حسن مرتضی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے آبائی شہر ڈیرہ غازی خان میں ایک مسلح جتھہ تیز دھار آلے سے جیتے جاگتے انسان کے بازو قلم کرتا ہے ، ناک کاٹتا ہے متاثرہ شخص بیچارہ وہیں تڑپ تڑپ کر جان دے دیتا ہے ۔
اسے موٹرسائیکل پر لاد کر طبی امداد کےلیے لے جایا جاتا ہے مگر ایمبولینس کے آنے تک اس کی موت واقع ہوجاتی ہے ۔
اس سے زیادہ خوفناک بات یہ ہے کہ لادی گینگ نامی یہ جتھہ اس ساری کاروائی کو لائیو دکھاتا ہے ۔
میڈیا چپ ہے ، ہائی کورٹ کے جج شریف خاندان کو ضمانتیں دینے میں مصروف ہیں ، کسی کے کان پہ جوں نہیں رینگی ۔
ایسا سانحہ اگر وزیراعلیٰ سندھ یا پیپلز پارٹی قیادت کے آبائی شہر لاڑکانہ ، نوابشاہ میں ہوتا تو اب تک سپریم کورٹ جوڈیشل کمیشن تشکیل دے چکا ہوتا
جبران ناصر وزیراعلیٰ ہاوس کے سامنے دھرنہ دے کر وزیراعلیٰ کی کھال اتارنے کا مطالبہ کررہا ہوتا
سندھ ہائی کورٹ فوری طور پر اس حلقے کے ایم پی اے کو پھانسی کی سزا سنا چکی ہوتی۔
یوتھیے ، لبرلز اب تک سندھ کو دس ہزار سال قدیم زمانے میں شمار کرکے تمام سندھیوں کو واجب القتل قرار دے چکے ہوتے
ہسپتال اور مقتول کے درمیان فاصلے ماپ کر پیپلز پارٹی پر تبرے بازی کا بازار گرم ہوچکا ہوتا
اقرار الحسن نزدیکی ہسپتال جاکر وہاں ڈاکٹروں کو بے عزت کرچکا ہوتا
اس لاش کا قصور یہی ہے کہ یہ پنجاب میں گری ہے۔ اس پر کسی کی قسم کی بات کرنے سے ریاست کے دل کا امیج خراب ہوسکتا ہے ۔ اور سٹیٹ کے پالتو حکمران سیاستدانوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
کاش تم سندھ میں قتل ہوتے تو شاید آج ٹوئیٹر پہ ٹاپ ٹرینڈ ہوتے اور انصاف بھی مل چکا ہوتا۔
اے وی پڑھو
تانگھ۔۔۔||فہیم قیصرانی
،،مجنون،،۔۔۔||فہیم قیصرانی
تخیلاتی فقیر ،،۔۔۔||فہیم قیصرانی