چین سے مطالبہ کیا کہ چھان بین اور اسباب کے تعین میں امریکی حکام کے ساتھ تعاون کیا جائے
واشنگٹن/ ایجنسیز/ امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے انٹیلی جنس اداروں کو ہدایت کی ہے کہ وہ کرونا وائرس کے ماخذ کے بارے میں چھان بین کی کوششیں تیز کریں
اور اس ضمن میں 90 روز کے اندر تحقیقاتی رپورٹ پیش کریں۔ صدر بائیڈن نے کہا ہے کہ کووڈ 19 وبا کی ابتدا کے اصل حقائق جاننے کی ضرورت ہے،
خصوصی طور پر اس امکان سے متعلق حتمی رائے سامنے آنی چاہیے کہ آیا کرونا وائرس کی شروعات حادثاتی طور پر چینی لیبارٹری سے ہوئی؟
صدر بائیڈن نے اپنے ایک بیان میں امریکی قومی لیبارٹریز کو ہدایت کی کہ وہ اس تحقیقات میں انٹیلی جنس اداروں کی مدد کریں اور چین سے مطالبہ کیا کہ اس چھان بین اور اسباب کے تعین میں امریکی حکام کے ساتھ تعاون کیا جائے۔
بائیڈن انتظامیہ کئی ماہ سے اس امکان کو رد کرتی آئی ہے کہ کرونا وائرس کا آغاز چین کی لیبارٹری سے ہوا تھا۔ لیکن وبا کے پھیلاو¿ کے اسباب جاننے کے لیے حال ہی میں امریکہ اور کئی ممالک کی جانب سے بیانات اور مطالبات سامنے آئے ہیں۔
امریکی اخبار ’دی وال اسٹریٹ جرنل‘ نے اتوار کو امریکی انٹیلی جنس کی خفیہ رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ
چین میں وبا کے پھیلاو¿ سے قبل ووہان انسٹی ٹیوٹ آف وائرولوجی کے تین محققین نومبر 2019 میں بیمار ہوئے تھے۔ بائیڈن نے کہا کہ اس بات کا ثبوت کم ہی ہے کہ یہ وائرس انسانوں میں کسی جانور سے منتقل ہوا یا پھر حادثاتی طور پر کسی لیبارٹری سے
انسانوں کو لگا۔ تاہم، امریکی صدر نے کہا کہ اس ضمن میں اب تک چین کی حکومت نے بین الاقوامی تحقیقات میں تعاون کرنے سے انکار کیا ہے۔ اس لیے اس بات کا بھی قوی امکان ہے کہ چین کی جانب سے اب بھی تعاون میسر نہ آئے اور کوئی حتمی نتیجہ سامنے نہ آئے۔
انہوں نے کہا کہ خصوصی طور پر اس بات کی کھوج لگائی جائے کہ یہ امکان کہاں تک درست ہے کہ کرونا وائرس کی شروعات چینی لیبارٹری سے ہوئی۔
یاد رہے کہ دسمبر 2019 سے دنیا بھر میں یہ باتیں گردش کرتی رہی ہیں کہ کرونا وائرس کی ابتدا چین کے شہر ووہان سے ہوئی۔
اس سلسلے میں یہ الزام بھی لگایا جاتا رہا ہے کہ یہ وائرس ووہان کی لیبارٹری سے نکل کر پھیلا، یا پھر اس کی شروعات ووہان کی جانوروں کی مارکیٹ سے ہوئی
جہاں چمکادڑ سمیت کئی جانور فروخت ہوتے تھے۔
اے وی پڑھو
موہری سرائیکی تحریک دی کہاݨی…||ڈاکٹر احسن واگھا
حکایت :مولوی لطف علی۔۔۔||رفعت عباس
حکایت: رِگ ویدوں باہر۔۔۔||رفعت عباس