی حکومتوں کا حصہ ہوتے ہیں۔ پنجاب اسمبلی سے ڈی جی خان کی تمنداریوں کے خاتمہ کیلئے قرارداد منظور ہوئی تھی ۔ اب پنجاب کے وزیر اعلیٰ سردار عثمان خان بزدار خود تمندار ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ وہ انسانیت کی بھلائی کے حوالے سے تمنداریوں کے خاتمے کا کام کر دیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ لغاری، مزاری، دریشک، گورچانی اور قیصرانی وغیرہ جتنے بھی موجودہ تمندار ہیں وہ سب پڑھے لکھے ہیں، ان کے بزرگ جو کہ انگریز کے وفادار تھے اور وفاداری کے صلے میں مراعات حاصل کیں، اب اس تہمت کو حرف غلط کی طرح مٹانے کی ضرورت ہے۔
موجودہ سانحہ لادی گینگ کے کمانڈر خدا بخش عرف خدی چکرانی کے بد بخت ہاتھوں سے وقوع پذیر ہوا۔ ۔ اس پر وزیر اعظم عمران خان اور وزیر اعلیٰ سردار عثمان خان بزدار نے نوٹس لیا۔ یہ نوٹس لیہ میں لیا گیا۔ وہاں بھی ہم موجود تھے۔ وسیب کے سینئر صحافی وزیر اعظم سے ملاقات کر رہے تھے جب ان کی توجہ اس واقعہ کی طرف دلائی گئی تو وہ غصے سے لال پیلے ہو گئے اور کہا کہ مجھے اس واقعہ کا علم ہوا ہے اور میں نے پہلے ہی درندوں کیخلاف کارروائی کا حکم دے دیا ہے، ہم رینجرز کی خدمات بھی حاصل کر رہے ہیں اور انسانی درندوں کو ہر صورت کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔
لادی گینگ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسے ڈیرہ غازیخان کے سرداروں کی پشت پناہی حاصل ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ ایک لحاظ سے سرداروں کا عسکری ونگ ہے۔ ڈیرہ غازیخان کے مغربی حصے میں بارڈر ملٹری پولیس کے شعبہ کے نام سے تھانہ ہے اور گینگ کے ٹھکانے بھی انہیں علاقوں کی طرف ہیں۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بارڈر ملٹری پولیس ان ڈاکوئوں سے ملی ہوئی ہے اور عجب بات یہ ہے کہ یہ تنخواہ حکومت سے لیتے ہیں اور کام سرداروں کی مرضی سے کرتے ہیں اور بعض حالات میں یہ خود بھی ڈاکوئوں کا روپ دھار لیتے ہیں۔ یہ ڈاکو گینگ سرداروں کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں اور کوئی شخص سردار کی غلامی نہ کرے یا ان کی چاپلوسی نہ کرے تو سردار اپنے پالتو ڈاکوئوں کے ذریعے ان کو صفحہ ہستی سے مٹا دیتے ہیں۔
لادی گینگ کے ارکان جس علاقے میں رہتے ہیں وہاں سیمنٹ فیکٹری لگی ہوئی ہے۔ یہ سیمنٹ فیکٹری حکومت کی تھی اور میاں نوازشریف نے اونے پونے داموں اپنے تجارتی پارٹنرکو دے دی۔ فیکٹری اربوں کا منافع دے رہی ہے۔ میاں نوازشریف کی جماعت سے تعلق رکھنے والے سرداروں نے دوسرے طریقے سے اپنا حصہ وصول کرنے کی کوشش کی اور اپنے ڈاکوئوں کے ذریعے فیکٹری سے حصہ بھتے کی شکل میں وصول کرنے لگے۔
کہا جاتا ہے کہ ڈاکو گینگ کی ڈیمانڈ بڑھنے لگی تو اس وقت کے وزیر اعظم کو مالکان نے شکایت کی اور نوازشریف نے کھوسہ سرداروں کو کہہ کر معاملات طے کرا دیئے مگر یہ مسئلے کا حل نہ تھا چونکہ فیکٹری بھی ناجائز طریقے سے حاصل کی گئی تھی اور بھتہ بھی اسی انداز میں وصول کیا جا رہا تھا۔
ہر غلط کام کا غلط نتیجہ سامنے آتا ہے۔ سیمنٹ فیکٹری کیلئے اب بھی شفافیت کی ضرورت ہے اور اب بھی ضرورت اس بات کی ہے کہ اس فیکٹری میں مقامی لوگوں کو جائز طریقے سے ملازمتیں اور روزگار دیا جائے اور یہ فیکٹری ڈاکوئوں کی پرورش کرنا بند کرے۔ کہا جاتا ہے کہ لادی گینگ ٹرائبل ایریا میں رہتا ہے اور میدانی علاقوں شاہ صدر الدین، یارو کھوسہ، کوٹ مبارک، شکانی، بالا کوٹ، چھابری و دیگر علاقوں میں بھی کارروائیاں کرکے پہاڑوں کی طرف روپوش ہو جاتا ہے۔
ٹرائبل ایریا میں سرداروں کا حکم چلتا ہے، دوسرے معنوں میں ریاست کے اندر ریاست بنی ہوئی ہے۔ مسئلے کا حل یہ ہے کہ ٹرائبل ایریا کی حیثیت ختم کی جائے اسے بندوبستی علاقوں میں شامل کیا جائے تاکہ وہاں کے باشندے 21ویں صدی میں اپنے انسانی حقوق کے ساتھ زندہ رہ سکیں۔ ڈاکو گینگ اسلحہ کے زور پر مقامی لوگوں سے کار، ٹریکٹر، موٹر سائیکل، گندم و دیگر اجناس سے بھری ٹرالیاں ہی نہیں چھینتا ان سے انسانیت سوز سلوک بھی کرتا ہے۔
گینگ کی کارروائیاں اسی طرح غیر انسانی ہوتی ہیں جس طرح عرب میں بدو کرتے آرہے ہیں۔ اغواء برائے تاوان ان کا مکروہ ترین دھندہ ہے۔ یہ لوگ اتنے درندہ صفت ہیں کہ واردات کے موقع پر بیماروں اور لاچاروں کو بھی معاف نہیں کرتے۔ شادی اور بارات کو لوٹنے کیلئے یہ ڈاکو ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ ’’لادی گینگ آپریشن تصویر کا دوسرا رخ‘‘ کے عنوان سے سینئر کالم نگار اشرف شریف کا روزنامہ 92 نیوز میں گزشتہ دنوں کالم شائع ہوا، انہوں نے بجا طور پر لکھا کہ ڈیرہ غازیخان کے 52 فیصد رقبے پر پنجاب حکومت کا کنٹرول ہے نہ وہاں پولیس کی عملداری ہے، جناب اشرف شریف کا پورا کالم پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے جس کی ایک ایک سطر اور ایک ایک لفظ سچائی پر مبنی ہے۔
میں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ ڈاکوئوں کے پاس جدید ترین اسلحہ ہے، ان کے پاس راکٹ لانچر، دستی بم، ایم ٹی ایئر کرافٹ گنیں اور کلاشنکوف وغیرہ سب کچھ ہے اور ان کے ٹرائبل ایریا میں محفوظ ٹھکانے ہیں۔ اسی بناء پر مستقل بنیادوں پر طاقتور آپریشن کی ضرورت ہے تاکہ انسانیت سوز مظالم کا ہمیشہ کیلئے خاتمہ ہو سکے۔

 

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

About The Author